You are currently viewing دلی سے جموں تک: ادب، ادیب اور ملاقاتیں

دلی سے جموں تک: ادب، ادیب اور ملاقاتیں

پچھلے دو ہفتے ہندوستان کے کئی شہروں کا دورہ کرنے کا موقعہ ملا۔ جس کی ایک وجہ جموں یونیورسٹی میں اردو کانفرنس تھی جو جموں یونی ورسٹی کے پچاس سالہ جشن کی ایک کڑی تھی۔اس کانفرنس کی تیاری ڈین آف آرٹ فیکلٹی ڈاکٹر شہاب عنایت ملک  کر رہے تھے جو شعبہ اردو کے صدر بھی ہیں۔

ڈاکٹر ملک سے میری ملاقات مصر کے دورے پر 2018میں ہوئی تھی۔ بولنے میں مہارت حاصل ہے اور کشمیری ہونے پر ناز ہے۔فروری میں ڈاکٹر ملک نے لندن فون کر کے جموں یونیورسٹی عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی  جسے میں نے خوشی سے قبول کر لیا۔ سچ پوچھئے تو اردو کانفرنس میں شرکت کرنا میری مجبوری ہوتی ہے کیونکہ زیادہ تر کانفرنس میں یونیورسیٹی اور کالج کے پروفیسر تشریف لاتے ہیں جو اپنے عہدے کا بوجھ سر پر اٹھائے شتر مرغ کی طرح اِدھر اُدھر بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب وہ بیچارے بھی کیا کریں جیسا دیش ویسا بھیس۔

تاہم جموں یونیورسٹی کی عالمی اردو کانفرنس میں کئی بار شرکت نہ کرتے کرتے رہ گیا۔ ایک وجہ پروگرام کی نامکمل اطلاعات اور دوسرے ہندوستانی حکومت کا صوبہ جموں اور کشمیر سے آرٹیکل 370کو مسترد کر دینا۔ یہ ساری باتیں عین کانفرنس سے چند ماہ قبل ہی شروع ہوئی تھیں اور دیکھتے دیکھتے مصر ی ڈیلیگیٹ نے سب سے پہلے ہتھیار ڈال دیے۔تاہم بعد میں یہ بھی معلوم ہواکہ مصریوں کے علاوہ اور کسی ڈیلیگیٹ کو مدعو بھی نہیں کیا گیا تھا۔ برطانیہ سے میں نے کانفرنس میں نمائندگی کی۔  اس کے علاوہ ایران سے پروفیسر فرزانہ لطفی اور زینب سعیدی نے شرکت کی۔

 کانفرنس کے دن قریب آتے گئے اور ہم نے اپنی تیاری زور و شور سے جاری رکھی۔ جمعہ13ستمبر کو ترکش ائیر لائنز سے استنبول ہوتا ہوا اگلے دن یعنی ہفتہ 14ستمبر کی صبح پانچ بجے دلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچ گیا۔ دلی پہنچتے ہی ائیر پورٹ پرہندوستانی موسیقی کی مدھر سنگیت نے سفر کی ساری تھکان کو بھلا دیا۔ ایک دم سے مغربی ماحول اور ثقافت کو بھول کر صدیوں پرانی ہندوستانی ثقافت اور ماحول نے بھگوان کرشن کی تصویر کو آنکھوں کے سامنے لا دیا جس کا ہم ہزاروں میل دور بیٹھے صرف تصورہی کر سکتے ہیں۔ لالہ مادھو رام جوہر نے شاید ایسے ہی لوگوں کے دل کی ترجمانی کی ہے:

پوری ہوتی ہے تصور میں امیدیں کیا کیا

دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں پچھلی حکومت کی کوششوں نے ہندوستان کو کئی معنوں میں ترقی یافتہ ملکوں سے پیچھے نہیں رکھا ہے۔جس میں ہندوستان کے بیشتر ہوائی اڈے بھی شامل ہیں۔اب تو ہندوستانی ائیر پورٹ مسافروں سے کھچا کھچ بھرا رہتے ہیں جو ملک کی سدھرتی ہوئی معیشیت کی وجہ بھی معلوم ہوتی ہے۔

