You are currently viewing مودی کی ہار یا راہل کی جیت

مودی کی ہار یا راہل کی جیت

جمعہ 4اگست کو ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ایک خاص جیت کی خوشی منائی گئی جس کی شاید لوگوں کو امید بھی نہ تھی۔ہندوستان کی کانگریس پارٹی نے ایک پریس کانفرنس کر کے پریس والوں کی موجودگی میں اعلان کیا کہ راہل گاندھی کی ہتک عزت کے مقدمے میں سزا کو سپریم کورٹ نے معطل کر دیا۔

اس پریس کانفرنس میں راہل گاندھی بھی موجود تھے جنہوں نے مختصر طور پر اسے سچ کی جیت بتایا اور لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ اطلاعات کے مطابق ہندوستان کی سپریم کورٹ نے جمعہ4 اگست کو راہل گاندھی کی ہتک عزت کے مقدمے میں سزا کو معطل کردیا، جس سے اپوزیشن کانگریس پارٹی کے رہنما کو پارلیمنٹ میں واپس آنے اور اگلے سال ہونے والے قومی انتخابات میں حصہ لینے کے قابل بنا یا۔تاہم راہل گاندھی نے اس موقعہ پر اپنے مختصر بیان سے سادگی اور ایمانداری کا بھرپور مظاہرہ کیا جو کہ قابلِ ستائش ہے۔

راہل گاندھی کو مارچ میں مغربی ریاست گجرات میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک قانون ساز کے ذریعہ لائے گئے ایک کیس میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ جس میں انہوں نے 2019میں وزیراعظم نریندر مودی اور دوسرے لوگوں کے لقب سے مودی کی توہین کرنے والے تبصرے کیے تھے۔  ہندوستان کے ایک اہم اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو ہتک عزت کے ایک مقدمے میں دو سال قید کی سزا سنائے جانے کے ایک دن بعدانہیں پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔اس کے بعد ان سے بنگلہ بھی خالی کروا دیا گیا۔اس واقعہ سے بی جے پی کے خیمے میں جشن کا ماحول گرم ہوگیا۔ پریس کانفرنس میں ان کے لیڈران مسکرا مسکرا کر راہل گاندھی کا مذاق اڑا رہے تھے۔ظاہر سی بات ہے کہ ان احمقوں کو اس بات کا یقین تھا کہ اب راہل گاندھی سیاست سے بے دخل ہوکر ذلیل و خوار ہو کر مارے مارے پھرے گے۔ لیکن کہتے ہیں جیت تو ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ اسی لئے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بی جے پی نے تو کوئی پریس کانفرنس نہیں کی بلکہ وہ تو سر جوڑ کر کچھ اور پلان بنا رہے ہوں گے یا تو یوگا کر رہے ہوں گے۔

تاہم اس سے قبل بھی متعدد ممبران پارلیمنٹ جنہوں نے مسجد کو شہید کرنے سے لے کر معصوم عورتوں کی عصمت دری، گھوٹالہ اور نہ جانے کیسے کیسے جرم کئے ہیں،جن میں ملوث بیشترسیاستدانوں کو نہ تو کوئی سزا ملی اور نہ ہی انہیں پارلیمنٹ سے نکالا گیا۔ پھر راہل گاندھی نے آخر کون سا جرم کردیا کہ ان کے خلاف “چٹ منگنی پٹ بیاہ “والی بات کی طرح کارروائی کی گئی۔راہل گاندھی کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ “کیوں تمام چوروں کے سر نام، خاندانی نام یا عرفیت مودی ہے”۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ راہل گاندھی کا اشارہ دراصل ایک مفرور ڈائمنڈ ٹائکون نیرو مودی اور للت مودی کی طرف تھا جو کہ انڈین پریمئیر لیگ کے سابق سربراہ تھے جن پر ملک کے کرکٹ بورڈ نے تاحیات پابندی عائد کر رکھی ہے۔اب ظاہر سی بات ہے کہ راہل گاندھی کی یہ بات تو ہندوستانی وزیراعظم مودی کے دل پر سیدھے سیدھے لگی اور پھر کیا تھا ان کے بھکتوں نے سیدھے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور شایدجج حضرات کو رام کی دہائی دلاتے ہوئے کہا ہوگا کہ بس آپ فیصلہ دے ڈالیں تاکہ نہ رہے گی بانس نہ بجے گی بانسری۔

