You are currently viewing یوگا اِن لندن

یوگا اِن لندن

یہ بات 1978 سے 1983کی ہے جب میں محمد جان ہائی اسکول کلکتہ کا طلب علم تھا۔ کئی اہم مضامین کے ساتھ ایک مضمون فیزیکل ایجوکیشن کا بھی ہوتا تھا۔جس میں یوگا کرنا بھی لازمی تھا۔ میں اسکول میں سیدھا سادھا اور کم گو لڑکا تھا جس سے اساتذہ سے لے کر کلاس کے ساتھی مجھے کمزور اور نا ہل سمجھتے تھے۔

میری سادگی کی وجہ سے اساتذہ تو دھیان ہی نہیں دیتے تھے اور کلاس کے ساتھی تو ہر وقت میرا مذاق اڑاتے رہتے۔جس سے میری صلاحیت اور قابلیت بری طرح مجروح ہوئی تھی۔لیکن جس دن یوگا کی کلاس ہوتی، اس دن مارے پسینے کے میرا برا حال ہوجاتا۔میں نے بھی استاد محترم کے حکم پر یوگا کرتے ہوئے یوگا کاچارٹ خرید رکھا تھا۔چارٹ میں بنی یوگا کی تصویروں کو دیکھ کر ذہن میں ایک ہی بات ابھرتی تھی کہ آج ایسا ہی یوگا کر کے کلاس کے ساتھیوں کو حیران کردوں گا۔ لیکن کیا بتاؤں،  ایک تو میرا گول مٹول جسم جسے میں بمشکل توڑ موڑ کر تصویر میں بنی یوگا پوز کی نقل کرنے میں خدا جانے یوں جسم ٹیڑھا میڑھا ہوجاتا کہ کلاس کے ساتھی تو مسکراتے ہی اور استاد بھی ڈانٹ لگاتے کہ ٹانگ کو اور سیدھا کر، تو گردن اور نیچے لے جاؤ۔ مت پوچھئے، اس وقت تو جی چاہتا کہ دیوار پر ٹنگی یوگا کی تصاویر کو جلا ڈالوں تاکہ کم از کم میری شرمندگی کم ہو۔

اسکول سے فارغ ہونے کے بعد کالج میں یوگا وغیرہ کا نہ جوش رہا اور نہ ہی اسے روزانہ کرنا ضروری سمجھا۔ البتہ ہندوساتی ٹیلی ویژن، دوردرشن پر صبح صبح نشر ہونے والی یوگا کے پروگرام کو دیکھنے میں بڑا لطف آتا تھا۔جسے دیکھ کر ہاتھ پاؤں میں تھوڑی حرکت ضرور ہونے لگتی تھی۔سوچنے لگتا کہ کوئی ساتھی ایسا مل جاتا جس کے ساتھ یوگا شروع کیاجائے۔لیکن ہمارے ساتھیوں کو مغلیہ حکومت کے چھوڑے ہوئے پکوان اتنے مرغوب تھے کہ انہیں ورزش اور یوگا سے کیا لینا دینا۔اُن دنوں یوگا کسی خاص مذہب یا نسل سے جڑا ہوا نہیں تھا۔ ہاں کبھی کبھار داڑھی اور گیروے کپڑے میں ملبوس سادھو کو یوگا کرتے دکھانے سے دھیرے دھیرے ذہن میں گمان ہونے لگا کہ یوگا کا تعلق ایک خاص مذہب اور نسل سے ہے۔بلکہ اب تو یہ بات عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہ یوگا ایک خاص مذہب اور نسل سے منسوب ہے۔اس کے علاوہ اس کے سنسکرت نام کے استعمال سے اسے ایک خاص مذہب اور نسل سے قریب تر کر دیا ہے۔

سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ یوگا کو سیاسی رنگ دے کر بھارتی وزیر اعظم مودی ایور ان کے حواریوں نے اس کو اپنے گھر کی لونڈی بنا دیاہے۔اور اب تو ہر سال دنیا بھر میں اسے” ورلڈ یوگا ڈے”کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ ایسا لگتا ہے یوگا کی شروعات انہی لوگوں نے کی ہے اوراسے مذہبی رنگ دے کر دنیا بھر کے لوگوں کی ٹانگیں، ہاتھ اور ذہن کو الجھا کر اپنے نظریے کو مسلط کر دیا ہے۔جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔ 2015میں جب میں نے رائل ہوسپٹل فور نیرور ڈس ایبیلیٹی میں نئے کام کی شروعات کی تو معلوم یہ ہوا کہ ایک ہندوستانی لیڈی ہفتے کہ منگل کی شام ایک گھنٹہ کا یوگا اسٹاف کے لئے کرواتی ہیں۔ میں نے بھی اس یوگا کو دیگر اسٹاف کی طرح جوائن کر لیا اور پہلی بار یوگا سے انگریزوں کی دلچسپی کو آنکھوں سے دیکھا۔حالانکہ یہاں بھی یوگا کے دوران ہندوستانی یوگا لیڈی کو” اوم” اور دیگر سنسکرتی لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے پایا جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ غیر ضروری ہے کیونکہ جسمانی صحت کے لئے لفظوں سے زیادہ جسمانی حرکات کی ضرورت ہے۔

