اسرائیل پر تنقید یہود دشمنی نہیں

پچھلے دنوں برطانیہ کی سیاست  میں ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا جس کا اثر ہر عام و خاص پر پڑا۔ معاملہ یہ تھا کہ سابق مئیر آف لندن اور معروف سیاستدان

(Ken Livingstone)کین لی ونگ اسٹون

نے بی بی سی کے ایک ریڈیو انٹرویو میں یہ کہہ دیا کہ لیبر پارٹی کی موجودہ ایشیائی مسلم ا یم پی ناز شاہ نے کوئی یہود دشمن بات نہیں کہی ہے ۔

بس کیا تھا۔ اس انٹرویو کے بعد ایسا لگا جیسا کہ ہم برطانیہ میں نہیں بلکہ اسرائیل میں رہ رہے ہیں۔ میڈیا نے تو ایسے اس خبر کو ٹیلی ویژن پر دکھانا شروع کیا کہ یوں لگنے لگا کہ شاید کین لی ونگ اسٹون نے کوئی سچ بات نہیں کہی بلکہ یہ کہہ دیا ہو کہ اسرائیل کا وجود ہی غلط ہے؟ اس کے علاوہ تمام اخبارات نے کین لی ونگ اسٹون کے بیان کی براہ راست یا بالواسطہ طور پر مذمت کی۔ انہیں لیبر پارٹی سے فوری طور پر نکالنے کا مطالبہ بھی کیا جانے لگا ہے۔

آئیے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ  کین لی ونگ اسٹون نے کیا کہا تھا کہ اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔  پچھلے ہفتے بی بی سی ریڈیو پر کین لی ونگ اسٹون سے ایک انٹرویو میں معروف یہودی پیشکار ونیسا نے یہ سوا ل پو چھا کہ’ کیا ناز شاہ نے یہود دشمن بات کہی تھی‘؟ کین لی ونگ اسٹون نے اس کا جواب یہ دیا کہ ناز شاہ اسرائیل اور اس کی پالیسی کے سخت خلاف ہیں اور ان کی تنقید تھوڑی سخت ہے لیکن وہ یہود دشمن نہیں ہے۔

کین لی ونگ اسٹون نے یہ بھی کہا کہ ’میں پچھلے 47برسوں سے لیبر پارٹی کا ممبر ہوں اور میں نے کسی کو یہود دشمن کہتے ہوئے نہیں سنا ہے۔ میں نے اسرائیل اور اور اس کی فلسطین پر بربریت کی بات ضرور سنی ہے لیکن میں نے کبھی کوئی یہود دشمن بات نہیں سنی ہے۔ کین لی ونگ اسٹون نے مزید کہا کہ ’ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ 1932 میں جب ہٹلر نے جرمنی کا الیکشن جیتا تھا تو اس کی پالیسی یہ تھی کہ یہودیوں کو اسرائیل منتقل ہوجانا چاہئے اور ہٹلر صیہونیت کی حمایت کر رہا تھا ۔  جب ہٹلر اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا اور اس نے چھ میلین یہودیوں کو مار ڈالا تھا۔ ہٹلر کی یہ بات تاریخ میں لکھی ہے اور اس بات کو میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہٹلر ایک صیہونی تھا بلکہ ہٹلر یہودیوں سے نفرت کرتا تھا اور وہ سارے یہودیوں کو جرمنی سے نکا لنا چاہتا تھا۔ ناز شاہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہٹلر کا چھ ملین یہودیوں کو قتل کرنا درست ہے۔ ہٹلر نے توصرف یہودیوں کو ہی نہیں مارا ہے بلکہ ہٹلر نے تو کمیونسٹ اور میری طرح بائیں بازو کے لوگوں کو بھی مارا ہے اور اس نے تو میرے والد کی کشتی کو تقریباً ڈبو  ہی دیا تھا ۔ مجھے ہٹلر سے کوئی ہمدردی نہیں ہے‘۔

اسی طرح اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے جو سوال پوچھا گیا اس میں کین لی ونگ اسٹون نے کہا کہ ’ناز شاہ نے اسرائیل مخالف بات اس وقت کہی تھی جب اسرائیل سفاکانہ طور پر فلسطین پر حملہ کر رہا تھا۔ اس وقت برٹش میڈیا میں فلسطینیوں کی موت پر اسرائیل کی نہ تو مذمت کی جارہی تھی اور نہ ہی اس کے خلاف رپورٹنگ ہورہی تھی۔ ہاں اگر یہی قتل و غارتگری اگر کوئی دوسرا ملک کرتا تو آپ دیکھتے اس پر جنگی جرم کا الزام لگا دیا جاتا۔  لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسرائیل حکومت کے تئیں ہمارا دوہرا معیار ہے یعنی کہ دوغلاپن ہے۔
کین لی ونگ اسٹون نے کہا کہ’ ہم نے اسرائیل کے خلاف  تنقید اور اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کی مذمت بارہا سنی ہے۔ اگر میں ساؤتھ افریقہ کی حکومت کی دھاندلی کے خلاف بولتا ہوں تو مجھے نسل پرست نہیں کہا جاتا ہے جبکہ وہیں ا سرائیلی حکومت کی پالیسی اور سفاکانہ حملے کے خلاف بولنے پرمجھے یہود دشمن کہا جاتا ہے۔ کین لی ونگ اسٹون نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ سارا لیبر پارٹی کے اندر اسرائیل کے حمایتی ممبر وں کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو ہر اس ممبر کو جو اسرائیل کے پالیسی کے خلاف بولتا ہے اس کو اس طرح کے تنازعہ میں الجھا دیتے ہیں ۔

