You are currently viewing جنم دن مبارک ہو

جنم دن مبارک ہو

مت پوچھ کے کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا میرے آ گے
آج کی ڈائری کا آغاز غالب کے اس شعر سے کررہاہوں ۔ آپ بھی حیران ہوں گے کہ آخر غالب کے اس شعر کو لکھنے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ تو بھئی بات یہ ہے کہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ لاہور کے اچانک دورے کے دوران نریندر مودی جی نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں غالب کے اسی شعر کو پڑھتے ہوئے میاں نواز شریف کو سینے سے لگایا ہوگا۔

ہؤا یہ کہ پچھلے ہفتے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی جی افغانستا ن سے ہندوستان واپس جا رہے تھے کہ انہیں اچانک یاد آیا کہ ان کے پڑوسی ملک پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا آج جنم دن ہے۔ پھر کیا تھا انہوں نے فوراً یہ حُکم دے ڈالا کہ جہاز کو لاہور اتارا جائے۔ ادھر نریندر مودی جی کا جہاز لاہور اتراُ دھر پوری دنیا میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ نریندر مودی اچانک لاہور پہنچ کر میاں نواز شریف کو جنم دن کی مبارک دے رہے ہیں۔خود میاں نواز شریف بھی دنگ تھے کہ آخر ہندوستان کے وزیر اعظم اچانک پاکستان کیسےآ گئے۔ لیکن پاکستانی وزیر اعظم بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ انہوں نے نریندر مودی جی کا والہانہ استقبال کیا ور انہیں اپنے محل میں لے جا کر ان کی خوب خاطر تواضع کی۔ نریندر مودی جی کو تصویروں میں میاں نواز شریف کا ہاتھ پکڑ کر چلتے دکھایا گیا تو ایک اور تصویر میں نریندر مودی کو میاں نواز شریف کی ماں کے قدم کو ہاتھوں سے چھوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

برطانیہ سمیت دنیا کے زیادہ تر اخباروں نے نریندر مودی کے اچانک پاکستان پہنچنے کو (Surprise visit)لکھا تو وہیں اس اچانک دورے پر تنقید بھی کی گئی۔سوشل میڈیا میں بھی اس اچا نک دورے کو کہیں اہم بتا یا گیا تو کہیں لوگوں نے اس اچانک دورے کو ایک سازش بتایا۔ ہندوستان کے کئی لوگوں نے نریندر مودی کے میاں نواز شریف کی ماں کے قدم چھونے والی بات کو ہندوستانی ثقافت کی عمدہ مثال بتا یا جب کہ کئی لوگوں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی ایک بار پھر قدموں پر گر گئے۔ یوں تو ہندوستان اور پاکستان کے لیڈروں کا ملنا ہمیشہ دنیا کی نظروں میں اہم مانا جاتا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں نیو کلیر طاقت ہیں اور ان کے درمیان آپس میں کافی رنجش اور تناؤ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جتنے جلدملتے ہیں اتنا ہی جلدان میں توں توں میں میں بھی شروع ہوجاتی ہے جو کہ دو دوستوں کے دوران ایک عام بات کہی جاتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ مودی کا پاکستان اچانک جانا دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات کے لئے ایک مثبت قدم ہے۔ لیکن وہیں بعض لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چند چیزیں ایسی ہیں جو ہمیشہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں اڑنگا لگاتی ہیں مثلاً کشمیر کا مسئلہ اور دہشت گردی کا معاملہ ۔ تاہم دونوں ہی طرف سے اس دو گھنٹے کے ملاقات کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے اور نریندر مودی اس ذاتی ملاقات کے بعد ہندوستان لوٹ گئے۔جس سے یہ صاف ظاہر ہوگیا کہ نریندر مودی لاہور صرف میاں نواز شریف کو جنم دن کی مبارک باد دینے گئے تھے۔

1947کی آزادی کے بعد سے ہندوستان اور پاکستان کشمیر کو لے کر کے تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ان ساٹھ برسوں میں دونوں ممالک کشمیر کو اپنا حصہّ مانتے رہے ہیں۔2003میں دونوں ممالک نے جنگ بندی پر آمادہ ہوکر ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے لیکن آئے دن دونوں ممالک ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہیں اور پھر تناؤ بڑھ جاتا ہے۔
میاں نواز شریف نے 2013کے عام چناؤ میں جیت کے بعد یہ اعلان کیا تھاکہ اس الیکشن میں کامیابی کے بعد ان کی سب سے اہم ترجیح دہلی سے رشتے کو بہتر بنانا ہے۔اس کے ایک سال بعد جب نریندر مودی نے ہندوستان کے عام چناؤ میں کامیابی حاصل کی تو انہوں نے اپنی حلف برداری کی رسم کے لئے میاں نواز شریف کو خاص طور پر بلا یاتھا۔اس طرح یہ پہلا موقعہ تھا جب کوئی پاکستانی وزیر اعظم، ہندوستانی وزیر اعظم کی حلف برداری کے رسم میں شریک ہؤا۔ اس پر لوگوں کو حیرانی کے ساتھ ساتھ امید کی کرنیں بھی نظر آئیں۔ لیکن پاکستانی ملٹری کو نریندر مودی کے ان اقدام میں کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے۔ راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹر کی ہائی کمانڈ کو تو کم از کم یہی محسوس ہورہا ہے ۔ اوروہ ہندوستان کو مسلسل شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔تا ہم کچھ ملٹری افسران اس بات کو بھی محسوس کر رہے ہیں کہ کٹر پسند ہندو لیڈر نر یندر مودی شاید ہندوستان اور پاکستان کے رشتے کو مضبوط بنا کر اپنی تصویر کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے علاوہ ہندوستان ہمیشہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا تا رہا ہے جو کہ دونوں ملکوں کے رشتے میں ایک رکاوٹ بنا ہؤا ہے۔

