You are currently viewing لندن بنا دنیا کا نمبر ون شہر

لندن بنا دنیا کا نمبر ون شہر

اس خبر کو پڑھ کر میں ہی خوش نہیں ہوا بلکہ لندن کے وہ تمام شہری خوش ہوئے جنہیں لندن پر ناز ہے۔ اور ہو بھی کیوں نہ، لندن صرف تاریخی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ ثقافتی، تہذیبی، معاشی، رواداری ، آزادی اور وقار کے لئے بھی دنیا کا بہترین شہر ماناجا تا ہے۔

مجھے لندن میں بسے ہوئے لگ بھگ 23سال ہوچکے ہیں اور اس دوران میں نے دنیا کے دیگر مقبول شہروں نیو یارک، پیرس، برسلز اور استنبول کاسفر کیا ہے۔ لیکن جو بات مجھے لندن شہر میں نظر آئی وہ بات ان تمام شہروں میں نہیں نظر آئی ہے۔ لندن میں دنیا کے ہر ملک کے انسان بسے ہوئے ہیں اور یہ ایک کثیرالثقافتی شہر ہے ۔ جہاں ہر زبان کے بولنے والے ملیں گے اور دنیا کے تقریباً ہر ملک کی ثقافت اور کھانا پینا بھی یہاں دستیاب ہے۔ تبھی تو لندن کو دنیا کا نمبر ون شہر مانا جارہا ہے۔

حال ہی میںPwC نامی ایک کلسنٹینسی کمپنی نے دنیا کے تمام شہروں میں ثقافت، انٹر ٹینمنٹ، بنیادی ڈھانچہ، صحت اور عام خو شحالی پر ایک سروے کیا تھا جس میں لندن دنیا کا سب سے بہترین شہر مانا گیا ہے۔ اس سروے میں تعلیم یافتہ طبقے سے لے کر بزنس کرنے والوں اور اعلیٰ آمدنی والے صارفین نے حصہ لیا تھا ۔ اس رپورٹ میں لندن کو ایک متحرک شہر بتا یا گیا ہے اور دوسروں شہروں کے مقابلے میں لندن کو قانونی سسٹم اور صحت کی خدمات کے لئے ایک ترقی یافتہ بنیادی ڈھانچہ والا شہر پایا گیا ہے۔

اس سروے میں پیرس دوسرے نمبر پر آیا ہے جہاں ثقافت، انٹرٹینمنٹ کے علاوہ لوگوں نے دوسرے ملکوں کی دلچسپی اور کھانے پینے کوا ہم مانا ہے۔ جبکہ تیسرے نمبر پر نیو یارک آیا ہے جہاں معاشی مضبوطی کے علاوہ امریکہ کے دوسرے شہروں کو نیو یارک سے جوڑنے میں لوگوں نے اہم شہر ماناہے۔ اس کے علاوہ یہاں ٹیکنالوجی اور جسمانی نشونما کا بنیادی ڈھانچہ کافی ترقی یافتہ مانا گیاہے۔ جبکہ  نیویارک میں جن کمزوریوں کو اجاگر کیا گیا ہے ان میں گاڑیوں کی بھیڑ اور رہن سہن کے اخراجات کوکافی مہنگا پایا گیا ہے۔

اس کے علاوہ جن دیگر شہروں نے لندن کے علاوہ رہنے اور اچھی زندگی کے لئے بہتر نمونہ پیش کیا ان میں سنگاپور اور ٹورنٹو شہر کے نام بھی اہم ہیں ۔ لیکن  نائیجیریا کے لاگوس شہرنے کافی مایوس کیا اور لسٹ کے کافی نیچے پایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا کا جکارتا، ہندوستان کا ممبئی اور کولمبیا کا بوگوٹا شہروں کی لسٹ میں کافی نیچے  ہیں۔

اس کمپنی نے دو فہریستیں جاری کی ہیں۔ ایک رہنے کے اعتبار سے کون سا شہر سب سے اچھا ہے اور دوسرا کون سا  شہر شہری سہولتوں کے اعتبار سے بہتر ہے۔ رہنے کے اعتبار سے جو تیس شہر وں کی لسٹ جاری کیا گیا ہے ان کے نام ہیں: لندن، پیرس، نیویارک، ایمسٹرڈم، سڈنی، برلن، ٹوکیو، ٹورنٹو، اسٹاک ہوم، لاس اینجلیس، سان فرینسیسکو، دبئی، میلان، میڈریڈ، شکاگو، ہانگ کانگ، سنگاپور، بیجنگ،  سیول، ریو،  شنگھائی، ماسکو، جوہانسبرگ، کوالا لمپور، میکسیکو سٹی، ساؤ پولو، ممبئی، جکارتا، بوگوٹا اور  لاگوس۔

شہری سہولتوں کے اعتبار سے  جن تیس شہروں کا نام جاری کیا گیا ہے، ان کے نام یہ ہیں: لندن، سنگاپور، ٹورنٹو، پیرس ، ایمسٹرڈم، نیو یارک،  اسٹاک ہوم، سین فرانسیسکو، ہانگ کانگ،  سڈنی،  سیول،  برلن،  لاس اینجلیس،  شکاگو،  ٹوکیو، میڈریڈ، دبئی، میلان،  بیجینگ،  کوالامپور،  شنگھائی، ما سکو، میکسیکو سٹی،  جوہانسبرگ،  ساؤ پولو،  بوگوٹا،  ریو، جکارتا،  ممبئی اور لاگوس۔