خیر کورونا کی وبا کی وجہ سے دنیا جہاں ٹھہر گئی تھی، وہیں ہمارا یوگا بھی ہماری زندگی سے دور ہوگیا۔ اور اس طرح ہم کئی سال یوگا کو بھول کر مغلوں کے پکوان میں ایسے پھنسے کہ پھر ہمارے پیٹ اور گول مٹول جسم نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ میاں فہیم اب وقت آ چلا کہ پھرصحت مند جسم کا خیال کیا جائے۔اسی دوران ہمارے ہسپتال میں ایک بار پھر یوگا شروع ہوچکا تھا لیکن میں نے اس بار فیصلہ کیا کہ اس بار یوگا ہم اپنے علاقے کے کسی مقامی یوگا گروپ میں شامل ہو کر یوگا کریں گے۔

انٹر نیٹ پر یوگا سرچ کے دوران پتہ چلا کہ ایک انگریز خاتون الیزیبتھ ڈافین ہر سنیچر کو ہولی کروس چرچ کے ہال میں ایک گھنٹے کا یوگا کراتی ہیں۔ جس کے لئے مجھے ہر یوگا سیشن کے 12 پونڈ ادا کرنے ہوں گے۔میں نے بھی موقع غنیمت سمجھتے ہوئے ان کے ویب سائٹ پر اپنا نام درج کردیا اور چند ہی گھنٹے میں مجھے الیزیبتھ کا تصدیقی ای میل آگیا جس میں انہوں نے سنیچر کے دن ساڑھے نو بجے آنے کی دعوت دی۔ساتھ میں یوگا چٹائی اور میرے صحت کے متعلق سوالات بھی پوچھے۔ جسے میں نے ای میل کے ذریعہ جواب دیا۔

لندن کا موسم ہر بار کی طرح پھر بے ایمان دکھائی دے رہا تھا۔ کبھی سورج دکھائی دیتا تو کبھی بادلوں کا سیاہ فوج حملہ آوار ہوجاتی۔ صبح کے سات بج رہے تھے اور میں حسبِ معمول بستر سے اٹھ کر کچھ ہلکے پھلکے ناشتے کے بعد یوگا میں جانے کی تیاری کرنے لگا۔گھر سے باہر نکلا اور یوگا چٹائی کو گاڑی میں رکھ کر ہولی کروس چرچ کی طرف چل دیا۔تھوڑی دیر بعد ہولی کروس چرچ کے باہر گاڑی پارک کی اور ہال میں داخل ہوتے ہی یوگا ٹیچر الیزیبتھ نے ہمارا والہانہ استقبال کرتے ہوئے تیار ہونے کو کہا۔ دس انگریز خواتین کے بیچ میں اکیلا ہندوستانی نوجوان بنا جھجھک کے یوگا خوب دل لگا کر کیا۔ایک گھنٹے کے یوگا کہ بعد تھکی ہاری تمام خواتین دھیرے دھیرے ہال سے چلی گئی اور ہم تھوڑی دیر کے لئے یوگا ٹیچر الیزیبتھ سے اپنی داستانِ صحت سنانے لگے۔ الیزیبتھ نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے آئندہ ہفتہ ملنے کا وعدہ کیا اور میں خوش و خرم اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف چل پڑا۔

عام طور پرلندن میں سنیچر اور اتوار کو میری چھٹی ہوتی ہے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر میں قریبی پارک میں اپنے ایک ریٹائرڈ پڑوسی غلام دودھیا کے ہمراہ ہر سنیچر اور اتوار کو چہل قدمی کی غرض سے نکل جاتا ہوں۔جس سے ہم دونوں محظوظ بھی ہوتے ہیں اور اپنی صحت کو بہتر بھی بناتے رہتے ہیں۔ لیکن مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ زیادہ تر ہمارے ساتھی اور ایشیائی لوگ مغلیہ پکوان کو اپنی صحت پر ترجیح دیتے ہیں۔ جس سے آئے دن ہمیں اپنوں اور غیروں کی صحت کے متعلق ایسی ایسی ہولناک خبریں موصول ہوتی ہیں کہ ہماری روح کانپ جاتی ہے۔

آئیے ہم اور آپ اس بات کا عہد کریں کہ ہم اپنے اپنے طور پر اچھی غذا کے ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھے گے اور صحت کی بہتری کے لئے کسی طرح کی ورزش یا یوگا یا چہل قدمی کو اپنی روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنائے گے۔ تاکہ ہم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کے ساتھ ایک خوشحال اور صحت مند زندگی گزاریں۔

Leave a Reply