You are currently viewing مہجری ادب، بیچاری اردو اور مفاد پرستی

مہجری ادب، بیچاری اردو اور مفاد پرستی

ان دنوں ہند وپاک کی ادبی محفلوں میں ’مہجری ادب‘ کا بہت شور و غوغا سنائی دے رہا ہے۔ اپنے بہتر مستقبل کی خاطر ہجرت کرنا زمانہ قدیم سے ہی دنیا کا دستور ہے۔  وطن عزیز سے دور اپنی زبان و تہذیب سے جذباتی وابستگی فطری عمل ہے۔ اردو زبان کی خوبی رہی ہے کہ ہر زمانے میں رونما ہونے والے تغیرات کا اس نے بھرپور ساتھ دیا ہے۔

ایسا دیکھا جارہا ہے کہ آج کچھ لوگ ادب کو  ’مہجری ادب‘، ’دلت ادب‘ ’احتجاجی ادب‘جیسے القاب سے موسوم کرتے ہیں۔ ان سب تماشوں کے درمیان اردو بیچاری اپنے وجود میں ادبیت تلاش کرتی پھر رہی ہے کہ میری پہچان، شائستگی،  رواداری،  شیرینی کی وجہ ہے۔وہ اب کہاں ہے۔ کچھ لوگ اردو کی خدمت کے نام پر بین الاقوامی سطح پر اپنی دکان چمکانے کی بھرپورکوشش کر رہے ہیں اور وہ مہجری ادب کے نام پر تقریبات کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور ان میں شاعروں سے زیادہ متشاعر، ادیبوں سے زیادہ نا خلف جمع کئے جاتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ ایسا اس لئے ہورہا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے چند نام نہاد اسکالر ممکن ہے بیرون ممالک بالخصوص یورپ، مصر اور ترکی وغیرہ کا دورہ کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مہجری ادب،  بیچاری اردو اور مفاد پرستی آج کل بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔

اس کا  ذاتی مشاہدہ اور آن لائن کے پروگرام سے بھی ہوا۔ آئے دن آن لائن پروگرام کے ذریعہ اردو ادب کے حوالے سے دنیا بھر کی مختلف تقریبات سے واقفیت ہورہی ہے۔جس میں اردو کے شیدائی اور اپنے اپنے طور پر آن لائن پروگرام سے ہم جیسے اردو کے طالب علموں کی معلومات میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔میں ان کا ممنون ہوں۔لیکن سوشل میڈیا کے ذریعہ وہیں کچھ لوگ ایسی باتیں بھی کر رہے ہیں جو ہم سب کے لیے تشویش ناک اور لمحہ فکریہ بھی ہے۔ جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔

ا ردو ایک زندہ زبان ہے اور ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ پوری دنیا میں ایک  سو ملین سے زیادہ لوگ اردو زبان بولتے ہیں۔ دنیا میں لگ بھگ سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ عالمی زبانوں  کے انڈکس کے مطابق دنیا کی تیس مقبول ترین اور سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اردو زبان کو انیسواں مقام حاصل ہے۔جس سے ہمارے ساتھ آپ کو بھی فخر ہوتا ہوگا کیوں کہ  ہم سب اردو زبان کی ترقی و تریج کے لیے دنیا بھر میں اپنے  اپنے طور پر نمایاں رول نبھا رہے ہیں۔یوں بھی برطانیہ کو اردو کا تیسرا مرکز مانا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں کئی نامور شاعر، ادیب، مصنف اور دانشور وں نے اردو زبان میں اپنی تخلیقات شائع کی ہیں جو اردو کی ترویج میں بلا شبہ  ممد و معاون ثابت ہو ئی ہیں۔ لیکن حال ہی میں مہجری ادب کے حوالے سے ایک آن لائن پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں برطانیہ اور یورپ سے ایسے لوگوں کا تعارف کرایا گیا جنہوں نے اردو ادب کی خدمت کم اور اپنی ذاتی مفاد کے لیے اپنی دکان  ضرور چمکائی ہے۔ یہ لوگ اپنے اپنے طور پر یک نفری ذاتی ادارہ بنا کر ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں نام نمود کے لیے بیچاری اردو زبان کا استحصال کر رہے ہیں۔

اس کی سربراہی کچھ ایسے لوگ کر رہے ہیں جنہیں غیر ممالک سفر کا بے حد شوق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے خود ساختہ خدمت گاروں کو اردو ادب کا ’ابن بطوطہ‘ بھی کہہ رہے ہیں۔ان کے آن لائن پروگرام میں دروغ گوئی اور کذب بیانی کا سہارا لے کر معمولی بیرون ممالک مہمانوں کی جھوٹی تعریف کے ذریعہ انہیں میر، غالب، اقبال اور فیض کی صف میں لا کھڑا کیا جاتاہے۔جو کہ  صرف شرمناک بات ہی نہیں بلکہ قبیح فعل بھی ہے۔مجھے حیرانی ہے کے کیااردو زبان و ادب کی خدمت صرف مصر میں ہی ہورہی ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نام نہاد خدمت گار کہ ہر پروگرام میں صرف مصر کے مہمان ہی زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ بیرون ممالک کے زیادہ تر مہمان عمر رسیدہ ہوتے ہیں اور نوجوان طبقہ سرے سے خارج ہوتا ہے۔

میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اُردو کا جو حال زار ہے اس پر سنجیدگی سے بحث کی جانی چاہیے۔ مجھے اس کی بھی تشویش ہے کہ یہ معاملہ ادب سے متعلق ہے یا محض اردو زبان کے نام پر ایک کھلواڑ؟ یاخدمت کے نام پر اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کی ہوس ہے۔ بات چاہے کچھ بھی ہومجھے ایسے لوگوں کی نیت میں کھوٹ دکھ رہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر سال مہجری ادب کی فکر ہندوستان اور پاکستان کے ہی چند افراد کو ستانے لگتی ہے۔ میں نے تو پچھلے سال سے اب تک  آن لائن پروگرام میں دنیا بھر کے ادیبوں اور اردو داں کو شامل ہوتے دیکھا ہے۔ تو کیوں یہ حضرات مہجری ادب کے نام پر اردو زبان کو تقسیم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

میں یورپ کی نو آباد اردو بستیوں میں اردو کے حوالے سے بہت مطمئن نہیں ہوں۔ ہم مختلف انجمنوں کی تقاریب میں شرکت کر کہ کچھ پل کے لیے خوش تو ضرور ہوجاتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو تو دھوکہ دے  رہے ہیں بلکہ ہندوستان و پاکستان کے لوگوں کے ساتھ بھی ایمانداری سے پیش نہیں آرہے۔ ان دنوں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ کیا یورپ میں اردو کی بستیوں کا حوالہ دینا یا اردو کی بستیاں کہنا درست ہے؟ بقول ماہر نقاد شمس الرحمن فاروقی ’ہمارے بعض دوستوں نے ’اردو کی نئی بستیاں‘ کا نعرہ ایجاد کیا ہے۔ خدا ہی جانے کہ یہ نعرہ کسی سنجیدہ مطالعے اور حقائق و اعداد و شمار پر مبنی ہے یا بھولے بھالے اردو والوں کو رجھانے کے لیے ایک سیاسی سٹنٹ ہے‘۔ شمس الرحمن فاروقی مزید لکھتے ہیں کہ ’اصل سوال یہ ہے کہ اردو کا تھوڑا بہت وجود جو بیرونی ممالک میں کہیں کہیں نظر آتا ہے،  وہ قائم رہے گا یا نہیں؟ اور قائم رہے گا تو کیا اتنے بہت سے لوگوں کی مادری زبان اور اولین زبان کی حیثیت سے قائم رہے گا کہ اس میں ادب تخلیق ہو سکے؟ مجھے دونوں باتوں میں ظاہر کئے گئے شبہات کلی طور پر اتفاق ہے‘۔

 شمس الرحمن فاروقی کی اس بات سے میں بھی سو فی صد اتفاق کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ سمیت یورپ بھر میں

آئے  دن مشاعرے،  کانفرنس ہوتی رہتی ہیں جو کہ ایک امید افزا  بات ہے۔ جس سے ہم محبانِ اردو کو کچھ حد تک اردو کی خدمت اور اپنے جوہر کو دکھانے کا موقع ضرور مل جاتا ہے۔لیکن ان تقریبات میں نئی نسل کی عدم موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ برطانیہ اور یورپ کی نئی نسل اردو پڑھنے اور بولنے کی حد تو ٹھیک ہیں لیکن اردو کی ادبی محفلوں میں ان کی غیر موجودگی ایک تشویش اور فکر انگیز بات ہے۔تاہم ہمیں توجہ اس بات پر دینی چاہیے کہ نئی نسل کو اردو کی طرف کیسے راغب کیا جائے۔ سوشل میڈیا آج دنیا میں مواصلت کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ روازانہ لاکھوں لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے  پیغامات کی ترسیل  آسانی سے کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیکھنے اور سکھانے کے مواقع بھی ملنے لگے ہیں۔جس سے ہر عام و خاص فیضیاب ہو رہا ہے۔تاہم سوشل میڈیا سے جہاں لوگوں کو اپنی بات پیش کرنے میں آسانی ہورہی ہے وہیں لوگوں میں گمراہ کن باتوں کی وجہ سے پریشانیاں بھی بڑھی ہیں۔

میں اردو زبان کی ترقی و ترویج کے لیے دنیا بھر کے ادیبوں اور اردو داں کو ایک خاندان مانتا ہوں۔ بیرون ممالک میں بسنے والے زیادہ تر اردو ادیبوں کی نگارشات سے ہم سوشل میڈیاکے ذریعہ روزانہ متعارف ہورہے ہیں۔ البتہ ان نام نہاد اردو کے خدمت گاروں کے ذریعہ پھیلائی گئی مہجری ادب کی تبلیغ اور گمراہ کن باتوں نے لوگوں کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔برائے مہربانی اردو ادب کو مہجری، نئی بستی، احتجاجی، دلت، وغیرہ کا نام دے کر کمزور کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ مجھے امید ہے کہ اردوداں طبقہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ گنگا جمنی تہذیب اردو زبان کی خصوصیت رہی ہے اور یہی اس کی شناخت بھی ہے۔ اردو و زبان کی یہ خوبی ہے کہ ہم بلا تفریق مذہب و ملت، قوم و نسل، ذات پات، ایک دوسرے سے زبان و ادب کے وسیلے سے جڑے ہوئے ہیں۔

Leave a Reply