You are currently viewing انسانیت کا خون اور اسرائیل کی نسل کشی

انسانیت کا خون اور اسرائیل کی نسل کشی

انسانی جان کی قیمت بھی اب نسل اور طاقتور ممالک سے منسلک ہونے پر کیا جانے لگا ہے۔اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اگر مرنے والا کسی خاص قبیلے، خاندان یا نسل سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا بدلہ یوں لیا جاتا کہ اس کے عوض میں ہزاروں جانیں لے لی جاتی۔ خواہ وقت گزرجاتا لیکن بات ختم نہیں ہوتی۔

فلسطین پر اسرائیل کے حملے کو چھ ماہ گزر گئے۔ اس چھ ماہ میں ہم نے نہ چین کا دن گزارا نہ سکون کی راتیں۔ ذہن بس اس بات سے پریشان تھا کہ کیسے فلسطینیوں پر جبر و قہر بند ہو۔ صبح آنکھ کھلتی اور ہزاروں فلسطینی کے جان جانے کی خبر سے آنکھیں نم ہوجاتی تو رات اسی امید سے سو تے کہ اللہ کوئی معجزہ دکھا دے کہ اسرائیل کو منہ کی کھانی پڑی۔ اسی الجھن اور کشمکش میں چھ ماہ گزر گئے اور آج بھی ہماری بوجھل آنکھیں دن رات کبھی سوشل میڈیا تو کبھی ٹیلی ویژن پر بچوں کی آہ اور کبھی بے یارو مددگار فلسطینیوں کو مرتے ہوئے دیکھ دیکھ کر اپنی بے بسی اور ظالموں کی بے رحمی پر سوائے آنسو بہناے کا کچھ نہیں کر پارہا۔

کیا،کیا جائے۔ مغربی طاقتوں کی دوغلی پالیسی اور طاقت کے غرور نے تو انسانیت کا جیسے گلا گھونٹ دیا ہو۔ اگر اقوامِ متحدہ کی بات کریں تو وہاں امریکہ کی غنڈہ گردی نے اسرائیل کا سینہ چوڑا کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اقوامِ متحدہ کے سربراہ کی بار بار اپیل اور گزارش کے باوجود اسرائیل،  امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی سے مظلوم اور بے گناہ فلسطینیوں کو بے دردی سے مارے جارہا ہے۔ اس کے علاوہ غزہ کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر ان پر کھانے پینے پر پابندی عائد کر دی جس سے غزہ میں قحط جیسا ماحول ہوگیا ہے۔لیکن اب تو سارا معاملہ ایسا الجھا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک جو کل تک اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپارہے تھے اب وہ اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور سات مغربی امدادی کارکنوں  کی موت ایک بڑی وجہ ہے۔

اسرائیل کے ایک فضائی حملے میں چھ بین الاقوامی امدادی کارکن اور ایک فلسطینی ڈرائیور ہلاک ہوگیا ہے۔ پھر کیا تھا سوشل میڈیا سے لے کر ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ایک ہی خبر سنی جانے لگی۔ اسرائیل نے امدادی کارکن کو مار کر بہت غلط کیا۔امریکہ میں قائم امدادی گروپ ورلڈ سینٹرل کچن نے تصدیق کی ہے کہ اس کے عملے کے ارکان اسرائیلی فوج کے ایک ٹارگٹ حملے میں مارے گئے ہیں۔ مرنے والے فلسطین، آسٹریلیا، پولینڈ، برطانیہ کے علاوہ امریکہ و کینیڈا کے شہری تھے۔ورلڈ سینٹرل کچن نے کہا کہ یہ حملہ اس وقت ہوا جب اس کا عملہ اپنی تازہ ترین کھیپ سے غزہ میں خوراک پہنچا رہا تھا۔ جہاں اسرائیل کی جارحیت سے لاکھوں فلسطینی قحط کے دہانے پر دھکیل چکے ہیں۔