ائیر پورٹ سے باہر نکل کر جس شخص سے ملنے کو بیقرار تھا وہ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ ذہن میں سوال آیا کہ حضرت کہیں اب تک سو نہ رہے ہوں۔ موبائل فون ہوتے ہوئے بھی استعمال کرنے سے قاصر تھا۔ابھی میں انسی الجھن میں  تھا کہ سامنے ایک صاحب دِ کھے جو شکل سے رحم دل معلوم پڑ رہے تھے۔ہمت کر کے ان سے درخواست کی کہ کیا وہ ایک لوکل فون کال لگا دیں گے۔ پہلے تو انہوں نے میری طرف گھور کر دیکھا اور سامنے ایک ٹیلی فون بوتھ پر جانے کا اشارہ کیا لیکن فوراً ہی میری معصوم اور تھکی شکل پر رحم کھاتے ہوئے کہا ’اچھا نمبر بتاؤ‘۔ فون پر انہوں نے  میزبان کو اطلاع دی کہ آپ کے مہمان آپ کاانتظار کر رہے ہیں۔ابھی وہ صاحب محو گفتگو تھے کہ سامنے سے پروفیسر محمد کاظم فون کان  سے لگائے چلے آرہے تھے۔ پروفیسر محمد کاظم کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اس بات کا ثبوت  تھی کہ وہ میرے آنے سے کتنا خوش تھے۔پہلے ہم دونوں بغلگیر ہوئے اور پھر سامان لے کر گاڑی کی طرف روانہ ہوگئے۔

پروفیسر محمد کاظم اور میں دلی کی صبح کی خاموشی کو چیرتے ہوئے اپنے زور دار آواز میں ایک دوسرے سے محو گفتگو تھے۔ سڑکیں خاموش تھیں لیکن ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دلی ہمارا استقبال کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ کئی جگہ بندروں کی موجودگی اور اچھل کود نے تھوڑی دیر کے لیے یہ غلط فہمی پیدا کر دی کہ وہ بھی ہماری آمد سے جھوم اٹھے ہیں۔

دلی یونیورسٹی کے لاء فیکلٹی کے سامنے پروفیسر محمد کاظم کی  رہائش گاہ ہے جہاں دلی یونیورسٹی کے اور بھی پروفیسر کے مکانات ہیں۔ پروفیسر محمد کاظم کومیں تیس برسوں سے جانتا ہوں لیکن  پروفیسر کاظم کی بیگم شگفتہ  سے پہلی بار ملنے کا اتفاق ہوا۔ مشرقی تہذیب کی نیک، تہذیب یافتہ اور ذہین خاتون کی طرح شگفتہ نے ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ ہم لندن سے آئے ہیں بلکہ مجھے پروفیسر محمد کاظم کے گھر قیام کے دوران ایک سیکنڈ بھی اجنبیت کا احساس نہ ہوا۔ نفیس پکوان کے علاوہ ہندوستانی گرما گرم چائے۔ بھائی کیا کہنا۔ سبحان اللہ۔ تاہم میں نے شگفتہ  بھابھی سے پر زور اپیل کی تھی کہ مجھے کھانا اس قدر نہ کھلائیں کہ میری کمر کہیں کمرہ  ہی نہ بن جائے لیکن وہ کہاں ماننے والی تھیں۔

تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد صبح گیارہ بجے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کی دعوت پر ہم یونیورسٹی پہنچے۔ دراصل یہ پروگرام تہران یونیورسٹی کی پروفیسر فرزانہ لطفی کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں انہوں نے  لیکچر دیا۔ میں نے بھی پروفیسر خواجہ اکرام الدین اور ان کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا اور ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کی کاوشوں کو سراہا جو بیرونِ ممالک میں بسنے والے اردو ادیب کی حوصلہ اور عزت افزائی کے لیے ایسی محفلوں کا اہتما م کرتے رہتے ہیں۔

