You are currently viewing ہائی کمشنر آف انڈیا کی جانب سے افطار ڈنر

ہائی کمشنر آف انڈیا کی جانب سے افطار ڈنر

رمضان سے چند روز قبل اجے کمار ٹھاکر (کوآرڈینیشن ونگ)کا بذریعہ ای میل افطار ڈنر کی دعوت موصول ہوئی۔ یہ دعوت” دی ہائی کمشنر آف انڈیا ہز ایکسیلنسی مسٹر وکرم دورائسوامی” کی جانب سے تھی۔ دعوت نامے پر میرا نام درج تھا جس میں جمعرات 21مارچ کو انڈیا ہاؤس شام 6بجے آنے کی گزارش تھی اور ساتھ ہی روایتی لباس یا سوٹ میں ملبوس ہونے کا بھی حکم تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے میں افطار کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر رہا تھا۔ اس کی ایک اہم وجہ رمضان کی عبادت اور دوسری سفر میں دشواریاں، مثلاً لندن کی ٹریفک اور فاصلہ وغیرہ ایسی باتیں تھیں کہ ہم چاہ کر بھی لندن کی دعوتِ افطار میں شریک نہیں ہو پارہے تھے۔ ظاہر ہے ان دشواریوں سے ہماری ہمت پست ہوجایا کرتی تھی۔پھر 2020کے کورونا نے لوگوں میں ایسا ماحول بنایاکہ جو دعوتِ افطار اجتماعی طور پر اچھی لگتی تھی وہ وبال جان بن گئی۔

تاہم جوں جوں حالات بہتر ہونے لگے لوگوں میں اعتماد بحال ہونے لگا اور دعوتِ افطار کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔اس ضمن میں پہلی دعوت مجھے مقامی ترکی سینٹر جو کہ لندن کے مورڈن علاقے میں واقع ہے وہاں سے ملی۔ اس دعوت میں رضاکارانہ طور پر ترکی خواتین سینٹر میں آکر کھانا بناتی ہیں اور پھر بعد مغرب مرد اور خواتین الگ الگ کمرے میں اپنا افطار کھولتے ہیں۔ پہلے کھجورسے سبھی نے روزہ کھولا اور اس کے بعد دال شوربہ سے کھانے پینے کا آغاز ہوا۔پھر ایک پلیٹ میں ترکی چاول کے ساتھ مرغ کے سالن جس میں آلو کے دو ٹکڑے شامل تھے مہمانوں کو پیش کی گئی۔ آخر میں ترکی مٹھائی بکلاوا کے بعد ترکی کالی چائے کا روزہ داروں نے خوب لطف اٹھا یا۔

یوں تو موسم بہار کی آمد کے آثار کچھ حد تک دکھنے لگے ہیں۔پیلے رنگ کا ڈیفاڈِل پھول ہر سوں دکھائی دے رہا ہے لیکن لندن اب بھی سردی کی لپیٹ میں ٹھٹھر رہی ہے۔ ویسے تو برطانیہ میں ہر موسم کا ایک انوکھا مزہ ہوتا ہے لیکن موسم بہار میں چڑیوں کے چہچہانے اور باغات میں رنگ برنگے پھولوں کے کھلنے سے لوگوں میں کافی جوش دکھنے لگتاہے۔ان دنوں گارڈن سینٹر میں لوگوں کا ہجوم امڈ پڑتا ہے۔

آج ہم نے گیارہواں روزہ رکھا ہوا تھا۔ دفتر کی مصروفیت نے ہمیں اس بات کو محسوس ہی ہونے نہیں دیا کہ وقت کتنی تیزی سے بیت گیا۔ شام کے چار بج چکے تھے اور ہمیں جمعرات 21مارچ کو ہز ایکسیلینسی وکرم دورائسوامی کی افطار ڈنر پر انڈیا ہاؤس بھی جانا تھا۔دفتر سے نکلتے ہی ہم نے گاڑی تیز رفتاری سے چلاتے ہوئے لگ بھگ بیس منٹ میں گھر پہنچ گئے۔سوٹ بوٹ پہن کر تیار ہوئے اور گھر کے قریب ہی بس اسٹاپ پہنچ کر 163نمبربس کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر میں ہی بس آ پہنچی اور ہم نے موبائل میں  محفوظ اپنے بینک کارڈ کے ذریعہ اپنے کرایے کی ادائیگی کی اور سیٹ پر بیٹھ کر باہر کا نظارہ کرنے لگے۔163نمبربس جو کہ موڈرن سے چل کر ویمبلڈن تک جاتی ہے، تھوڑی دیر میں بس نے ہمیں رینس پارک اسٹیشن پہنچایا دیا۔ بس سے اتر کر سامنے ہی رینس پارک اسٹیشن میں داخل ہوئے اور واٹر لو جانے والی ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔

