You are currently viewing دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا

دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا

جموں سے دلی واپس آیا تو اچانک امتیاز گورکھپوری سے ملاقات ہوئی۔امتیازمیاں معروف شاعر ظفر گورکھپوری کے صاحبزادے ہیں۔ نرم گو اور اردو زبان سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔ اردو آنگن ممبئی کے مدیر ہیں اور گاہے بگاہے اردو محفلوں میں نظر بھی آجاتے ہیں۔

 مزاج میں سادگی تو ہے ہی ساتھ میں مہذب بھی ہیں اور کیوں نہ ہوں والدین کی عمدہ تربیت اور اردو سے محبت ان کی سرشت میں جو شامل ہے۔امتیاز میاں سے میری ملاقات فیس بُک کے ذریعہ تین سال قبل ہوئی تھی۔ تین سال کے عرصے میں امتیاز اب میرے چھوٹے بھائی بن چکے ہیں۔  دلی کی گرمی نے میرا جینا محال کر رکھا تھا لیکن لوگوں سے ملنا جلنااور دیگر مصروفیات کی وجہ سے ہم نے موسم کو مات دے رکھی تھی۔پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کی دعوت پر ہمیں ایک بار پھر جواہر لعل نہرو یونورسیٹی جانا پرا۔ دراصل اس بار خواجہ صاحب نے جنوری میں منعقد ہوئی ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کی عالمی کانفرنس ’اردو،  عربی اور فارسی میں رزمیہ شاعری‘ کے دوران پڑھے گئے مقالوں کو کتابی شکل دی تھی، جس کا اجرا ہونا تھا۔ اس کے علاوہ ریسرچ اسکالر مہوش نور کا ہندی میں ترجمہ کی ہوئی میری کہانیوں کی کتاب ُایک گریزاں لمحہ‘ کا بھی اجرا ہونا تھا۔لیکن وہاں جا کر یہ بھی علم ہوا کہ تہران یونیورسٹی کی پروفیسر فرزانہ لطفی کی کتاب کا بھی اجرا ہونا ہے۔ گویا پورا پروگرام کتابوں کے اجرا کے لیے تھا۔دو کتابوں کی رسم اجرا تو قاعدے سے ہوئی البتہ فرزانہ لطفی کی کتاب کے اجرا میں کتاب کی نمائش کم اور ان کے گھر والوں کی نمائش زیادہ دِکھی جس سے فرزانہ لطفی کی کتاب کا ذکر کم اور خاندان والوں کا تعارف خوب ہوا۔

دلی میں ایک دن کے قیام کے بعد ہم پروفیسر محمد کاظم کی رہنمائی میں جے پور کی طرف نکل پڑے۔ پروفیسر محمد کاظم گاڑی تیز رفتاری سے بھگا رہے تھے کیونکہ انہوں نے  شام تک جے پور پہنچنے کا وعدہ کیا تھا۔ہندوستان کا موٹر وے واقعی اب مغربی ممالک کی سڑکوں سے کم نہیں لگتا لیکن یہ کیا دیکھ رہا ہوں۔ بھائی تیز رفتار گاڑیاں سڑک کے بیچ بیٹھی گؤ ماتا کو بنا چھوئے گزری جارہی تھیں۔ وہیں گؤ ماتا بھی بلا خوف و خطر ہائی وے کے بیچ و بیچ پتہ نہیں کس سوچ میں گُم تھیں۔ ممکن ہے گائے کو اس بات کی خبر ہے کہ ہندوستان میں گاڑیاں انسان کو کچل سکتی ہیں لیکن لوگوں کو پتہ ہے کہ اگر گائے ماتا کو کچھ ہوا تو بہت بڑا پاپ ہوجائے گا۔

