You are currently viewing تلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے

تلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے

محرم کا انتہائی بابرکت مہینہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ چار مقدس مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس کی اہمیت اس کے نام سے تجویز کی گئی ہے۔ جس میں “محرم”کا لفظی ترجمہ “حرام “ہے۔محرم اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سال کے چار مقدس مہینوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

 تاہم بہت سے مسلمان اسے پیغمبر اسلام ﷺ کے نواسے کی یاد میں مناتے ہیں۔ چونکہ یہ مہینہ ایک مقدس مہینہ ہے جس میں بہت سے مسلمان اپنی عبادت میں اضافہ کرنے کے لیے محرم کے دوران روزہ بھی رکھتے ہیں۔عاشورہ کے روزے کا رواج اسلام کے عروج سے پہلے بھی تھا۔ ہجرت کے وقت جب رسول ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھ رہے تھے اور کہنے لگے، یہ وہ دن ہے جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر فتح پائی۔اس پر رسولﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہاسے فرمایا: تم (مسلمان) موسیٰ کی فتح کا جشن منانے کا ان سے زیادہ حق رکھتے ہو، لہٰذا اس دن روزہ رکھو۔ (صحیح بخاری:4680)۔

محرم اسلامی کیلنڈرکا ایک اہم مہینہ ہے۔محرم ہجری کیلنڈر کا وہ مہینہ ہے جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔اس مہینے میں کئی اہم واقعات ہوئے ہیں۔ اسی مہینے میں فرعون غرق ہوا تھا۔ ابرہہ کے لشکر (اصحاب فیل) پر عذاب اترا تھا۔ شعب أبی طالب میں محصور ہونے کی ابتدا ہوئی تھی۔ غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ خیبر ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کا حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا تھا۔رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو دعوتی خطوط ارسال کیے گیے تھے۔جنگ ِ قادسیہ لڑی گئی تھی۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تھی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہا کی خلافت کی ابتدا ہوئی تھی۔ حضرت عمر قانلانہ حملوں کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ واقعہ کربلا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہا کی شہادت ہوئی تھی۔

ان تمام اہم واقعات کے باوجودآج بھی دنیا کے تمام مسلمان حضرت امام حسین کی شہادت کو  یاد کرتے ہیں اور اپنے اپنے طور پر غم و غصّہ کا اظہار بھی کرتے ہیں۔خاص کر ہندوستان اور پاکستان میں شیعوں کے علاوہ سنّی حضرات بھی امام حسین کی شہادت کو بڑے عزت و احترام سے مناتے ہیں۔  ایران، عراق اور دیگر ممالک میں جہاں شیعہ عقیدے کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہیں، وہاں محرّم کافی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔برطانیہ میں بھی شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں امام باڑہ اور گھروں میں مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی علاقوں میں محرّم کا جلوس بھی نکالا جاتا ہے۔

حضرت امام حسین کی پیدائش تین شعبان چار ہجری کو مدینہ میں ہوئی تھی۔ حضرت امام حسین کے والد کانام حضرت علی ابن ابو طالب اور آپ کی والدہ کانام حضرت فاطمہ زہرہ ہے۔ حضرت امام حسین،حضرت محمد ﷺ کے نواسے تھے۔ حضرت امام حسین سچائی کے معاملے میں نانا جان کے حقیقی وارث تھے۔ حضرت امام حسین کی شہادت محض اس بات کے لیے ہوئی کہ انہوں نے جھوٹ، مکّاری، دغابازی، شرابی، ظالم کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔حضرت معاویہ کے انتقال کے بعد یزید نے خود سے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ یزید کو عیاشی کے علاوہ شراب، عورت، گانے بجانے جیسی چیزوں سے کافی دلچسپی تھی۔

 تاریخی نقطہئ نگاہ سے یزید ہمیشہ شراب کے نشے میں دھُت رہتا تھا۔ عرب کے لوگوں میں یزید کے خلاف کافی غم و غصّہ رہتا تھا لیکن یزیدی ظلم و جبرکی وجہ سے کوئی بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا تھا۔اس کے برخلاف حضرت امام حسین کو یزید سے کوئی خوف نہ تھا۔ ہمیشہ انہوں نے سچ کا ساتھ دیا اور سچائی کی حمایت میں آواز اٹھائی۔اس خاص وصف یعنی حق گوئی اور سچائی کے ذریعے لوگوں میں اسلام اور احکاماتِ اسلام کے تئیں بیداری پیدا کی تاکہ لوگوں کے ایمان مزید پختہ ہو۔ حضرت امام حسین نے اعلانیہ طور پر یزید کی خلافت کو ماننے اور بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔حضرت امام حسین نے یزید کی بد اخلاقی اور عیاشی کی وجہ سے اسے خلیفہ ماننے سے انکار کیا۔حضرت امام حسین نے لوگوں سے کہا کہ اسلام میں بد اخلاقی اور عیاشی کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