پلیٹ فارم پر چند مسافر ٹرین کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ابھی ہم انڈیا ہاؤس کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ واٹر لو کی ٹرین پلیٹ فارم پرآ پہنچی۔ ٹرین میں داخل ہو کر ہم نے کھڑکی کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ کر اپنے موبائل پر سوشل میڈیا کی چپقلشوں سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہم واٹر لو اسٹیشن پہنچ گئے۔واٹر لو اسٹیشن پر دن بھر کے تھکے ہارے دفتر سے فارغ ہو کر لوگ ٹرین پر چڑھنے کے لئے بیقرار تھے لیکن تہذیب کا ایسا مظاہرہ کہ انگریزوں نے ہماراا دل جیت لیا۔ کیا مجال کہ کوئی مسافر ٹرین سے اترنے والے مسافر وں سے قبل ٹرین میں داخل ہوں۔

واٹر لو اسٹیشن سے باہر نکل کر تیز قدمی سے ہم نے واٹر لو برج پار کی اور ٹھیک 6بجے شام آلڈ وچ علاقے میں واقع انڈیا ہاؤس پہنچ گئے۔ اندر جانے کے لیے مہمانوں کی لائن لگی ہوئی تھی اور ہم بھی اپنا دعوت نامہ دکھا کر انڈیا ہاؤس میں داخل ہوگئے۔انڈیا ہاؤس میں ہندوستان کی تہذیب،ثقافت اور مصوری ہمارا استقبال کر رہی تھی۔ کہیں نجسمے پر سجائے ہوئے رنگ برنگے پھول تو کہیں نایاب ہندوستانی پینٹنگ دیلھنے کو ملی۔چند لمحوں کے لیے ان سے لطف اندوز ہوا۔ ہال میں مہمان آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا تعارف دے رہے تھے۔ میں بھی اپنے نام کی ٹیبل پر براجمان ہوگیا۔ تبھی ایک صاحب نے مجھ سے کہا آپ فہیم اختر ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں۔ مگر آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ کئی سال قبل کلکتہ کے مسلم انسٹیٹیوٹ کی ایک تقریب میں انہوں نے ہماری تقریر سنی تھی۔ ریحان صاحب کلکتہ کے کولوٹولہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور لندن میں کئی سال سے مقیم ہیں۔ ریحان جمیل صاحب نے اسی درمیان  کوونٹری سے تشریف لائے شیخ عبداللہ سے بھی ملوایا۔جن سے دورانِ گفتگو پتہ چلا کہ وہ کلکتہ کے خضر پور کے دس نمبر علاقے سے تعلق رہتے ہیں اور ان کے والد عید کی نماز میں بڑی مسجد میں خطبہ دیتے تھے۔ شیخ عبداللہ نے مزید یہ بھی بتایا کہ وہ کلکتہ میں ہمارے خاندان کے لوگوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔

کچھ لمحے بعد میری نظر ہز ایکسیلینسی وکرم دورائسوامیپر پڑی جو سوٹ بوٹ میں ملبوس مہمانوں سے ملاقات کر رہے تھے۔ اسی بھیڑ میں ہز ایکسیلینسی وکرم دورائسوامی کی نظر مجھ پر پڑی اور انہوں نے بڑی گرم جوشی سے میرا حال چال پوچھا اور افطار ڈنر میں تشریف لانے کا شکریہ ادا کیا۔مجھے اس وقت کافی خوشی ہوئی جب ہز ایکسیلینسی وکرم دورائسوامی نے میرا تعارف دیگر مہمانوں سے بھی کرایا جو ان کے پاس ہی کھڑے تھے۔ہز ایکسیلینسی وکرم دورائسوامی نے میرا تعارف ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے کرایا جس کی وجہ سے مجھے کافی خوشی محسوس ہوئی۔