 جب سے راہل گاندھی برطانیہ کا دورہ کر کے ہندوستان لوٹے ہیں تب سے پارلیمنٹ کے باہر اور اندر ان کے برطانیہ دورہ کو لے کر ہنگامہ ہی ہنگامہ چل رہا ہے۔ٹیلی ویژن سے لے کر سوشل میڈیا پر راہل گاندھی کے برطانیہ دورے اور ان کی تقاریر سے کہیں ان کی حمایت میں بات ہورہی ہے تو کہیں راہل گاندھی کو ملک کا غدار کہا جارہاہے۔دراصل راہل گاندھی نے بات ہی ایسی کی جس سے حکمراں جماعت کی نیند اُڑ گئی۔کچھ ہفتے قبل راہل گاندھی نے برطانیہ دورے کے دوران پیلس آف ویسٹ منسٹر کے گرینڈ کمیٹی روم میں انڈوبرٹش آل پارٹی پارلیمانی گروپ اور کیمبرج یونیورسٹی طلبا اور اسکالرزکے سامنے ہندوستانی جمہوریت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اور بی جے پی پارٹی ہندوستان کودنیا میں کیسے ترقی کرنی چاہئے،اس کے دو مختلف رخ پیش کئے ہیں۔جب ہم بھارت جوڑو واک کر رہے تھے تو ہم نے لوگوں سے بنیادی طور پر چار چیزیں،بے روزگاری، قیمتوں میں اضافہ، عدم مساوات اور خواتین کے خلاف تشدد جیسی بات سنی تھیں۔راہل گاندھی نے مزید کہا کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ موجودہ حکومت ملک کے جمہوری ڈھانچے کو ختم کر رہی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ بی جے پی کی دو میعاد کے بعد ہندوستانی جمہوریت کی رفتار مزید غیر یقینی ہے، کیونکہ اہم جمہوری اداروں نے خود کو کمزور ثابت کیا ہے۔ مخالفین اور تنقیدی صحافیوں کو ہراساں کیا گیا ہے، ان پر مقدمہ چلا گیا ہے، ٹیکس کی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی گئی ہیں اور تنقیدی آوازوں کو محدود کرتے ہوئے انہیں نگرانی میں رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ انتخابی مہم کے مالیاتی قوانین زیادہ مبہم ہو گئے ہیں۔ جس سے کسی افراد کے لیے لامحدود گمنام عطیات دینا آسان ہوگیا ہے جس سے انتخابات کی سالمیت  کو نقصان پہنچا ہے۔ لیکن سب سے فکر انگیز بات یہ ہے کہ مذہبی تقسم اور ناراضی شدت اختیار کر گئی ہے، جو کہ مذہبی آزادی بے آئینی حق کو چیلینج کر رہی ہے اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

جمہوریت ایک ایسا طریقہئ کار ہے جس میں ہر انسان کو اپنے طور پر ملک کی حکمرانی کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔جمہوریت کے ذریعہ عام انسان حکومت کرنے کا حق دار ہوتا ہے۔ اس طرز حکمرانی میں عوامی نمائندے تمام فیصلے کرتے ہیں۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں‘۔ جبکہ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا جمہوریت کے بارے میں قول ہے کہ’عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لئے‘۔میں جمہوریت کو ایک مضبوط اور عام آدمی کے بنیادی حق اور آزادنہ طور پر جینے کا ایک عمدہ ذریعہ مانتا ہوں۔ تاہم آج کل جمہوریت کے اس طرزِ حکمرانی کو جھوٹ، غبن، اور ذاتی مفاد کے مدّ نظر تار تار کیا جارہا ہے۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ بدقسمتی سے جمہوریت مجرموں کو پناہ دے رہی ہے۔جو کہ ایک تشویش اور افسوس ناک بات ہے۔

وہیں “فریڈم آف اسپِچ “ایک ایسی پاور فل بات ہے جس سے دنیا بھر کے لوگوں میں اتفاق بھی ہے اور اختلاف بھی ہے۔ چاہے بندہ مغرب کا ہو یا مشرق کا ہو۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ فریڈم آف اسپِچ کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد کافی بڑھا ہے تو وہیں آئے دن اس پر ایک اوربحث بھی چھڑی ہوئی ہے۔کیونکہ فریڈم آف اسپِچ کی کوئی  حدود نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے آئے دن کسی نہ کسی فرد کے خلاف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں یا کبھی کبھی ان پرجان لیوا حملہ بھی ہوتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تحت آزادی اظہار یہ حق ہے کہ آپ جو چاہیں جس کے بارے میں چاہیں، جب چاہے، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط کہہ سکتے ہیں۔ آزادی اظہار ہر طرح کی معلومات اور خیالات کو تلاش کرنے، حاصل کرنے اور فراہم کرنے کا حق ہے۔ آزادی اظہار اور آزادی اظہار کا حق ہر قسم کے خیالات پر لاگو ہوتا ہے۔ تاہم بعض حالات میں آزادی اظہار اور اظہار رائے پرپابندی لگائی جاسکتی ہے۔

جس تیز رفتاری سے راہل گاندھی کی سزا اور پارلیمنٹ سے نااہل قرار دیا گیا،کہیں نہ کہیں محسوس ہوا کہ یہ پورا معاملہ” چٹ منگنی پٹ بیاہ” کا ہے۔ یعنی کے اسکرپٹ لکھا ہوا تھا او ر عدالت سے لے کرپارلیمنٹ نے اپنے اپنے طور پر اپنا کام انجام دے دئیے۔تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ جیت تو ہمیشہ سچ کی ہی ہوتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی اور ان کے حمایتی کون سی نئی چال چل کر لوگوں کا ذہن روز مرہ کی پریشانیوں، بے روزگاری، مہنگائی فرقہ پرستی وغیرہ سے ہٹاکر اپنا الو سیدھا کریں گے۔

Leave a Reply