You are currently viewing جشن کس طرح مناؤں سالِ نو کا میں فہیم

جشن کس طرح مناؤں سالِ نو کا میں فہیم

نیا سال مبارک ہو۔ یوں تو نیا سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی نیا سال خوب دھوم دھام سے منایاجائے گیا۔ لندن میں بھی دریائے تھیمس کے کنارے آتش بازی کی زبردست نمائش ہوگی۔ لاکھوں لوگ اپنے قریبی دوست اور رشتہ داروں کے ہمراہ اس نظارے کو دیکھنے کے لئے لندن کے معروف بگ بین کے قریب جمع ہو ں گے۔

لندن میں نئے سال کا جشن کئی اہم شہروں کی طرح کافی اہم مانا جاتا ہے۔ اگر میں ہندوستان اور پاکستان کی اہم تہواروں سے مشابہت کروں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔31دسمبر کی رات سے پہلی جنوری کی صبح تک لندن ٹرانسپورٹ مسافروں سے کوئی کرایہ وصول نہیں کرتی  جسے لندن مئیر کی طرف سے ایک تحفہ سمجھا جاتا ہے۔لندن کا معروف اور تاریخی بگ بین جیسے ہی اپنی گرج دار آواز کے ساتھ رات کے بارہ بجنے کا اعلان کرتا ہے،  لندن ویل سے آتش بازی کا مظاہرہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس وقت لوگ اپنی محبت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اور نئے سال کو کس طرح گزاریں گے،  کاقرار داد کرتے ہیں۔

نئے سال کی آمد کا جشن لندن کے علاوہ بیجنگ، سڈنی، نیویارک، پیرس اور دبئی میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ایک مخصوص اور معروف جگہ پر جمع ہو کر آتش بازی کا بہترین مظاہرہ دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے دن اخباروں میں کس شہر کی آتش بازی شاندار تھی اس پر تبصرہ بھی ہوتا ہے۔ ان آتش بازیوں کے مظاہرے پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں جو ان لوگوں سے وصول کئے جاتے ہیں جو اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔

آئیے سال 2023سیاسی اور سماجی پسِ منظر میں صورتِ حال کا مختصر طور پرجائزہ لیتے ہیں۔ یوں تو 2023کئی معنوں میں لوگوں کے لئے کافی ملا جلا تھا۔ دنیا بھر میں سیاسی اتھل پتھل دیکھنے کو ملی اور روس اور یوکرین کے مابین جنگ بھی دیکھی گئی۔اس کے علاوہ دنیا کی معیشت بھی دھیمی پڑتی دکھائی دی جس سے مہنگائی نے پوری دنیا کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔لیکن سب سے بڑا سانحہ فلسطین کا ہے جہاں دس ہزار سے زیادہ بچے، عورتوں کو مار دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی درندگی نے اقوام متحدہ کو مایوس اور ناکارہ بنا دیا ہے تو وہیں امریکہ اور برطانیہ کی اسرائیل کی پست پناہی سے دنیا حیران اور مایوس ہے۔

2023 میں برطانیہ کی سیاست کافی ہچکولے کھاتی رہی۔ تین وزیراعظموں کے بدلنے کے بعد ہندوستانی نژاد رشی سونک کا وزیراعظم بننا بھی اہم تھا۔ نئے وزیر اعظم رشی سونک وزیراعظم تو بن گئے لیکن ان کے لئے برطانیہ کی معیشت اب تک ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر ترین برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے آتے ہی ٹیکس تو بڑھا دئیے اور لوگوں کو برطانوی معیشت میں سدھار لانے کا وعدہ کر گئے،لیکن سیاسی حریفوں کا کہنا ہے کہ رشی سونک ملک سے زیادہ اپنی پارٹی کو بچانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو اس میں کافی سچائی بھی ہے کیونکہ مہنگائی، انرجی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمت نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

2023میں فلسطینیوں پر اسرائیل کا ظلم و کہر اب تک نہیں تھما ہے۔ایک ہزار اسرائیلی کی جان جانے پر اسرائیل نے اب تک  اکیس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو مار ڈالا ہے جس میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ اقوام متحدہ کے جنگ بندی کی اپیل کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے اور غزہ کے فلسطین کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔عرب ممالک صرف میٹنگ بلا رہے ہیں اور اب تک کچھ نہیں کر پائے ہیں جس کی ایک وجہ شایدامریکہ کی دھمکی ہے جس میں اس نے کسی ملک کو بھی فلسطین معاملے میں ٹانگ اڑا نے پر وارننگ دی تھی۔

 چین خاموشی سے دنیا کا سب سے طاقتور ملک بنا ہوا ہے۔ ویسے بھی چین معیثت اور فوجی طاقت میں اپنا ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ چین دنیا کے کئی ممالک میں اپنا کاروبار کامیابی سے پھیلا رہا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور ہندوستان گاہے بگاہے چین کی پالیسی پر نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں۔ چین اب بھی دنیا کا واحد سب سے بڑاکمیونسٹ ملک ہے۔

ہندوستان کے لئے 2023ایک ملا جلا سال رہا ہے۔دنیا کی سست رفتار معیشت سے ہندوستان بھی نہیں بچ پایا ہے تاہم ہندوستان کی زیادہ تر آبادی روزانہ کمانے والی ہے، جس سے اس کاا ثر اتنے بڑے پیمانے پر نہیں پتہ چلا جتنا کہ امریکہ اور یورپ میں دیکھا جارہا ہے۔ نریندر مودی حسبِ معمول اپنی جارحانہ مذہبی نقطہ نظر یے کے ذریعہ عوام کو جھانسہ دے کر کئی ریاستوں میں اب بھی حکومت بنائے جا رہے ہیں۔تاہم ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، اقلیتی طبقے اب بھی خوف و ہراس کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔مسلمانوں کو بیف کھانے، لو جہاد اور تین طلاق کے حوالے سے براہِ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مسلمان سیکولرزم کی رٹ لگا،مختلف سیاسی جماعتوں کا جھندا اٹھائے بیوقوف بنے ہوئے ہیں۔ جس سے مسلمان کئی گروہ میں بٹ گئے ہیں جو کہ ایک شرمناک بات ہیں۔

میں نے23 20کو مشکلات سے گھرا اور مایوس کن سال پایا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ایسے لیڈر چنے گئے ہیں جن سے دنیا کی سلامتی کو ہر وقت خطرہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وبا کے بعد اب بھی دنیا میں اعتماد پیدا نہیں ہوا ہے۔تا ہم اوروں کی طرح اس بات پر ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ انشااللہ دنیا میں امن قائم ہوگا اور ہم خوش و خرم زندگی گزاریں گے۔اسی امید پر نیا سال مبارک ہو۔اپنے اس شعر سے بات ختم کرتا ہوں کہ:

جشن کس طرح مناؤں سالِ نو کا میں فہیم

اب  تو عہدِ نو  کا مجھ کو  انتظار بھی  نہیں

Leave a Reply