تھوڑی دیر بعد یعنی 6:20پر افطار کھولنے کا اعلان ہوا اور ٹیبل پر رکھے کھجور، پھل فروٹ اور پکوڑے سے ہم نے اپنا روزہ کھولا۔ اس کے بعد سامنے ہال میں مغرب کی نماز پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا تھا جہاں تمام لوگوں نے مغرب کی نماز پڑھی۔ نماز کے بعد ہم واپس اپنے ٹیبل پر آئے اور ڈھیر ساری لذید کھانوں سے مہمان لطف اندوز ہونے لگے۔ میں نے بھی نان، کوفتہ، سبزی، کباب کے ساتھ پلاؤ کا بھرپور لطف لیا۔ آخر میں مٹھائی کے ساتھ ہمارا ڈنر مکمل ہوا۔

آئیے انڈیا ہاؤس کے متعلق چند باتیں آپ کو بتاتا چلوں۔ 1919میں مارکویس آف کریو کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے طے کیا کہ انڈیا آفس کے ایجنسی کے کام کو اس کے دیگر سیاسی اور انتظامی کرداروں سے الگ کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے تمام یا منتخب کام کو ہندوستان کے ہائی کمشنر منتقل کرنے کی سفارش کی۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919نے کمیٹی کی سفارشات کو برقرار رکھی۔ جس میں ہز میجیسٹی کی جانب سے ایک ہائی کمشنر کی تقرری بذریعہ آرڈر ان کونسل کرنے کا بندوبست بھی کیا گیا۔ جو کہ سیکریٹری آف اسٹیٹ کے کسی بھی معاہدے کے اختیارات کو سرکار کو تفویض کر سکتا تھا۔ 13اگست 1920کو کنگ جارج پنجم نے کونسل میں مطلوبہ آرڈر جاری کیا۔ جب تک ہندوستان 1947میں آزاد نہیں ہوا تھا۔ اس عہدے کو ہائی کمشنر فار انڈیا کا نام دیا گیا۔ ہندوستان کے پہلے ہائی کمشنر ہندوستانی سول سروس کے افسر سر ولیم اسٹیونسن مئیر تھے۔ ہندوستانی نژاد پہلے ہائی کمشنر سر دادیبہ مروان جی دلال تھے۔ہائی کمشنر کو وہی حیثیت حاصل تھی جو برٹش افسران کو تھی۔ 1925 میں ہندوستانی ہائی کمشنر سر اتل چٹرجی کی طرف سے تجویز کردہ اس عمارت کو سر ہربرٹ بیکر نے ڈیزائن کیا تھا اور 1930میں یہ بن کر تیار ہوئی۔ اس کا باقاعدہ افتتاح 8جولائی 1930کو کنگ جارج پنجم نے کیا تھا۔

رات کے آٹھ بج چکے تھے۔ ہمیں اب تھکان بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ہال سے نکلتے ہی سنئیر آفیسر دیپک چودھری صاحب نے ہمیں افطار ڈنر میں شامل ہونے کے لیے شکریہ ادا کیا اور ہم بھی ہز ایکسیلینسی وکرم دورائسوامیاور ان کی پوری ٹیم کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے انڈیا ہاؤس سے باہر نکل آئے۔لندن رات کی گہماگہمی اور چہل پہل میں گم تھا۔ پاس ہی تھیٹر اور ریستوران اور شراب خانے میں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ میں تیز قدمی سے واٹر لو برج پار کر کے واٹر لو اسٹیشن پہنچا اور ٹرین پر سوار ہو کر گھر واپس آگیا۔

میں انڈین ہائی کمشنر ہز ایکسیلینسی وکرم دورائسوامی کو دلی مبار ک باد پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایک شاندار افطار اور ڈنر پارٹی کے ذریعہ برطانوی مسلمانوں کونہ صرف عزت بخشی بلکہ قومی یکجہتی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔آج کے مخدوش حالات میں جہاں قومیں تفریقی نظام سے الجھ رہی ہیں وہیں ایسی تقریبات اتحاد اور بھائی چارگی کے لیے آبِ حیات ہے۔

Leave a Reply