You are currently viewing !جمہوریت کی عصمت دری

!جمہوریت کی عصمت دری

سوموار 5اگست کو ہندوستانی پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان سے پوری دنیا سکتے میں آ گئی۔بات ہی کچھ ایسی تھی جس سے سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ جمہوریت لوگوں کے لئے ہے یا منتری کے لئے؟

 لیکن جو کچھ ہوا اس کے بارے میں سوچ کر اب بھی دماغ حیران و پریشاں ہے۔ کیا ضرورت تھی آرٹیکل 370کو ختم کر نے کی؟ اس سے کن لوگوں کو فائدہ  پہنچے گا۔ کشمیری عوام تو پچھلے تیس برسوں سے جو اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں کیا آرٹیکل 370 ختم ہونے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں گے؟

نہیں جناب نہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہورہا کہ ہندوستانی پارلیمنٹ ہندو قوم پرستوں کی جاگیر بن گیا ہے جہاں وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے جو چاہے کریں گے۔ اپوزیشن تو ویسے ہی کمزور اور بے بس ہے۔ ان سے تو آپ امید ہی نہ رکھیں۔ رہے بچے کھچے چند ممبر پارلیمنٹ تو وہ جیسے ہی ایسے مسائل پر کچھ بولیں گے تو ان پر ملک سے غداری کا لیبل لگ جائے گا۔ عجیب صورتِ حال بن گئی ہے۔

ویسے وزیر داخلہ کے رویے سے مجھے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ آرٹیکل 370کو ختم کرنے کا اعلان ہونے والا ہے۔یہ بات ہم نے ایک صاحب سے جمعہ 2اگست کی ملاقات میں کہی بھی تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہندوستان کا کشمیر میں فوج بھیجنے کا کیا مطلب ہے۔ میں نے برجستہ کہا ہندوستانی حکومت آرٹیکل 370ختم کرنے والی ہے۔ لیکن مجھے اس بات کی خبر نہیں تھی کہ سوموار کو ہی اس کا اعلان ہوجائے گا۔  افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے اپنے ہی شہری کو کو گھروں میں بند کردیا اور تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈر کو بھی نظر بند کردیا۔ انٹر نیٹ کو معطل کر دیا گیا اور مزید دس ہزار فوجی تعینات کر دئیے گئے۔ اب میں اسے جمہوری نظام کی ایک عمدہ مثال بتاؤں یا ایمرجنسی کی ایک مثال جس میں ایک وزیر یا لیڈر اعلان کرتا ہے اور کارروائی ہو جاتی ہے۔

معاف کیجئے گا اگر اسے جمہوریت کہتے ہیں تو میں ایسی جمہوریت کو سرے سے ماننے سے انکار کرتا ہوں۔ جس کی آڑ میں وزیر داخلہ امیت شاہ اپنے من کے  مطابق ایک حکم جاری کر کے اپنی پارٹی کے ایجنڈے کو پورا کر رہے ہیں۔ امیت شاہ نے ایسا کر کے جمہوریت کی دھجیاں اڑا دی ہے۔ جس سے عالمی برادری بھی اپنا سر کھجا رہی ہے۔جو عالمی برادری ہندوستانی جمہوریت کی مثالیں دے دے کر دنیا میں پارلیمانی نظام قائم کرنے کی تلقین کرتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے۔ جس میں ایک وزیر بنا کسی رائے مشورے کے آئینی  آرٹیکل کو رد کرنے کا اعلان کرتا ہے۔میں اسے جمہوریت کے سینے پر کھلم کھلا وار سمجھتا ہوں۔

کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے اس سے ہم سب کو انکار نہیں ہے۔ لیکن صرف حصہ مان کر کشمیریوں کے ساتھ نازیبا سلوک کرنا کہاں تک درست ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد پاکستان نے کشمیر کے لئے کئی جنگیں لڑیں اور ہر بار پاکستان کو  ناکامی ہوئی۔ لیکن پچھلے تیس برسوں سے کشمیر کے لوگوں میں ہندوستان کے سوتیلے پن سے پریشانیاں کافی بڑھ گئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آئے دن کشمیر کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔ دیکھتے دیکھتے پورا کشمیر فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا۔کشمیر میں کئی جماعتیں بھی قائم ہوگئیں۔ ایک جماعت کشمیر کی آزادی کی مانگ کرنے لگی تو دوسری کشمیر کو پاکستان سے جوڑنے  کی بات کرتی ہے۔ اور ایک جماعت ہندوستانی آئین پر بھروسہ کرکے ہندوستان کے ساتھ رہنے پر اپنی حکومت بنا کر لوگوں میں امن و امن کا پیغام دیتی ہے۔ لیکن ایسی کھچڑی پکی کہ سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ کون سی جماعت کا کشمیری لوگوں پر کتنا اثر و رسوخ ہے۔

