You are currently viewing کلکتہ سفر کی مزید باتیں

کلکتہ سفر کی مزید باتیں

پچھلے کالم میں ہم نے مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے سہ روزہ ساحر کی ساحری کے جشن کی روداد کو بیان کیاتھا اور مختصراًپروگرام کے حوالے سے باتیں کی تھیں۔ اس کے علاوہ کلکتہ میں قیام کے دوران مزید پروگرام میں شرکت ہوئی اور کئی لوگوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔آج اسی حوالے سے ہم اپنے تاثرات قارئین تک پہنچا رہے ہیں۔

ساحر کی ساحری کا جشن جیسے ہی ختم ہوا زیادہ تر مہمانان اپنی اپنی منزل کی طرف نکل پڑے۔ لیکن مجھے کلکتے میں مزید دو ہفتے قیام کرنا پڑا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک اہم وجہ صوفی جمیل اختر لیٹریری سوسائٹی کولکتا کا سالانہ ۶۱ویں صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ کی تقریب تھی۔ جس میں اس بار معروف ادیب، شاعر پروفیسر شہپر رسول کو ایوارڈ دینا تھا۔اس کے علاوہ الحمد ایجوکیشنل کی جانب سے تین کتابوں کا اجرا بھی ہونا تھا۔ نیز کئی لوگوں سے ملنا اورکئی تقریبات میں شامل ہونا تھا۔

جشنِ ساحر کے بعد ہم ہوٹل سے اپنے فلیٹ میں منتقل ہوگئے۔ہمارے ساتھ کویت سے تشریف لائے صحافی جناب سلطان کندری بھی آگئے۔ سلطان کندری ایک کویتی ہوتے ہوئے بھی اردو زبان سے محبت کرتے ہیں اور یہ ان کا کلکتے کا دوسرا سفر تھا۔وہ مزاجاً ملنسار اور پر مزاح طبیعت کے مالک ہیں اور بلا جھجھک ہر موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ غیر ملکی ہونے کے باوجود اردو فراٹے سے بولتے ہیں۔ایک دن کے قیام کے بعد وہ بھی شہر نشاط سے پزیرائی بٹور کر کویت لوٹ گئے۔

میرے قیام کے دوران لوگوں کے آنے جانے اور ملنے ملانے کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور لوگوں سے حالاتِ حاضرہ کے علاوہ سیاسی، سماجی اور اردو زبان کے حوالے سے کئی اہم باتوں پر تبادلہ خیال ہوا۔خاص طور سے اردو اسکولوں کی خستہ حالی، اردو اسکولوں میں بچوں کے داخلے کی کمی، مفاد پرستی، حکومت کی پالیسی،جیسے اہم موضوع پرکھل کر باتیں ہوئیں اور جس سے میری تشویش میں اضافہ ہوتا رہا۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ زیادہ تر لوگ تنقید تو کر رہے تھے لیکن موجودہ صورتِ حال کوبہتر کرنے کے لئے کوئی لا ئحہ عمل ان کے پاس نہیں تھا۔ان کی باتوں سے یہ بھی منکشف ہوا کہ حکومت، اکاڈمی اور ان کے درمیان ایک فاصلہ ہے، تلخی ہے جسے پاٹنے اور دور کرنے کی ضرورت ہے۔ گرچہ یہ کام دشوار ہے لیکن اہلِ علم و دانش اگر تنقید سے ابھر کر تعمیری پہلو پر سنجیدگی سے غور کریں تو بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔

بہرحال ملاقات، گفتگو اور تقریبات وقت بر ق رفتاری سے گزر گیا اور 23دسمبر آگیا۔یعنی سنیچر 23دسمبر کو مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے مولانا آزاد ہال میں شام چھ بجے ۶۱ واں صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ شہپر رسول صاحب کو دیا جانا تھا اس لئے میں شہپر رسول کے ہمراہ پپو کی پیلی ٹیکسی میں بیٹھ کر پارک اسٹریٹ ہوتے ہوئے مغربی بنگال اکاڈمی کی طرف چل پڑ۱۔ لیکن ٹیکسی جیسے ہی پارک اسٹریٹ کے علاقے میں داخل ہوئی ہمیں ٹریفک کی صورتِ حال دیکھ کر تشویش لاحق ہوگئی۔میں اور شہپر رسول صاحب ٹیکسی میں بے یارو مددگار خاموشی سے گاڑیوں کو رینگتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ہم کبھی شہپر رسول صاحب کو دیکھتے تو کبھی ہاتھ پر بندھی گھڑی کو جو گاڑی کی رفتار سے زیادہ تیز چل رہی تھی۔خیر کسی طرح پپو نے اپنی ٹیکسی کو گھما پھرا کر رفیع احمد قدوائی روڈپر واقع مغربی بنگال اکاڈمی کی عمارت کے سامنے ہمیں پہنچا دیا اور ہماری جان میں جان آئی۔