دوپہر کا کھانا پروفیسر خواجہ اکرام الدین اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ قریب ہی ایک ریسٹورنٹ میں کھایا۔کھانا کھا کر یونیورسٹی کے ہرے بھرے علاقے میں پہنچتے ہی دلی کی گرمی کا احساس اتنی شدت سے ہوا کہ مجھے دلی میں گزارے ہوئے پل اب ناقابل برداشت لگنے لگے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ستمبر کے مہینے میں ایسی گرمی اللہ کی پناہ۔ سچ پوچھئے تو مجھے پل بھر میں لندن کی سردی میں لوٹ جانے کو جی چاہ رہا تھا۔انسانی جسم بھی عجیب ہے۔ میں نے عمر کے آدھے حصے کو جس ملک میں گزارا اور جہاں کی چلچلاتی دھوپ،شدت کی گرمی،برسات اور طوفان کا سامنا کیا اب اسی گرمی کی شدت میں اپنے آپ کو پگھلتا محسوس کرتا ہوں۔

 سہ پہر دلی کے کناٹ پلیس پہنچا جہاں ہم نے کچھ خریداری کی۔پروفیسر کاظم ذہین تو ہیں ہی اس کے علاوہ چاک و چوبند بھی۔ دلی کی گنجان سڑکوں پر گاڑی کا دوڑانا اور صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہونے دینا کوئی پروفیسر کاظم سے سیکھے۔ مصروفیت پروفیسر کاظم کی مت پوچھئے۔ گھر والوں کا تو خیال رکھتے ہی ہیں،حضرت ہر کسی کی مدد اورمفید مشورہ کے لیے بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

سورج غروب ہورہا تھا اور ہمیں ایران سے تشریف لارہی زینب سعیدی کا دہلی آمد پر استقبال بھی کرنا تھا۔ زینب سعیدی کا تعلق تہران سے ہے۔ انہوں نے تہران یونیورسیٹی سے اردو زبان و ادب میں ایم۔اے کیا ہے۔ غضب کی اردو بولتی ہیں اور جب بولتی ہیں تو خوب بولتی ہیں۔ دلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ہم نے زینب کو خوش آمدید کہا اور پروفیسر کاظم کی گاڑی میں سوار ہو کر ان کی گھر کی طرف چل دیے۔

پروفیسر کاظم کی بیگم شگفتہ کے لذیز اور بہت سارے پکوان نے نہ صرف منہ کا ذائقہ بدل ڈالا بلکہ بھوک سے زیادہ کھانے پر مجبور کر دیا۔ ہم لوگ کھانے کی میزسے اٹھ کر برآمدے میں آ بیٹھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے رات کی سیاہی نے دلی کے باشندوں کو آرام کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ہم بھی لندن سے دلی کے سفر کے بعد نیند کی آغوش میں جانے کے لئے بیقرار تھے۔ کمرے میں آکر بستر پر دراز ہوا تو پروفیسر کاظم نے صبح چار بجے اٹھنے کی تاکید کی کیونکہ ہمیں دلی سے جموں کے لیے ہوائی جہاز کا سفر کرنا تھا۔ میں پروفیسر کاظم اور ان کی بیگم شگفتہ کی مہمان نوازی  نے مجھے اس بات کا احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ میں ایک مہمان ہوں۔بستر پر لیٹا ہوا پروفیسر کاظم کے کالج کے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے اس نوجوان کی مختلف سرگرمیوں اور اس میں اپنی شمولیت اور نگرانی کے بارے میں سوچنے لگا۔ ابھی انہی باتوں پر غور کر رہا تھا کہ نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور پھر جو رہی سو بے خبری رہی۔

Leave a Reply