You are currently viewing کینسر کا بڑھتا ہوا خطر ہ اور امید

کینسر کا بڑھتا ہوا خطر ہ اور امید

کینسر مہم چلانے والی، بلاگر، براڈکاسٹر اور سابق ٹیچر ڈیبراجیمز چالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ وہ گھر پر آنتوں کے کینسر جس(ے انگریزی میں باو ل کینسر بھی کہتے ہیں)کی نگہداشت حاصل کر رہی تھیں اور کینسر کی تحقیق کے لیے لاکھوں  پاؤنڈ جمع کر چکی تھیں۔

  بی بی سی کے پوڈ کاسٹ کی میزبان کو ان کے فنڈ ریزنگ کے اعتراف میں مئی میں  ’ڈیم‘ کا خطاب دیا گیا۔ وہ دو بچوں کی ماں تھیں اور 2016میں آنتوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ ڈیبرا جیمز کی موت کی خبر کو برطانیہ سمیت دنیا بھر میں اس لیے اہمیت دی گئی کہ انہوں نے  ’باول کینسر‘کے متعلق کھل کر مہم چلائی تھی اور اس کے ریسرچ کے لیے انہوں نے چھ ملین پونڈ سے بھی زیادہ رقم  جمع کی تھی۔

آنتوں کے کینسر کی ممکنہ علامات آنتوں (کولوریکٹل) کینسر کی علامات میں شامل ہوسکتے ہیں۔ پچھلے راستے سے خون بہنا یا  پاخانے   میں خون کا پایا جانا، آنتوں کی معمول کی عادت میں تبدیلی، جیسے ڈھیلاپن، زیادہ کثرت سے پاخانہ یا قبض کا ہونا، وزن کا کم ہونا، پیٹ میں درد، ایسے علامات ہیں جو پائے جانے پر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔آنت کا سرطان ایک ایسی عام اصطلاح ہے جو ہم ان سرطان کے لئے استعمال کرتے ہیں جو بڑی آنت میں شروع ہوتے ہیں۔ اس بات پہ انحصار کرتے ہوئے کہ سرطان کہاں سے شروع ہوا ہے۔ اس کو کولون یا بڑی آنت کا سرطان بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جب آنت کے سرطان کے ابتدائی  مرحلے میں تشخیص ہوجاتی ہے تو 98فیصدسے زیادہ لوگ اپنی بیماری سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

انگلینڈ میں 55 سے 60سال کی عمر اور اس سے بڑے ہر شخص کو این ایچ ایس (نیشنل ہیلتھ سروس)ہوم ٹیسٹنگ کٹ استعمال کرتے ہوئے آنت کے کینسر کی اسکریننگ  کرتے ہیں۔ جس سے فضلے میں خون کی چھوٹی سی بھی مقدار کا پتہ لگتا ہے۔یہ خون اس وجہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ آنت کے کینسرز سے کبھی کبھی خون رستا ہے۔خون کا پتہ لگانے سے آنت کے کینسر کی تشخیص نہیں ہوتی لیکن یہ ہمیں بتاتا ہے کہ آپ کو آنت کے معائنے کی ضرورت ہے۔زیادہ تر لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ اگر وہ چاہیں تو کینسر کے خطرے سے بچ سکتے ہیں۔ اس بات کا انکشاف ورلڈ ہیلتھ آر گنائیزیشن کے سائنسدانوں نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آج دنیا کینسر کو سمندر کی لہر کی طرح سامنا کر رہی ہے اور اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ کینسر کو روکنے کے لئے شراب اور شکر کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جائے۔

ہر سال لگ بھگ 14ملین لوگوں ک اکینسر ٹیسٹ ہوتا ہے۔لیکن یہ پیشن گوئی بھی کی جارہی ہے کہ 2025 ٹک یہ تعداد میں 19ملین ہوجائے گی۔  2030میں یہ بڑھ کر 22ملین  اور 2035  میں 24ملین ہوجائے گی۔ لیکن اگر اس کے بارے میں لوگوں کو صحیح معلومات ہو جائیں تو  عالمی ادارہ  صحت کے خیال میں  یہ تعداد کم ہوجائے گی۔ ڈبلیوایچ او انٹرنیشنل ایجنسی فور کینسر ریسرچ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر کریس وائیلڈ کے مطابق دنیا میں کینسر کے مریضوں کی تعداد  تیزی سے بڑھ رہی ہے  اور اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں پہلا دنیا میں  لوگوں کی  عمر میں اضافہ اور دوسرا دنیا کی آبادی کا بڑھناہے۔ڈاکٹر کریس وائیلڈ کا مزید کہنا ہے کہ کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کینسر کی روک تھام بہت اہم ہے لیکن اس بات کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ کینسر رپورٹ میں کہا گہا ہے کہ کینسر کی روک تھام کے لئے تمباکو نویشی،انفیکشن،شراب،موٹاپا،غیر فعالیت،تابکاری(سورج اور طبی اسکین)،فضائی آلودگی،ماحولیاتی عوامل، تاخیر باپ،کم بچوں کا ہونا اور ماوٗں کو بچوں کو دودھ نہ پلانا جیسی چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

