You are currently viewing ڈیمنشیا کیا ہے

ڈیمنشیا کیا ہے

ان دنوں ہندوستان سے کافی لوگوں نے رابطہ کیا کہ ڈیمنشیا کے متعلق کچھ لکھوں۔ ویسے تو میں  کئی برس پہلے الزائمر اور ڈیمنشیا کے متعلق کالم لکھ چکا ہوں جس میں ڈیمنشیا کے متعلق میں نے اہم معلومات فراہم کی تھیں۔

1994میں میری دوسری نوکری لندن کے گرینچ بورومیں ڈیمنشیا پراجیکٹ میں ہوئی تھی۔ جہاں چار سال ڈیمنشیا پراجیکٹ میں کام کرکے ڈیمنشیا کے متعلق کافی کچھ سیکھا  تھا۔اس ڈیمنشیا پراجیکٹ میں مجھے ان لوگوں کے ساتھ تھیراپی کے  علاوہ ان کے رشتہ داروں کے ساتھ بھی مسلسل رابطہ رکھنا پڑتا تھا۔ڈیمنشیا پراجیکٹ نے مجھے کئی  تربیتہ کورسزمیں بھی بھیجا جہاں سے ڈیمنشیا کے متعلق میری معلومات میں مزید اضافہ ہوا تھا۔الزائیمر مرض دماض میں ہوتا ہے جس سے دماغ کے سیل یا تو سکڑنے لگتے ہیں یا پھر وہ ناکارہ ہوجاتے ہیں جس سے انسان کی یادداشت جانے لگتی ہے۔ اس مرض کا اب تک کوئی علاج نہیں ہے حالانکہ سائنسداں اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔

ڈیمنشیا کیا ہے؟ ڈیمنشیا چھتری کی مانند ایک مثال ہے جو دماغ پر اثر انداز ہونے والے اعصابی عوارض کی ایک حد بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ڈیمنشیا کی 200سے زیادہ  قسمیں ہیں لیکن ان میں پانچ سب سے زیادہ عام ہیں۔ الزائمر کی بیماری، ویسکولر ڈیمنشیا، لیوائی بوڈیز ڈیمنشیا، فرنٹوٹیمپورل ڈیمنشیا اور مخلوط ڈیمنشیا۔اس کے علاوہ شراب زیادہ پینے سے دماغ کو نقصان پہنچنا، ینگ اون سیٹ ڈیمنشیا، ہنٹنگٹن بیماری، اور پارکنسن بیماری بھی عام ہیں۔ کچھ لوگوں میں مختلف قسم کے ڈیمنشیا کا امتزاج ہو سکتا ہے اور ان کو عام طور پر مخلوط ڈیمنشیا کہا جا تا ہے۔عام طور پر ڈیمنشیا کی تشخیص دماغ کے سٹی اسکین یا پھر یادداشت کی کمزوری یا بھولنے کی وجہ ے کی جاتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کس قسم کی ڈیمنشیا کی تشخیص ہوتی ہے اور دماغ کا کون سا حصہ متاثر ہوتا ہے،اس کے لیے ہر فرد کو اپنے طور پر ڈیمنشیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آئیے اب ڈیمنشیا کا کیا سبب ہے اسے جانتے ہیں۔ دماغ اعصابی خلیات (نیورون) سے بنا ہوتا ہے جو پیغام بھیج کر ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ڈیمنشیا جب دماغ کے اعصابی خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے تو جس کے نتیجے میں پیغامات دماغ سے  مؤثر طریقے سے نہیں بھیجا جا سکتا ہے۔جوجسم کوعام طور پر کام کرنے سے روکتا ہے۔اسی لیے ڈیمنشیا کے مریضوں کو ہم دھیرے دھیرے کمزور اور لاچار دیکھتے ہیں۔ جس سے ان لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے صبر اور قابل لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے جو ڈیمنشیا مریضوں کی ضرورت کو سمجھ سکے اور ان کی اچھے طور پر دیکھ بھال کر سکے۔