یزید اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا اور اسے اسلام کے اقدار اور اہمیت کی پرواہ نہیں تھی۔وہ مذہبی باتوں سے ہٹ کر شراب اور عیاشی میں اپنا وقت گزارتا رہتا تھا۔ یزید کو حضرت امام حسین کی بات سے کافی تکلیف پہنچی اور اس نے جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔یزید کے پاس 33000ہزار سپاہی تھے جبکہ حضرت امام حسین کے پاس صرف 72لوگ، جن میں ان کے خاندان کے لوگ بھی شامل ہیں۔ عراق کے کربلا شہر میں 10اکتوبر 680 کو یزید اور حضرت امام حسین کے بیچ حق وباطل کی جنگ ہوئی جس میں حضرت امام حسین سمیت ان کے خاندان اور ساتھیوں کو بے دردی سے شہیدکردیا گیا۔ حضرت امام حسین شہید کر دیے گئے لیکن انہوں نے یزید سے نہ ہی تو رحم کی اپیل کی اور نہ ہی یزید کے سامنے گھٹنے ٹیکے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ محرّم کا مہینہ آتے ہی لوگوں میں بحث چھِڑ جاتی ہے کہ اس مہینے میں غم کا اظہار کا کیا طریقہ ہونا چاہئے۔  ظاہر سی بات ہے کہ ہرایک شخص اپنے فرقے اور گروپ کی رہنمائی اوراثرپذیری پراظہار خیال کرتا ہے جو کہ ایک دانشمندانہ قدم ہے۔ لیکن وہیں کچھ لوگ اس معاملے میں حد سے تجاوز بھی کرنے لگتے ہیں۔ جس سے خواہ مخواہ ماحول میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے اور ہم سب حضرت امام حسین کی شہادت کی اہمیت کو بھول کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔تاہم کچھ لمحے کے لیے ان بحث سے ہمیں گریز کرنا چاہیے اور اتحاد کا بہترین نمونہ پیش کرنا چاہیے۔

ہر سال محرّم میں سوشل میڈیا پر کچھ بیانات اوررپورٹ نظر سے گزرتی ہیں جنہیں پڑھ کر کافی مایوسی ہوتی ہے۔ کئی  مذہبی عالم  تو محرّم کے دوران تعزیہ کا  اہتمام کرنے والوں پر برہم بھی ہوتے ہیں اور  انہیں یزید کا حامی بنا دیتے ہیں۔ ایسی باتوں سے ہمارے ماحول میں بدمزگی پیدا ہوتی ہے اور لوگ فرقوں میں الجھ کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔حالانکہ عالم دین ان نکات پراطمینان سے بات کرتے ہوئے اسلامی اقداراور رواداری کے ساتھ شائستگی کا مظاہر ہ کرسکتے ہیں۔

 محرّ م کا مہینہ اور حضرت امام حسین کی شہادت کو ہر سال یاد کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مذہبِ اسلام اور دیگر فرائض کو یاد رکھنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ کربلا کا واقعہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم حق اور باطل کے لیے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ بعض لوگ ہر سال محرّم تو مناتے ہیں لیکن ایمان کی پختگی میں درس ِکربلا بھول جاتے ہیں۔ ورنہ خاندان، پڑوسی، کاروبار، حکومت، مذہبی معاملات کے علاوہ ہزاروں ایسے مسائل ہیں جہاں ’حق اور باطل‘ کو سامنے رکھ کر ہر مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو احساس ہوگا کہ ہم کتنے کمزور ہو چکے ہیں۔کمزوری اور بزدلی نے ہمیں اپنے رشتہ داروں، دوستوں اورظلم و جبر کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمّت تک چھین لی ہے۔افسوس یہ ہے کہ ہم تمیز بھول کرلب کشائی کی بجائے منہ چھپاتے ہیں۔

کربلا کی تاریخ  پڑھ کر اور سن کر آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ یزید نے جس بے رحمی سے حضرت امام حسین اور ان کے خاندان والوں کو شہید کیا تھا وہ رہتی دنیا تک ایک بے مثال شہادت کہلائے گی۔لیکن حضرت محمد ﷺ کے نواسے اور ان کے خاندان والوں نے کربلا میں جامِ شہادت پی کر ہم گنہگاروں کو یہ سبق دیا ہے کہ جب ’حق اور باطل‘ کی بات ہو تو کبھی خاموش نہ بیٹھو اور اس کے خلاف آواز اُٹھاؤ۔

Leave a Reply