You are currently viewing سہمی آنکھوں میں مگر خواب جواں بنتا گیا

سہمی آنکھوں میں مگر خواب جواں بنتا گیا

میں “مسلم” ہوں اور میرا نام” فہیم اختر “ہے اور اظہارِ رائے آزادی میرا حق ہے۔ میں مانتا ہوں کہ جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔تاہم میں فکر مند بھی ہوں کہ میرے مسلم ہونے اور میرے مسلم نام کی وجہ سے میری اظہار رائے آزادی کا گلا دبا دیاجاسکتا ہے۔

 اور مجھ پر جھوٹے الزامات لگا کر اور فریب دے کر پریشان بھی کیا جاسکتا ہے جس سے میں فکر مند بھی ہوں۔اظہار آزادی صرف میرا ہی حق نہیں بلکہ یہ ہر اُس انسان کا حق ہے جو اظہار آزادی پر یقین رکھتا ہے کہ وہ اپنی اظہار رائے آزادی کی خاطر بلا کسی تفریق اور مذہب و ملت احتجاج کرے اور اپنی اظہار آزادی کی آواز کوقائم و دائم رکھے۔تاکہ اس سے جمہوریت کی جڑیں پختہ اور مضبوط ہوں اور ہم آزادنہ طور پر اپنے حقوق کے ساتھ جئیں۔

آزادی اظہار  کا مطلب یہ ہے کہ ہنگامی حالات میں بھی عوامی بحث کو مکمل طور پر دبایا نہ جائے۔ آزادی اظہار اور جمہوریت کے درمیان تعلق کے سب سے قابل ذکر حامیوں میں سے ایک الیگزینڈر میکلی جان ہے۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ جمہوریت کا تصور عوام کی خود مختاری ہے۔ اس طرح کے نظام کے کام کرنے کے لیے با خبر ووٹر ضروری ہیں۔ مناسب طور پر علم رکھنے کے لیے، معلومات اور خیالات کے آزادانہ اظہار میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔اسی طرح میکلیجوہن کے مطابق جمہوریت اپنے ضروری آئیڈیل کے مطابق نہیں ہوگی اگر اقتدار میں رہنے والے معلومات کو روک کر اور تنقید کو دبا کر رائے دہندہ کو جوڑ توڑ کریں۔

تقریر کی آزادی ایک ایسا اصول ہے جو کسی فرد یا کمیونٹی کی انتقامی کارروائی، سنسر شپ یا قانونی منظوری کے خوف کے بغیر اپنی رائے اور خیالات کو بیان کرنے کی آزادی کی دیتا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون میں اظہار رائے کی آزادی کو انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔بہت سے ممالک میں آئینی قانون موجود ہے جو آزادی اظہار کی حفاظت کرتا ہے۔آزاد تقریر، بولنے کی آزادی اوراظہار رائے کی آزادی جیسی اصلاحات کو سیاسی گفتگو میں باہمی معواصلت کے لئے  استعمال کیا جاتا ہے۔تاہم قانونی لحاظ سے اظہار رائے کی آزادی میں معلومات یا خیالات کی تلاش، وصول کرنے اور فراہم کرنے کی کوئی بھی سرگرمی شامل ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی ذریعہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

حال ہی میں ہندوستان کی معروف جے این یو (جواہر لعل نہرو یونورسٹی) کے سابق طالب علم رہنما عمر خالد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سینکڑوں طلبہ، شہری حقوق کے کارکنان اور میڈیا شخصیات جمع ہوئے۔ دراصل اس اظہار یکجہتی کی ایک وجہ 2020کے دہلی فسادات کے معاملے میں گرفتار ہونے کے بعد جیل کی سلاخوں کے پیچھے عمر خالد نے 1000دن مکمل کیے تھے۔کارکنان” جمہوریت اختلاف رائے اور سنسر شپ “کے بارے میں بات کرنے کے لیے پریس کلب میں جمع ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خالد کی 1,000دن کی قید دراصل” 1,000دنوں کی مزاحمت “کے برابر ہے۔

خالد عمر جس نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے جھاڑ کھنڈ میں قبائلیوں پر پی ایچ ڈی مکمل کی تھی۔ انہیں 14دسمبر 2020کو گرفتار کیا گیا تھا اور دہلی پولیس کے ذریعہ غیر قانونی سرگمیوں کے ایکٹ اور  تعزیرات ہند کے تحت  فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ عمر خالد غیر قانونی سرگرمیوں اور  فسادات کا ماسٹر مائنڈ تھا۔