ہم شہپر رسول کے ہمراہ لفٹ پر سوار ہو کر تیسری منزل پر پہنچے جہاں ہال تھا۔ ہال میں داخل ہوا تو دیکھا ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا اورتما م لوگ ہمارا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔الحمداللہ ۶۱واں صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ آخر کار پروفیسر شہپر رسول کو پیش کر دیا گیا۔اس شاندار، یادگار اور تاریخی تقریب میں بطورِ مہمان خصوصی مدنا پور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جناب تنویر افضل، مسلم انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی سیکریٹری جناب نثار احمد اور مدرسہ بورڈ کے ممبر قاری ڈاکٹر صباح اسماعیل صاحب نے شرکت کی۔ اس پروگرام کی نظامت کا فریضہ معروف ادیب اور شاعر اور صوفی جمیل اختر لیٹریری سوسائٹی کے سیکریٹری پرویز اختر نے بحسن خوبی انجام دیا۔

23 دسمبر کے بعد 24دسمبر بھی آگیا، آج پروفیسر شہپر رسول کے ہاتھوں میری ترتیب شدہ کتاب” اردو کا تیسرا مرکز برطانیہ”  میرے مضامین پرایمسٹرڈیم میں مقیم محمد حسن کی ترتیب شدہ کتاب “شب و روز تماشہ” اور میرے مرحوم بھائی شبیر اختر عرف ہلچل بھارتی کا مزاحیہ شعری مجموعہ” پاپا نے کہا دختر سے”  کا اجرا ہوا۔ اس تقریب کی خاص بات میری اور محمد حسن کی کتاب کی رونمائی کے علاوہ میرے بھائی کی کتاب کی بھی رونمائی تھی جس سے میری جذباتی وابستگی تھی۔الحمداللہ میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں کامیاب رہا۔

ان تقریبات کے علاوہ ایک روز میں ہوڑہ کے سر سید احمدہائی اسکول کی دعوت پر اسکول کی ایک چھوٹی سی تقریب میں بھی شامل ہوا۔ اس تقریب میں اسکول کی کمیٹی نے میرا والہانہ استقبال کیا اور مجھے تعلیم کے حوالے سے گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا۔یہ جان کر دلی خوشی ہوئی کہ اسکول کی کمیٹی جی جان سے اسکول کی ترقی کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔اگلی شام معروف ادیب و شاعر حلیم صابر اور رشڑا کے فیروز انجم بھی ہم سے ملنے آئے اور ساتھ میں محبتوں کی سوغات بھی لائے۔ انہوں نے ادارے کی خدمات کو سراہا اور دعاؤں سے نوازا۔اسی دوران حلیم صابر صاحب نے صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ یافتگان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایوارڈ یافتگان سے منسلک ایک خوبصورت نظم سنائی جسے لوگوں نے کافی سراہا۔

مصروفیات کی شب و روز کے دوران اس تلخ حقیقت سے بھی آشنا ہوا کہ زندگی نے جو بھی سکھایا اور کتابوں نے بھی رہنمائی کی لیکن انسانی رویے ہمیشہ ایک نیا سبق دے جاتے ہیں۔ شاید مشاہدہ اور تجربہ انہی اسباب کی بنا پر مزید پختہ ہوتے ہیں۔اور یہ کسی نصابی کتاب یا تحریر سے حاصل نہیں ہوتا۔اس سفر میں ایک سبق مجھے یہ بھی ملا کہ میرے وہ ساتھی جو میری آمد پہ پلکے بچھاتے تھے اب نہ جانے کیوں انا کی زنجیر میں بندھ گئے تھے۔ممکن ہو میرا مشاہدہ غلط ہو لیکن حالات گزیدہ شخص ہی اپنی تکلیف کا اظہار کرتا ہے۔

31دسمبر کو لوگ نئے سال کا جشن منا نے کی تیاری کر رہے تھے اورہر طرف روشنی کی برسات ہورہی تھی۔آخر کار وہ دن بھی آگیا جب مجھے کلکتے کو خدا حافظ کہتے ہوئے لندن آنا پڑا اور میں کھٹی میٹھی یادوں کے ساتھ دل ہی دل میں اپنا ہی شعر دہراتا ہوا چل پڑاکہ:

ہے  شہر یہ  عجیب کوئی  پوچھتا  نہیں

مہمان ہوں میں، یہ بھی کوئی سوچتا نہیں

Leave a Reply