زیادہ تر ممالک میں چھاتی کا کینسر عورتوں میں بہت عام پایا جاتا ہے۔تاہم افریقہ کے زیادہ تر  حصوں میں گریوا کینسر کا غلبہ ہے۔ انگلینڈ میں گریوا کینسر عورتوں میں دوسرا سب سے زیادہ پائے جانے والا کینسر ہے۔ اس کے لئے حکومت نے تمام اسکولوں میں 12سے 13سال کی لڑکیوں کے لئے مدافعتی انجیکشن کو لازمی قرار دیا ہے۔ یونیورسیٹی آف نیو ساؤتھ ویلس آسٹریلیا کے ڈاکٹر برنارڈ اسٹیویرٹ جو کہ اس رپورٹ کے ایڈیٹر ہیں کا کہنا ہے کہ ان چیزوں کی روک تھام ضروری ہے جس سے انجانے میں ہزاروں لوگ کینسر کے شکار ہورہے ہیں۔کینسر کے خلاف جنگ میں ان چیزوں کی روک تھام ایک اہم ہے۔ ڈاکٹر اسٹیویرٹ نے یہ بھی کہا کہ زیادہ تر ممالک میں چھاتی کا کینسر سب سے عام ہے لیکن اس کے علاوہ انسانی رویے بھی اس کی ایک وجہ ہے جیسا کہ آسٹریلیا میں غسل آفتابی ہے جس سے جلد جھلس جاتی ہے۔ انہوں نے یہ  رائے بھی ظاہر کی ہے کہ’ہمیں  اس بات کا علم ہے کہ شراب پینے کے نقصانات کیا ہیں اور اس کے اثرات کتنے شدید ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں  کوشراب پی کے گاڑی چلانے سے منع کیا جاتا ہے یا لوگ شراب پی کر بے جا حملہ کرتے ہیں لیکن شراب سے کینسر کے ہونے کا اندیشہ بہت زیادہ ہے اس کے بارے میں اس کو تسلیم نہیں کیا جارہا ہے‘۔

دریں اثنا ورلڈ کینسر ریسرچ فنڈ سروے کے مطابق یو کے کے 2046لوگوں سے کینسر کے متعلق سوالات پوچھے گئے تو 49 فیصدفی صد لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ غذا کے اضافہ سے کینسر کے ہونے کا خطرہ ہے۔ہر تیسرے آدمی نے یہ کہا کہ کینسر کے ہونے کی ایک اہم وجہ خاندان کی تاریخ ہے جسے انگریزی میں  جنیٹک بھی کہتے ہیں۔لیکن  10 فیصدفی صد سے کم لوگوں کو کینسر کا مرض وراثت سے ہوتا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں سب سے عام کینسر کو تندرست وزن، صحت مند غذا اور جسمانی طور پر فعال رکھنے سے آسانی سے روکا جاسکتا ہے۔ سبزیاں،پھل اور اناج کا استعمال کثرت سے کریں اور شراب اور گوشت کا استعمال کم کر دیں۔اس سے سائنسداں کا ماننا ہے کہ کینسر کا ہونے کا خطرہ کم ہوجا تا ہے۔

برطانیہ میں کینسر ریسرچ یو کے، میک میلن کینسر سپورٹ اورمیری کری کینسر کیئر ایسے چیریٹی ہیں جو کینسر کے ریسرچ سے لے کر اس کے علاج اور مریضوں کو ہر طرح کی امداد پہنچانے میں نمایاں رول نبھا  رہے ہیں۔ یہ چیریٹی زیادہ تر رقم عام آدمی کے تعاون اور فنڈ ریزنگ سے جمع کرتی ہے۔ رپورٹ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کینسر کی روک تھام کے لئے ہم سب کو ان تمام باتوں سے آشنا ہونا پڑے گا جو کینسر  پھیلنے کا سبب بنتی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے ہم سب کو مل جل کر اقدامات اٹھانے پڑیں گے ورنہ کینسر کا علاج اور اس کی دیکھ بھال کا معاملہ آنے والے  وقت میں کافی  سنگین ہوجائے گا۔ 

Leave a Reply