You are currently viewing ہندوستانی جمائی بابورشی سونک

ہندوستانی جمائی بابورشی سونک

زندگی میں ایک بار ہم سب جمائی بابو یعنی دامادبنتے ہیں یا بن جاتے ہیں۔ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے داماد بننے کی ایک وجہ،شادی کے رواج کے ساتھ ساتھ مذہبی اور روایتی طور پر یہ رشتہ خاندانوں کے بیچ کافی اہم بنتا گیا۔ جمائی بابو یعنی داماد کا رشتہ ہر مذاہب اور نسل میں کافی اہم اور مان جان والا سمجھا جاتا ہے۔

اگر میں اپنی بات کروں تو ہم بھی زندگی میں ایک بار جمائی بابو یعنی داماد بننے کا شرف حاصل کرچکے ہیں۔ تاہم ہم شاید جمائی بابو کا وہ لطف نہیں لے سکے جو عام طور پر ہندوستان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔اب آپ اس سے ہمارے رشتے پر شک کی انگلیاں نہ اٹھائیے۔ دراصل میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ ہمیں آج تک جمائی بابو جیسا محسوس ہی نہیں ہوا۔ بس شادی ہوئی اور پھر جمائی بابو لندن کی مصروف ترین زندگی میں ایسے بھاگنے لگے کہ ہم داماد کم اور عام لندن باسی بن کر داماد کے سارے تقاضے بھول گئے۔ اب تو بیچاری ساس کا انتقال بھی ہوگیا اور فادر اِن لا یعنی سسر صاحب تو شادی سے قبل از وقت ہی پر لوک سدھار گئے تھے یعنی انتقال کر گئے۔

یعنی میں آج بھی جب کسی جمائی یا داماد کی آؤ بھگت دیکھتا ہوں تو نہ جانے کیوں مجھے جلن ہونے لگتی ہے اور خود پر  غصہ بھی آتا ہے کہ کیوں نہ ہم نے شادی کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا کہ بیوی کے ساتھ ساتھ تندرست ساس اور سسر کا بھی زندگی میں ہونا لازمی ہے۔ خیر اب تو “ٹولیٹ ” ہوچکایعنی شاید کافی دیر ہوچکی ہے۔ ویسے امید پر دنیا قائم ہے۔

دراصل آج میں کسی عام جمائی بابو کی بات نہیں کر رہا بل کہ برطانوی وزیراعظم رشی سونک کی بات کر رہا  ہوں جو جی ٹونٹی  یعنی ان امیر ممالک کی میٹنگ کی بات کر رہا  ہوں،جس کی میزبانی انڈیا کر رہا ہے۔اسی میٹنگ میں شرکت کے لئے رشی سونک جب ہندوستان پہنچے تو انہوں نے رپورٹروں سے کہا کہ” میں ہندوستان کا داماد ہوں “۔بس جناب دھڑا دھڑ رشی سونک کا یہ جملہ خبروں کی سرخیاں بن گئیں۔یہ سن کر مجھے خود پر مایوسی ہوئی کہ کاش مجھے یہ بات کہنے کا موقعہ ملتا۔لیکن میرا معاملہ رشی سونک سے تو قدرے مختلف ہے۔میری ساس اور سسر پہلے ہندوستان، پھر پاکستان پھر برطانیہ۔ گویا دنیا گھوم پھر کر وہ برطانیہ اوروں کی طرح آبسے تھے۔وہیں رشی سونک کے والدین پہلے تقسیمِ ہند سے قبل یعنی پاکستان پھر مشرقی افریقہ اور پھر برطانیہ آبسے تھے۔پھر رشی سونک کی شادی ایک ارب پتی ہندوستانی لڑکی سے ہوگئی۔ اس طرح رشی سونک کے تو دونوں ہاتھوں میں لڈو ہی لڈو ہے۔یہ شادی والالڈو نہیں جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔

پچھلے سال ہندوستانی نژاد رشی سونک کا کنزرویٹیو پارٹی کے لیڈر شپ کی جنگ کے لئے میدان میں دوبارہ اترنا محض ایک اتفاق تھا اور ایسا معلوم پڑا کہ سارا گیم پلان پہلے سے کسی نے تیار کر رکھا تھا۔اس کی ایک وجہ جب رشی سونک اپنی پارٹی کنزرویٹیوپارٹی کی لیڈر شپ کی جنگ لِز ٹرس سے ہار گئے تو ایسا لگا کہ برطانیہ کبھی کسی ایشیائی یا افریقی نژاد فرد کو وزیراعظم قبول نہیں کرے گا۔لیکن اب اسے قسمت کہیں یا اتفاق یا جنم کنڈلی جس نے برطانیہ کے رشی سونک کو آخر کار وزیراعظم بنا دیا۔ ویسے میں اسے قسمت ہی کہوں گا۔ ورنہ جس طرح سے رشی سونک کنزرویٹیو پارٹی کی لیڈر شپ میں ہارے تھے،اس سے تو ایسا ہی لگا کہ ہندوستانی نژاد رشی سونک تو کیا، برطانیہ میں کبھی کوئی ایشیائی یا افریقی نژاد فرد وزیراعظم نہیں بن سکتا۔