لگ بھگ تین گھنٹے کے بعد پروفیسر محمد کاظم نے اپنی مخصوص بھاری آواز میں اطلاع دی کہ اب تھوڑی دیر میں ہم جے پور پہنچنے والے ہیں۔ ہم بھی جے پور پہنچنے کے لیے بیتاب تھے۔ جے پور کو دنیا والے ’پنک سٹی‘ کہتے ہیں۔ دنیا بھر کے سیاح جب ہندوستان آتے ہیں تو تاج محل کے بعد جے پور جانا ان کی اولین خواہش ہوتی ہے۔راجپوتوں کا یہ شہر اپنے آپ میں آن و شان کے لیے کافی مقبول مانا جاتا ہے۔خاص کر جے پور کا پرانا علاقہ جو دنیا کے تمام پرانے شہروں کی طرح قلعہ نما دیواروں سے گھرا ہوا ہے۔اشوک ہوٹل کے دالان میں گاڑی پارک کی گئی اور ہم ہوٹل میں چیک اِن کر کے اپنے اپنے کمرے میں آرام  کے لیے چلے گئے۔

جے پور جانے سے قبل راجستھان اردو اکادمی کے سیکریٹری معظم صاحب نے ہمیں دو روزہ عالمی سیمنار ’غالب اکیسویں صدی میں‘ شرکت کرنے کی دعوت دی تھی۔ ان کی ایما پر ہم نے اس سیمنار میں شرکت کرنے کی حامی بھر لی۔ صبح ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں ناشتہ کر رہے تھے کہ پروفیسر علی احمد فاطمی سے ملاقات ہوئی۔ پہلے بغل گیر ہوئے پھر فاطمی صاحب سے خوب باتیں ہوئی۔ فاطمی صاحب الہ آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور اردو کے اہم ادیب اور تنقید نگار ہیں۔

ناشتے کے بعد ہم جے پور سے قریب امر فورٹ دیکھنے چلے گئے۔ راستے میں ہاتھی اور اونٹ کو دیکھ کر اس بات کا احساس ہوا کہ اب ہم راجپوتوں کی سر زمین پر پہنچ چکے ہیں۔ گرمی شدید تھی اور میرا برا حال ہو رہا تھا تاہم امر فورٹ کی عمارتوں کے سایے میں گرمی سے کچھ حد تک راحت ملی۔ جب ہم امر فورٹ کے قریب پہنچے توسیاحوں کی بھیڑ سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ جے پور کا امر فورٹ کتنا مقبول ہے۔ ابھی ہم ایک کونے سے دوسرے کونے ہی پہنچ پائے تھے کہ پروفیسر محمد کاظم نے ہمیں یاد دلایا کہ ہمیں شام چار بجے راجھستان اردو اکادمی کے پروگرام میں شرکت کرنا ہے۔اس لیے ہم نے قلعہ کی سیر کو ادھورا چھوڑ کر ہوٹل لوٹ گئے۔

ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ اسٹیج پر منتری جی کے علاوہ کئی معروف شخصیت اور اردو کے نامور ادیب ش ک نظام(شیو کمار نظام) براجمان تھے۔ لیکن جس بات سے آنکھیں پریشان تھیں وہ اسٹیج پرلگا ہوا بڑا سا بینرتھا۔ کئی بار آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر پڑھا لیکن اردو زبان و رسم خط کا نام و نشان تک نہ ملا۔ جب پوری عبارت ہندی میں لکھی ہوئی تھی تو اردو کہاں سے دکھتی۔ ستم ظریفی دیکھئے اسی بینر میں بیچارے غالب بھی موجود تھے۔ شاید اسی لیے اس سیمینار کا عنوان ’غالب اکیسویں صدی میں‘ تھا۔ مطلب غالب کو اکیسویں صدی میں ہندی میں پڑھا جائے۔پتہ نہیں ایران اور دیگر مہمان جنہیں ہندی نہیں آتی ان پر کیا بیتی ہو گی۔

دو دن کے قیام کے بعد ہم نے دلی واپسی میں فتح پور سیکری اور آگرہ کا بھی پلان بنا لیا۔ فتح پور سیکری میں ہم نے اکبر کا قلعہ اور بلند دروازہ دیکھنے کے علاوہ سلیم چشتی کے مزار کا بھی دیدار کیا۔ دوپہر دو بجے کے قریب ہم تاج محل دیکھنے پہنچے۔ یوں تو تاج محل دیکھنے کا اتفاق دوسری بار ہوالیکن خدا جانے اس عمارت میں کیا خاص بات ہے کہ اسے جتنی بار دیکھئے ہر بار نظر اس کی خوبصورتی سے ہٹتی ہی نہیں ہے۔ اس کے سنگ ِ مرمر کی کشش کے علاوہ اس کی عربی خطاطی، سبحان اللہ۔ آگرہ کی گرمی نے مجھے اس قدر تڑپایا کہ میری طبعیت ناساز ہونے لگی۔تھوڑی دیر تاج محل کے پاس رک کر ہم دلی کے لیے جلد روانہ ہوگئے۔