1989میں پہلی بار کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کا تعلیمی ٹور میری سر پرستی میں  25طلبا اور اساتذہ کے سا تھ کشمیر کے دورے کے لئے گیا تھا۔ کلکتہ سے جموں 1981 کیلو میٹر کی دوری کو ٹرین نے لگ بھگ 44گھنٹے کے سفر کے بعد پورا کیا تھا۔ پھر جموں سے بس کے ذریعہ لگ بھگ 8گھنٹے کے سفر کے بعد ہم سری نگر پہنچے تھے۔سچ پوچھیے تو کشمیر پہنچناآسان نہ تھا لیکن دل میں جذبہ،اعتماد اور کشمیر کی خوبصورتی نے ہمارے لمبے سفر کی تھکاوٹ نہ  صرف بھلا دیا بلکہ کشمیر کی حسین وادیوں اور لوگوں سے ملنے کے بعد اس بات کا خیال آرہا تھا کہ اگر زمیں پر  جنت ہے تو وہ کشمیر ہے۔لیکن اس حسین جنت میں اس وقت فوج کی جگہ جگہ موجودگی سے اس بات کا بھی ملال ہوا کہ کشمیر محفوظ نہیں ہے۔ مجھے آج بھی ایک کشمیری ماں کی بات یاد ہے جس سے میری ملاقات سری نگر سے جموں واپسی میں ہوئی تھی۔ میں نے اس کشمیری ماں سے سوال کیا کہ اے ماں کشمیر کے حالات ایسے کیوں ہورہے ہیں۔ کیوں لوگ امن سے رہنا نہیں چاہتے؟ کشمیری ماں نے مجھے دیکھا اور کہا کہ ’میرے دو بیٹے ہیں اور میری خواہش ہے کہ میرا ایک بیٹا کشمیر کے لئے شہید ہوجائے‘۔ میں اس کشمیری ماں کی بات کو آج تک نہ بھلا سکا اور اس بات کو اس وقت محسوس کیا کہ کشمیر بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے۔

آج کشمیر کے سفر کو 30سال بیت چکے ہیں لیکن اس کشمیری ماں کی بات کتنی سچی ہے اس کا اندازہ شاید ہندوستان کے وزیر داخلہ یا سیاستدان نہیں لگا پا رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ آرٹیکل 370کو باطل کردینے سے حل نہیں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کشمیر کا مسئلہ نہایت سنگین اور بے قابو ہے۔ جس کے لئے آرٹیکل کو ہٹانا محض ایک مذاق لگتا ہے۔آرٹیکل 370نے کم سے کم اس بات کا حق تو کشمیریوں کو دے رکھا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ اسی آرٹیکل کے سہارے جڑے رہنے کا دعویٰ تو کر رہے تھے۔ لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ سارے کشمیری آزادی کی مانگ نہ شروع کر دیں۔پھر کتنی ہندوستانی فوجوں سے کشمیریوں کو ڈرا دھمکا کر ہندوستان کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔

مجھے امیت شاہ کی اس چال سے ہندوستان کی جمہوریت کو شدید خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ یہ کیسے سیاستدان ہیں ایک وزیر اعظم رات کو نوٹ بندی کا اعلان کرتا ہے تو دوسرا وزیر داخلہ پارلیمنٹ میں اچانک آرٹیکل کو ختم کرتا ہے۔ دیش کی پارلیمنٹ کو گاؤں کی پنچایت بنا دیا گیا ہے۔ جہاں کسی بات پر بحث و مباحثہ کو ضروری نا سمجھ کر سیدھے سیدھے فیصلہ  لیا جارہا ہے۔ جس سے ملکی کی سا  لمیت تو خطرے میں پڑ رہی ہے اور اس کے ساتھ پارلیمنٹ کے وقار کو بھی  دھچکا پہنچا یا جا رہا ہے۔

مجھے اس بات سے بحث نہیں ہے کہ آرٹیکل 370کیوں معطل کر دیا گیا ہے بلکہ مجھے اس بات سے رنجش ہے کہ اتنے بڑے فیصلے کو لینے سے پہلے کشمیر کے لیڈر اور وہاں کے رہنے والوں سے کیوں نہیں مشاورت کی گئی۔ اس میں حرج ہی کیا تھا۔ کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ کشمیریوں کی بھی رائے جانی جاتی اور پھر پارلیمنٹ میں اس پر بحث کرا کر جمہور ی طور پر فیصلہ لیا جاتا۔ لیکن وزیر داخلہ نے ایسا نہ کر کے عالمی برادری کے سامنے ہندوستان کے وقار کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔

افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ سوشل میڈیا اور ہندوستانی نیوز چینل پر اس خبر کو ہندوستان کی جیت کی صورت میں پیش کیا جارہا تھا جو کہ ایک نہایت شرمناک بات ہے۔ گویا کہ پورا ماحول ایسا بنا دیا گیا جیسے کشمیر اب ہندوستان کا حصّہ بنا ہے۔ لیکن ایسا سوچنا شاید ایک بہت بڑی بھول ہے۔ کیونکہ اس سے تمام کشمیریوں میں آزادی کی تحریک اور زور پکڑے گی جس کے ذمہ دار موجودہ حکومت ہوگی۔

میں ہندستانی وزیر داخلہ کے اس احمقانہ اور جارحانہ رویے سے کافی افسردہ اور مایوس ہوں۔مجھے اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کشمیر کا مسئلہ کافی گمبھیرہو جائے گا جس کو سلجھا نا شاید ناممکن ہو۔ میں ہندوستان کی مذہبی اکثریت کے ماننے والوں سے گزارش کروں گا کہ وہ موجودہ حکومت کے ہندو قوم پرستی کے جھانسے میں نہ آئے جو ملک کو دھیرے دھیرے ٹکڑے کرنے کے لئے راہ ہموار کر رہا ہے۔

Leave a Reply