برطانیہ میں پچھلے کئی برسوں سے ڈیمنشیا مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کی دیکھ بھال اور مزید امداد کے لیے کئی چیریٹی مہم چلا رہی ہیں۔ جس کے لیے چھوٹے بڑے پیمانے پر لوگ فنڈ اکھٹا کرتے ہیں اور حکومت بھی ڈیمنشیا کے لیے تعاون دیتی ہے جس سے کئی پراجیکٹ بھی چلائے جاتے ہیں۔ جن میں ڈے سینٹر، ڈیمنشیا کئیر ہوم، رشتہ داروں سے بات چیت کے لیے فون سروس وغیرہ کافی اہم ہیں۔ ڈیمنشیا ایک عالمی عارضہ ہے لیکن یہ اکثر زیادہ تر دولت مند ممالک میں دیکھا جاتا ہے، جہاں لوگوں کی عمر کافی ہوجاتی ہے یا لوگ زیا دہ دیر تک  زندہ رہتے ہیں۔

 الزائمر سوسائٹی کی اطلاع کے مطابق آج کل برطانیہ میں لگ بھگ 850000سے زیادہ افراد ڈیمنشیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے تقریباً 42000ایسے کم عمر لوگ ہیں جن کی عمر 65سال سے کم ہے۔ جیسے جیسے کسی شخص کی عمر بڑھتی جاتی ہے، اسی طرح ان میں ڈیمنشیا پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2025تک برطانیہ میں ڈیمنشیا کے شکار افراد کی تعداد 10لاکھ سے زیادہ ہوجائے گی۔ تاہم تشخیص کی شرحیں بہتر ہورہی ہے لیکن بہت سارے لوگ جنہیں ڈیمنشیا ہے اور ان کی اب بھی تشخیص نہیں ہوپاتی ہے۔

برطانیہ کی معروف براڈ کاسٹر فیونا فلپس نے اپنے ماں اور باپ کی ڈیمنشیا کی تشخیص کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ اُن دنوں مجھے اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کے لئے کئی فیصلے ایسے لینے پڑے جس نے میری زندگی کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا ہے۔ فیونا فلپس ایک عرصے تک برطانیہ میں ٹیلی ویژن کی معروف براڈ کاسٹر تھیں اور انہوں نے کئی برسوں تک آئی ٹی وی پر صبح کے پروگرام کو پیش کیا تھا۔ فیونا فلپس نے 1997سے 2008 تک جی ایم ٹی وی پر صبح کا پروگرام پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بی بی سی پر ڈیمنشیا کے بارے میں کئی پروگرام پیش کئے اور لوگوں میں اس کی جانکاری بڑھائی۔ اب وہ الزائمر سوسائٹی کی سفیر ہیں۔

فیونا فلپس کہتی ہیں کہ وہ اُن دنوں کو کبھی نہیں بھلاسکیں گی جب انہوں نے اپنی ماں کو کیر ہوم میں داخل کرایا تھا۔ اس وقت اُن کی ماں کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی او ر وہ کیر ہوم میں سب سے کم عمر بھی تھیں۔ اس وقت ان کی ماں کو الزائمر مرض ابتدائی مرحلے میں تھا۔ فیونا کہتی ہیں کہ میں اب رات کو اُٹھ کر اس بات پر شرمندہ ہوتی ہوں کہ کیوں میں نے اپنی ماں کو کیر ہوم میں داخل کرایا تھا۔ فیونا اپنی ماں کی اس بات کو سوچ کراداس ہو جاتی ہیں جب انہوں نے فیونا سے یہ التجا کی تھی کہ ’میں تمہاری ماں ہوں‘۔فیونا کہتی ہیں کہ میرے والد نے کہا تھا کہ میں تمہاری ماں کی دیکھ بھال نہیں کر پاؤں گااور مجھے اپنے والد کی اس بات سے بہت رنج ہؤا تھا لیکن اس وقت ہم لوگوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ میرے والد بھی الزائمر مرض کے ابتدائی مرحلے سے گزر رہے تھے جبکہ میرے والد اس بات سے غافل تھے کہ ان کو کیا ہونے والا ہے۔