دلی پہنچ کر میری طبعیت تھوڑی سنبھلی لیکن دوسرے روز مجھے کلکتہ کا سفر کرنا تھا۔ اس لیے بحالتِ مجبوری دوردرشن کے پروگرام میں پروفیسر محمد کاظم کے ہمراہ شرکت کی۔ جس کے میزبان غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضا حیدر تھے۔ اس پروگرام میں حالی کے حوالے سے ہم نے باتیں کیں۔تاہم اس سے قبل پروفیسر سید اختر حسین کے دولت کدے پر حاضری دی جہاں انہوں نے لذیز پکوان سے ہماری ضیافت کی۔ پروفیسر اختر حسین سے میری ملاقات کلکتہ کے مولانا آزاد کالج سے ہے۔ نہایت شریف اور ذہین انسان اور جب فارسی بولتے ہیں تو بس آپ اختر صاحب کا لہجہ دیکھے اللہ اکبر۔میں نے تیس سال قبل اختر بھائی کی ذہانت اور قابلیت کا احترام کیا تھا اور الحمداللہ مجھے فخر ہے کہ پروفیسر اختر حسین جواہر لعل نہرو یونیورسیٹی کے پروفیسر ہیں۔

کلکتہ میں مسلسل بارش نے شہر کے نظام کو اتھل پتھل کر دیا تھا۔ لیکن کلکتہ والے کہاں ماننے والے وہ بارش کی پرواہ کیے بغیر اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ ہم بھی صبح کے دس بجے کلکتہ پہنچ گئے تھے۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد کلکتہ گرلز کالج کے پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچا۔ جہاں میرے ساتھ ایران سے تشریف لائی زینب سعیدی کے علاوہ اردو آنگن کے مدیر امتیاز گورکھپوری کا استقبال کیا گیا۔ شام کو الحمد ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے طلبا سے ملاقات کی اور اس طرح کلکتہ کی بھاگتی زندگی سے نکل کر تھکا ہارا نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ دوسرے روزبھی لوگوں سے ملنے ملانے کا سلسلہ جاری رہا اور شام کی فلائٹ سے ہم واپس دلی لوٹ آئے۔

دلی کے آخری دن میں ہماری ملاقات انجمن ترقی ہند کے سیکریٹری اطہر فارقی سے ہوئی۔اطہر فاروقی سے ہماری گفتگو کافی دلچسپ اور معلوماتی رہی۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میرے پاس ہی بابائے اردو مولوی عبدالحق کی کرسی ایک گلاس نما بکس میں رکھی ہے جو کہ انجمنِ ترقی اردو ہند کے بانیوں میں اور سیکریٹری تھے۔

اس طرح ہندوستان کا دو ہفتے کا دورہ ہنگامی لیکن کافی قابل لطف رہا۔جس میں پروفیسر محمد کاظم اور ان کی اہلیہ کی مہمان نوازی اور امتیاز گورکھپوری کا لطف انگیز ساتھ رہا۔ ایران کی زینب سعیدی نے بھی ہمارا ساتھ نہ چھوڑا جس سے اردو زبان کے بولنے اور پیار کرنے والوں کے بیچ مزید دوستی مضبوط اور مستحکم ہوئی۔ ہم ان دوہفتوں کی خوشگوار یادوں کو اپنے سینے میں محفوظ رکھے،  ذہن کو ترو تازہ کئے ہوئے تھے کہ ترکش ائیر لائن کی جہاز نے مجھے لندن پہنچے کی یاد دہانی کرانے لگی اور ہم لندن واپس خیر وعافیت سے پہنچ گئے۔میر تقی میر نے کیا خوب کہا ہے:

دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا

ہے ختم  اس  آبلے  پر  سیر  و  سفر ہمارا

Leave a Reply