حالانکہ پاکستان خود بھی طالبان سے ایک لمبی جنگ لڑ رہا ہے۔ مگر پاکستان میں لشکر طیبہ بھی موجود ہے (جس کا نیا نام جماعت دعوۃہے) جسے ہندوستان ہمیشہ ممبئی حملے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور الزام لگاتا ہے کہ پاکستان اس جماعت کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا رہا ہے۔ذکی الرحمٰن جس پر الزام ہے کہ اس نے ممبئی حملے کا پلان بنا یا تھا اور جسے اپریل میں جیل سے رہائی مل گئی تھی، یہ رہائی ہندوستان کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔اس موقعہ پر ہندوستان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ذکی الرحمٰن کی رہائی 26/11کے ممبئی حملے میں مارے جانے والوں لوگوں کی توہین ہے۔اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان الزام تراشی کا بازار ایک بار پھر گرم ہو گیا۔ جون میں نریندر مودی نے بنگلہ دیش کے دورے کے دوران پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان، ہندوستان میں دہشت گردی کو فر وغ دے رہا ہے۔ پاکستان بھی ہمیشہ ہندوستان پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں علیحد گی پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود جولائی میں دونوں ممالک کے وزیراعظم روس کے شہر اوفا میں اس بات پر آمادہ ہوئے تھے کہ دونوں ممالک کے نیشنل سیکوریٹی کے مشیر آپس میں مل کر دونوں ممالک کے معاملات پر گفتگو کریں گے۔ لیکن پاکستان نے بات چیت شروع ہونے سے پہلے ہی اس میں حصہّ لینے سے انکار کر دیا۔ ایسا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پاکستانی ملٹری جو کہ روایتی طور پر اپنے ملک کی خارجہ پالیسی پر اثر و رسوخ رکھتی ہے، اس نے حکومت کو بات چیت معطل کرنے کا مشورہ دیا ہوگا کیونکہ کشمیر کا معاملہ ایجنڈا میں شامل نہیں تھا۔ لیکن سیاسی تنقید نگار مودی کے ان اقدام پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مودی کی نیپال کے بارے میں پالیسی کو ایک سوچی سمجھی چال بتا رہے ہیں۔ نیپال کے نئے آئین کے خلاف اقلیتی طبقہ احتجاج کر رہا ہے اور جس کے نتیجے میں نیپال کی عام زندگی ٹھپ ہو گئی ہے۔
ہندوستان ، نیپال کا ایک طاقتور پڑوسی ملک ہے لیکن وہ نیپال کے نئے آئین کو ماننے سے انکار کر رہا ہے۔ لوگوں نے ہندوستان سے نیپال جانے والی سڑکوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے عام زندگی کی چیزوں کی آمد و رفت پر برا اثر پڑا ہے۔ نیپال نے ہندوستان پر الزام لگایا ہے کہ مودی حکومت نئے آئین کو لاگو کرنے نہیں دینا چاہتی ہے۔ اس لئے اس نے لوگوں کو احتجاج پر اکسا رکھا ہے۔

دیکھا جائے تو مودی کا اچانک لاہور جا کر میاں نواز شریف کو مبارک باد دینا جہاں ایک خوش آئیند بات ہے تو وہیں کافی لوگ اسے مشکوک نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ مودی کا لاہور جانا ایک سوچی سمجھی چال ہے جس سے وہ دنیا کو یہ بتا نا چاہ رہے ہیں کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ ایک خوشگوار ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مودی کا میاں نواز شریف کو اچانک لاہور پہنچ کر جنم دن کا مبارک باد دینا مجھے بھی اچھا لگا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں مودی جی کی باتوں اور اقدام پر مجھے بھی شک گزرتا ہے۔ چاہے ان کی دھوئیں دار تقریر ہو یا مسکراہٹ ۔۔۔مجھے مودی جی کی نیت میں کھوٹ نظر آتا ہے۔ ویسے بھی مودی جی جس طر ح سے دنیا کا چکر کاٹ رہے ہیں ، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مودی جی کو جہاز پر چڑھنا اور دنیا کی سیر کرنے کا بڑا شوق ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ مودی جی ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے ایمانداری سے کوشاں ہیں تو پھر مودی جی پاکستان کو کیسے آمادہ کریں گے کہ کشمیر ہندوستان کا حصہّ ہے اور ہم اس کے بغیر کسی بات چیت میں حصہّ لے سکتے ہیں۔

مودی جی شاید دنیا کو یہ دکھانے میں تو کامیاب ہو جائیں کہ وہ ایک اچھے دوست کے ناطے لاہور پہنچ کر جنم دن کی مبارک باد دے سکتے ہیں لیکن جب پڑوسی دوست ہر بات پر کشمیر کی ضد پر اڑا رہے گا تو مودی جی چاہے جتنے جنم دن کی مبارک باد دیں،کیک کا مزہ تو پھیکا ہی رہے گا۔ کشمیر کا مسئلہ لا ینحل ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس کا کوئی حل موجود ہے ۔ویسے بھی کہیں نہ کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے خارجہ پالیسی میں یہ درج ہے کہ ’ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں‘ تو پھر ان باتوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا ہے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی عوام کی آپسی محبت اور بھائی چارہ اس گندی سیاست اور نفرتوں کی دیوار کو گرا دے گا، انشا اللہ ایک دن دونوں ممالک میں امن و امن قائم ہوگا۔ ہم سب کو اس کی امید ہے۔

Leave a Reply