فیونا اس بات کا بھی اعتراف کرتی ہیں کہ میری ماں کی تین اولاد تھیں اور جو دیکھ بھال ہماری ماں نے ہماری کی، اس کے بر عکس ہم تینوں بھائی بہن اپنی ماں کی دیکھ بھال کرنے میں ناکام رہے۔ اور یہی بات مجھے پریشان کرتی ہے۔  مجھے علم تھا کہ میری ماں کی دیکھ بھال کی ضرورت کچھ گھنٹوں کے لئے نہیں بلکہ انہیں چوبیس گھنٹہ اور ساتوں دن کی ضرورت تھی جو کہ میرے لئے ممکن نہیں تھا کیونکہ مجھے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی تھی اور ساتھ ہی میری ٹیلی ویژن کی نوکری بھی میرے لئے ضروری تھی۔  فیونا کہتی ہیں کہ ایک دن جب وہ اپنے والد سے ملنے ان کے گھر پہنچی تو گھر میں عجیب و غریب ماحول تھا۔ برتن بنا دھوئے بیسن میں پڑے ہوئے تھے۔ قالین کافی گندا تھا اور پورا گھر بے ترتیب تھا۔ ایسا لگا کہ اس گھر میں انسان نہیں رہتے۔ فیونا کو یہ علم تھا کہ اس کے والد کو بھی الزائمر مرض ہورہا ہے لیکن اتنی تیزی سے یہ مرض اپنا اثر دکھائے گا اس کا علم نہیں تھا۔ فیونا اس کے بعد اپنے والد کو اپنے قریب لا کر ایک مکان میں رکھا تھا جہاں ان کو دیکھ بھال کرنے کے لئے کیر ورکر گھر پر آتے تھے۔ بد قسمتی سے چار سال بعد فیونا کے والد کا انتقال ہوگیا۔

برطانیہ میں 433000 سے زیادہ لوگ کیر ہوم (جہاں لوگ مزید دیکھ بھال کے لئے رہتے ہیں) میں رہتے ہیں۔ ان کیر ہوم میں رہنے والے 80%فی صد لوگ  الزائمر یا ڈیمنشیا مرض کے شکار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہزاروں لوگوں کو اپنے رشتہ داروں کے لئے ایک بہت ہی مشکل فیصلہ یا قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ایک مطالعہ کے مطابق اپنے والدین اور رشتہ داروں کے لئے کیر ہوم یا ان کی دیکھ بھال کا انتظام کرنا ان کی زندگی کا سب سے مشکل  فیصلہ ہوتا ہے جو کہ ایک نئے مکان کو خریدنے یا پھر طلاق کے طریقہ کار سے گزرنے سے بھی زیادہ ذہنی دباؤ کا باعث ہوتا ہے۔

 میں نے ڈیمنشیا مریضوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں ان کی حالت کو دیکھ کر نہ صرف دُکھی ہو جا تا ہوں بلکہ میری آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔ تمام سہولیت اور آرام پہنچانے کے باوجود ڈیمنشیا مریض کی حالت سدھرنے کی بجائے بگڑتی چلی جاتی ہے۔ اس حالت میں مریضوں  کا رشتہ دنیا سے منقطع ہو جاتا ہے۔ وہ ان حالات میں نہ صرف بے بس ہوتے ہیں بلکہ لاچار بھی ہوتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہم سبھی کو اس مرض سے محفو ظ رکھیں اور جو لوگ اس مرض کے شکار ہیں ان کے رشتہ داروں کو  ایسے مریض کی دیکھ بھال کرنے کی ہمت، قوت اور صبر عطاکرے۔ آمین۔

Leave a Reply