پربھات پٹانئک پروفیسر ایمریٹس، جے این یو نے کہا کہ خالد عمر کی مسلسل نظر بندی صرف ایک ذاتی المیہ نہیں ہے بلکہ ایک قابلیت کی سماجی بربادی ہے۔ نو آبادیاتی دنوں میں بھی گاندھی دو سال سے زیادہ جیل میں نہیں رہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نہرو ایک بار میں 1041دن تک سب سے طویل جیل میں رہے اور عمر خالد  1000دن جیل میں رہ چکے ہیں۔ یہ جمہوریت کے خلاف ہے، اس طرح کسی کو بھی معمولی سے معمولی بہانے سے جیل میں ڈالا جاسکتا ہے۔جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔

یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بین الاقوامی مذہبی آزادی پر 2020 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ آئین ضمیر کی آزادی ہے اور تمام افراد کو آزادی سے مذہب کا دعوی کرنے اور اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق ہے۔اس کے علاوہ ایک سیکولر ریاست کو مشورہ دیتا ہے کہ ریاست کے تمام مذاہب کے ساتھ غیر جانبدارانہ سلوک کرنے کی ضرورت ہے اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔

ہندوستان میں 2019کے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے متعلق مسلسل مظاہرے ہوئے۔ جس میں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے تارکینِ وطن کو دی جانے والی تیز رفتار فطری نوعیت کی دفعات سے خارج کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے نئی دہلی میں پر تشدد فساد ہوا اور مظاہرین پر حملے بھی کئے گئے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق گواہوں کے اکاونٹس اور ویڈیو شواہد نے تشدد میں پولیس کی مداخلت کو ظاہر کیا۔ مسلم ماہر تعلیم، انسانی حقوق کے کارکنوں، سابق پولیس افسران اور صحافیوں نے دہلی پولیس کے ذریعہ فسادات کی تحقیقات میں مسلم مخالف تعصب کا الزام لگایا۔جس میں عمر خالد کا نام نمایاں طور پر لیا جا سکتا ہے جنہیں اب تک جیل میں بند رکھا گیا ہے۔

اگر ہم جائزہ لیں تو ہمیں پتہ یہ چلتا ہے کہ حکومت بعض اوقات مذہبی اقلیتوں پر حملے  روکنے میں ناکام رہی ہے۔سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مذہبی اقلیتوں کے بارے میں اشتعال انگیز عوامی تبصرے یا سوشل میڈیا پوسٹ کیں۔ جس سے ایک خاص طبقے کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔گائے کے ذبیح یا گائے کے گوشت کی تجارت کے الزامات کے بہانے سے مذہبی اقلیتی برادریوں کے افراد پر مسلسل حملے ہوتے رہے۔ہندوستان کی ریاست اتر پردیش میں پولیس نے اب تک گائے کے ذبیح کے 1,716سے زیادہ مقدمات درج کیے اور 4000سے زیادہ گرفتاریاں کیں۔تاہم اتر پردیش میں الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گائے کے ذبیح کی روک تھام کے قانون کا معصوم لوگوں کے خلاف غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ مذہب کی آڑ میں سیاسی روٹی سیکنا ہے تو پھر کون عدالت کی سنتا ہے۔

اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ جن ناانصافیوں کے بارے میں لوگ مایوس ہوجاتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ کیا انہیں کبھی انصاف ملے گاتو ان کا غصہ بعض اوقات اخلاقی تلخی کے جذبات میں بدل جاتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ مظلوم لوگوں کے پاس عموماً بہتر سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کی امید کھونے کی کئی وجوہات ہوتی ہے۔لہٰذا بعض اوقات تلخی کی وجہ سمجھ میں آتی ہے،چاہے اسے برداشت کرنا بالآخر ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہو۔تاہم ان باتوں میں یکجہتی  کی ضرورت ہے۔ یہ امید  تاریکی میں بھی روشنی کی کرن کا کام کرتی ہے۔ میں اپنے اس شعر سے آج کی بات ختم کرتا ہوں کہ:

جی رہا ہوں زیرِ سایہ خوف و دہشت کے فہیم

سہمی آنکھوں میں مگر خواب جواں  بنتا گیا

Leave a Reply