اس واقعے کے بعد مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اسرائیلی وزیراعظم بنجیمن نیتن یاہو کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ غزہ میں بہت سارے امدادی کارکن اور عام شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور یہ کہ وہاں کی صورت حال ناقابلِ برداشت ہے۔ تاہم عرب ممالک مارے امریکی خوف سے نہ منہ کھول رہے ہیں اور نہ کوئی بیان دینا مناسب سمجھ رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے جب اسرائیل نے فلسطینیوں کا قتل و عام شروع کیا تھا تو امریکی صدر نے اعلانیہ کہا تھا کہ اس مسئلے میں کوئی بھی تیسرا ملوث ہوا تو اسے سبق سکھایا جائے گا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اسرائیل پر انسانی امداد کے قافلوں اور تقسیم کے مراکز پر بمباری اور انسانی امدادی کارکنوں کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ایسا مانا جاتا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے انسانی ہمدردی کے کام کرنے والے کارکنوں کے لیے سب سے خطرناک جگہوں میں سے ایک ہے۔اب تک کئی سو انسان دوست ہلاک ہوچکے ہیں اور اسرائیل ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مرنے والے امدادی کارکن کو حماس کے دہشت گردوں کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔

 لیکن حیرانی تو اس بات کی ہے کہ پچھلے چھ مہینے میں تیس ہزار فلسطینی بچوں اور عورتوں اور بے گناہ مردوں کو جب اسرائیلی بے دردی سے مار رہے تھے تو اس وقت مغربی ممالک حماس کا بہانہ بنا کر اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے تھے۔یعنی کہ فلسطینیوں کا مرنا قابلِ قبول اور چھ مغربی ممالک کے امدادی کارکن کا مرنا نہایت ہی افسوس اور اسرائیل نے بہت غلط کیا۔تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان چھ مغربی امدادی کارکن کے سامنے ہزاروں فلسطینیوں کی جان کی قیمت کچھ بھی نہیں۔ جو کہ مغربی ممالک کی دوغلی پالیسی کا ایک بہترین نمونہ ہے۔اب اسے ہم مغربی ممالک کا دوغلاپن نہ کہیں تو کیا کہیں۔ یعنی ہزاروں فلسطینیوں کا مرنا گویا اسرائیل کی فتح اور مغربی چھ لوگوں کا مرنا نہات افسوس کی بات ہے۔میں تو کسی ایک انسان کی موت پرآہ بھرتا ہوں خواہ وہ کسی ملک، نسل یا مذہب کا ماننے والا ہو۔چاہے وہ مغربی ممالک کے امدادی کارکن ہی کیوں نہ ہو۔

اس دوران فلسطینیوں نے خان یونس کے تباہ شدہ شہر میں جہاں بمشکل کچھ بچا ہے، واپسی کی ہے۔ لیکن بیچارے فلسطینیوں کو سوائے کھنڈرات کے اور کچھ بھی نہیں ملا۔خان یونس کئی مہینوں سے اسرائیلی بمباری کی زد میں ہے۔ جس سے شہر اور آس پاس کا علاقہ بڑی حد تک تباہ ہوچکا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اسرائیل کا فوجی حملہ کہیں نہ کہیں ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ میں آئے دن اسرائیل کے خلاف آواز اٹھنے سے اسرائیل سیاسی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔اسرائیل بار بار رفح میں حملہ کرنے کی ضد کر رہا ہے جہاں تقریباً ڈیڑھ لاکھ فلسطین شہری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قاہرہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات جارہی ہیں۔

اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور مغربی ممالک کی پشت پناہی نے تیس ہزار سے زیادہ بے گناہ فلسطینیوں کی جان لے لی ہے۔ اسرائیل نے اب بھی اپنی جارحانہ فوجی ایکشن کو جاری رکھے ہوا ہے جس سے یہ بات صاف عیاں ہے کہ اقوامِ متحدہ کا وجود محض ایک مذاق ہے۔جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔میں اسرائیل کی فوجی کارروائی کی سخت مذمت کرتا ہوں اور  امید رکھتا ہوں کہ ہر انسان کی جان اتنی ہی اہمیت ہے جتنی چھ مغربی ممالک کے امدادی کارکن کی تھی۔مجھے امید ہے کہ اسرائیل کونسل کشی کے جرم میں سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ آنے دنوں میں کہیں اور انسانیت کا خون نہ ہو۔

Leave a Reply