البرٹ اینسٹائین(Albert Einstein)جو کہ ایک یہودی تھے انہوں نے اسرائیل کے (Likud)لیکوڈ پارٹی کے لیڈر کے امریکہ دورہ کے دوران امریکی سیاستدانوں کو کہا تھا کہ وہ اس آدمی سے بات نہ کریں کیونکہ یہ دوسری جنگِ عظیم کے ان فاشسٹ سے مشابہت رکھتا ہے جن کے خلاف ہم لوگوں نے لڑائی لڑی تھی۔تو سوال یہ ہے کہ یہی بات اگر ناز شاہ اور میں نے کہی تو ہم لوگوں کو یہود دشمن کہہ کر مذمت کی جارہی ہے لیکن اسی طرح کی بات البرٹ اینسٹائین نے کہی تھی تو لوگوں نے نہ تو اس کی مذمت کی اور نہ ہی اس کا برا مانا گیا۔

کین لی ونگ اسٹون نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ ’جب سے جیریمی کوبین لیبر پارٹی کے لیڈر بنے ہیں تب سے ان پراور ان کے حمایتیوں کے خلاف ایسی گمراہ کن باتیں کی جارہی ہیں جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے ہمیشہ اسرائیل کی سفاکانہ  پالیسی پر تنقید کی ہے‘۔ کین لی ونگ اسٹون نے کہا کہ ’ مجھے خوشی ہے کہ اس پورے معاملے کی جانچ کی جائیگی۔ کین لی ونگ اسٹون نے کہا کہ’ یہود دشمنی باتیں ایک سوچی سمجھی عالمی یہودی سازش ہے جسے ناز شاہ اور ہم جیسے لوگوں کو بدنام اور ہم پر یہود دشمنی کا دھبہّ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔میں نے ناز شاہ کی حمایت اس لئے کی ہے کیونکہ مجھے ناز شاہ پر پورا یقین ہے کہ اس نے یہود دشمنی جیسی کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے ورنہ میں ناز شاہ کی کبھی حمایت نہ کرتا‘ ۔

کین لی ونگ اسٹون پر ان کی ہی پارٹی کے ایک ایم پی جون مان نے جارحانہ انداز میں حملہ کیا تھا جب وہ ریڈیو کو اپنا انٹرویو دے رہے تھے ۔ اس واقعہ کو لاکھوں لوگوں نے ٹیلی ویژن پر دیکھا اور جون مان کی اس حرکت کی کافی مذمت کی گئی ہے۔کین لی ونگ اسٹون نے جون مان کی توہین آمیز حرکت پر کہا کہ’ جب جون مان نے مجھ سے بد تمیزی کی تو اس وقت میں ایک ریڈیو کو انٹر ویو دے رہا تھا۔ جون مان میری کانوں میں مسلسل چیخ رہے تھے کہ تم نسل پرست یہود دشمن ہو‘۔
کین لی ونگ اسٹون نے کہا کہ مجھ پر یہود دشمنی کا الزام لگانے والوں سے میں معافی نہیں مانگو ں گا۔ بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہود دشمنی کو تنقید سے نہ جوڑا جائے جو کہ فی الحال ہورہا ہے۔ ہم اسرائیلی حکومت کی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو یہوددشمنی کا رنگ دے کر میری باتوں کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ ایک غلط بات ہے۔

سابق لندن مئیرکین لی ونگ اسٹون کے ریڈیو انٹرویو پر جو ہنگامہ  برطانیہ میں مچا ہے وہ اب بھی جاری ہے۔ اس حوالے سے روزانہ خبریں آرہی ہیں اور اس پر خوب بحث بھی ہو رہی ہے۔لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ کین لی ونگ اسٹون کے حمایت میں زیادہ لوگ کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں ۔ جبکہ وہیں کین لی ونگ اسٹون نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ انہوں کوئی بھی بات غلط کہی ہے۔
اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو بنا تنازعہ کے خبروں میں نہیں پڑھا جاتا ہے جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل ملک کا قیام میں آنا ایک متنازعہ  بات ہے۔ تاریخی نقطء نگاہ سے آج تک یہ بات زیر بحث رہی ہے کہ اسرائیل کو فلسطین کی زمین پرنا جائز طور پر قائم کیاگیا ہے جس میں برطانیہ نے اہم رول ادا کیا تھا۔ہٹلر نے چاہے جس مقصد سے یہودیوں کو اسرائیل بھیجنے کی بات کہی ہو لیکن دیکھا جائے تو دوسری جنگِ عظیم کے ذریعہ ہٹلر نے اسرائیل کو قائم کرنے میں آسانیاں پیدا کر دی تھیں ۔

ایسے میں اسرئیل کی مذمت اور فلسطین کی آذادی کا مطالبہ جائز تصور ہے۔

Leave a Reply