رشی سونک پہلی بار 2015میں شمالی یارکشائر کے رچمنڈ کے لیے ایک ایم پی کے طور پر منتخب ہوئے تھے۔ شاید ایشیائی نژاد اور ایک امیر ترین ہندوستانی بزنس مین کے داماد ہونے کی وجہ سے سابق وزیراعظم بورس جانسن نے رشی سونک کو فروری 2020میں چانسلر یعنی وزیر خزانہ بنایا تھا۔ تاہم رشی سونک نے جیسے ہی برطانیہ کی معیشت کو سنبھالاان پرکورونا وبا اورلاک ڈاؤن شروع ہوتے ہی معاشی بحران کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔پھر بھی رشی سونک نے بطور چانسلر کرونا امراض سے متاثر لوگوں کی مدد کرنے کیلئے کافی کچھ کیا۔ جس سے رشی سونک کی مقبولیت کافی بڑھ گئی تھی۔لیکن خود رشی سونک کو جون 2020میں وزیراعظم کی رہائش گاہ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں لاک ڈاؤن قوانین کو توڑنے پر پولیس کی طرف سے جرمانے کی سزا کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔اس کے علاوہ رشی سونک پر یہ بھی الزام لگا کہ انہوں مہنگائی سے جدوجہد کرنے والے گھرانوں کو درپیش مسائل کودرگزر کیا تھا۔اس کے بعد ان کے خاندان کے مالی معاملات کی سخت جانچ پڑتال کی گئی۔ جس میں ان کی ارب پتی بیوی اِکشتا مورتی کے ٹیکس کے معاملات پر کافی تنقید ہوئی تھی۔بعد میں رشی سونک کی بیوی نے اعلان کیا کہ وہ اپنے شوہر پر سیاسی دباؤ کو دور کرنے کے لیے اپنی بیرون ملک کمائی پر برطانیہ کا ٹیکس ادا کرنا شروع کر دے گی۔

رشی سونک کے والدین مشرقی افریقہ سے برطانیہ آئے تھے اور دونوں ہندوستانی نژاد تھے۔ رشی سونک 1980میں ساؤتھمپٹن میں پیدا ہوئے تھے۔ جہاں ان کے والد پیشے سے ڈاکٹر تھے اوران کی والدہ فارمیسی کی دکان چلاتی تھیں۔رشی سونک نے پرائیوٹ اسکول ونچسٹر کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی اور گرمیوں کی چھٹیوں میں ساؤتھمپٹن کے کری ہاؤس میں ویٹر کے طور پر کام کیا۔ پھر فلسفہ، سیاست اور معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آکسفورڈ یونیورسٹی چلے گئے۔اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں ایم بی اے کی تعلیم کے دوران ان کی ملاقات اپنی اہلیہ محترمہ اِکشتامورتی سے ہوئی جو نارائن مورتی کی بیٹی اور ہندوستانی ارب پتی اور آئی ٹی سروس انفوسس کے شریک بانی ہیں۔

رشی سونک جب سے برطانوی وزیراعظم بنے ہیں،تب سے سوشل میڈیا پر برطانوی وزیراعظم کا ایک کارٹون ایسا بھی دیکھا گیا ہے جس میں نمبر ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر کافی سارے جوتے اور چپل پھیلے ہوئے ہیں اور ایک ہندوستانی سپاہی پہرہ دے رہا ہے۔تو وہیں جب سے رشی سونک برطانوی وزیراعظم بنے ہیں،ہندوستانی ٹیلی ویژن پر تو رشی سونک کو یوں دکھایا جاتا ہے جیسے وہ برطانیہ کے نہیں بل کہ ہندوستان کے وزیراعظم ہیں۔ ویسے مجھے اس بات سے حیرانی نہیں ہوگی جب ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اپنے 56 انچ سینے کو پھلا کر اورپرجوش ہو کر کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ رشی سونک کو وزیراعظم بنا نے میں انہوں نے مہترپن بھومیکا نبھایاہے یعنی ہندوستانی وزیراعظم مودی نے ہی رشی سونک کو وزیر اعظم بنایا ہے۔ ویسے رشی سونک کے وزیراعظم بننے پر لندن، لیسٹر، نوٹنگھم، لیڈس، لیورپول کے علاوہ دنیا بھر میں بسے ہندوستانی مارے خوشی کے اب تک دیوالیاں منارہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے عام انتخاب میں رشی سونک کنزرویٹی پارٹی کو لیڈ کر کے دوبارہ برطانوی وزیراعظم بنیں گے یا ہندوستانی داماد بن کر لڈو کھائیں گے۔

تاہم رشی سونک پہلی بار ہندوستان نہیں جارہے ہیں بل کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہر فروری اپنے سسرال کا سفر کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس بار کا دورہ ان کے لئے خاص ہے کیونکہ وہ بطور برطانوی وزیر اعظم ایک خاص میٹنگ جی ٹوینٹی کے لئے سفر کر رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رشی سونک کو بطور داماد جہاں عام ہندوستانی کا پیار ملنے کی امید ہے وہیں انہیں جی ٹوینٹی کی تجارتی میٹنگ سے بھی کافی امیدیں وابستہ ہے کیونکہ برطانیہ بریکزیٹ کے بعد اپنی تجارت ہندوستان اور دیگر ممالک سے مزید مضبوط و مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لئے رشی سونک کافی پرجوش ہیں۔میری طرف سے جمائی بابو رشی سونک کو خاص انڈیا سفر پر کافی سبھ کامنائیں۔

Leave a Reply