آپ کو لندن کی کچھ اہم بات اور لندن میں رہنے والے لوگوں کی بات بتاتے ہیں جس سے آپ کو یہ پتہ چل سکے کہ آخر لندن کو اتنا مقبول اور خوبصورت شہر کیوں مانا جاتا ہے۔ لندن انگلینڈ کی راجدھانی ہے اور گھنی آبادی والا شہر ہے۔ لندن دو ہزار سال سے بھی پرانا شہر ہے اور یہ دریائے تھیمس کے دونوں طرف بسا ہے۔ اس کی داغ بیل رومن نے ڈالی تھی اور اس کا نام (Londinium) لندینیم رکھا تھا۔ اس کا رقبہ 2.9 کیلو میٹر تھا۔
1397میں لندن کا پہلا مئیر چنا گیا تھا۔ جب شہر کی مقبولیت اور مصروفیت بڑھنے لگی تو اس وقت کے بادشاہ جون نے لندن کے مئیر کا انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا تھا اور ہر سال براہ راست لوگ مئیر کا انتخاب کرتے تھے۔ مجھے اس بات کو بتانے میں فخر محسوس ہورہا ہے کہ لندن کے لوگوں نے مئی 2016 کو پہلا ایشیائی مسلم مئیر صادق امان خان کا انتخاب کیا ہے۔

1665میں لندن شہر میں (plague) طاعون کا مرض پھیلا تھا جس سے ہزاروں لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اُن دنوں تجارت کے طور پر دوسرے ممالک سے جہاز جب لندن واپس آتے تھے تو ان جہازوں کے ذریعہ ہزاروں چوہے لندن آ جاتے تھے ۔ اس وقت لندن میں حفظان صحت کا بہت بڑا مسئلہ تھا اور لوگوں کی رہائش اچھی نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے طاعون کا مرض تیزی سے پھیل گیا تھا اور لگ بھگ ایک لاکھ لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔

1666میں لندن شہر میں آگ لگنا بھی ایک ایسا سانحہ تھا جس میں لندن کے لگ بھگ 80% فی صد مکانات جل گئے تھے۔ آگ کے تیزی سے پھیلنے کی ایک وجہ لکڑی کے مکانات کا ہونا تھا جس سے لندن کے مکانات تیزی سے چار دنوں میں جل کر خاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد مکانات کی تعمیر اینٹ اور پتھروں سے کی جانی لگی۔ لندن کا ٹرانسپورٹ نظام دنیا ایک عمدہ اور بہترین نظام کہا جا تا ہے۔ لندن انڈر گراؤنڈ ٹرین کا آغاز سب سے پہلے 1862میں ہؤا تھا جو کہ دنیا کی پہلی انڈر گراؤنڈ ٹرین سروس تھی۔ آج لندن میں 11 مختلف ٹیوب ٹرین لائن اور 270 اسٹیشن ہیں۔ گزشتہ بارہ ماہ  میں لندن انڈر گراؤنڈ ٹرین نے 1.34 ارب مسافروں کو اپنی منزل تک پہنچایا تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ لندن انڈر گراؤنڈ کتنی مقبول ہے۔

ایک اندازے کے مطابق فی الحال لندن کی آبادی 87 لاکھ ہے جس میں لگ بھگ دس لاکھ مسلمانوں کی آبادی ہے۔ لندن کے زیادہ ترعلاقوں میں مسلمان رہتے ہیں جو دنیا کے ہر ممالک سے آکر لندن میں بسے ہوئے ہیں۔ آج کل لندن کے ہر علاقے میں مساجد اور اسلامک سینٹر موجود ہیں، جہاں مسلمان عبادت کے علاوہ اسلامی تعلیمات سے واقف ہوتے ہیں۔ لندن میں کھانے پینے کے ریسٹورنٹ کافی مقبول ہیں جہاں دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے کھانے دستیاب  ہیں۔ ان میں ترکی ، لبنان ایران، برازیل، پاکستان، ہندوستان اور اٹلی کے نام نمایاں ہیں۔

لندن سیاّحوں کے لئے بھی کافی مقبول ہے۔ یہاں ہر سال لاکھوں سیاح سیر سپاٹے کے لئے آتے ہیں، جن میں امریکہ ، چین ، جاپان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک سے لوگ آتے رہتے ہیں۔ لندن کی سب سے پر کشش عمارت برٹش میوزیم ہے جسے سال میں 65 لاکھ لوگ دیکھنے آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ نیشنل گیلیری جہاں 60 لاکھ، نیشنل ہسٹری میوزیم  50 لاکھ، ساؤتھ بینک سینٹر 50 لاکھ اور ٹیٹ موڈرن گیلیری جسے  45 لاکھ لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ ٹاؤر آف لندن بھی کافی مقبول تاریخ ساز عمارت ہے۔  25 لاکھ لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہاؤس آف پارلیمنٹ  10 لاکھ، ویسٹ منسٹر ایبی 15 لاکھ اور معروف ٹاور بریج کو دیکھنے ہر سال دس لاکھ  لوگ آتے ہیں۔

لندن کا رہائشی ہونے کے ناطے مجھے اس بات کی خوشی اور فخر ہے کہ میرا شہر دنیا کا نمبر ون شہر قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن اس سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے لندن کے لوگوں نے اپنی ایمانداری، مساوات، رواداری، ثقافت ، محنت ، تعلیم ، وقار، صحت، انسانیت ، امن ا ور بھائی چارگی کا ایسا عمدہ مثال پیش کیا ہے کہ لندن کو دنیا کا نمبر ون شہر ماننے میں ہمیں اور آپ کو کوئی جھجھک نہیں ہے۔

Leave a Reply