You are currently viewing مسقط عمان کا ایک یادگار مشاعرہ

مسقط عمان کا ایک یادگار مشاعرہ

چند مہینے قبل مسقط، عمان سے بھائی طفیل احمد کا واٹس اپ کے ذریعہ ایک پیغام آیا جس میں انہوں نے انڈین سوشل کلب عمان کی اردو ونگ کی جانب سے سالانہ عالمی مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی۔میں نے بھی خوشی خوشی طفیل احمد کی دعوت کو قبول کر لی۔

تاہم ہم نے یہ بھی طفیل صاحب کو بتایا کہ اگر چھٹی وغیرہ منظور ہوگئی تبھی میں آپ کے مشاعرے میں شرکت کر پاؤں گا۔ طفیل احمد سے میری ملاقات پچھلے پانچ برس سے سوشل میڈیا کے ذریعہ ہوئی تھی۔ طفیل صاحب بذات خود ایک اچھے شاعرہیں اور فلاح و بہبود کے کاموں میں کافی سر گرم رہتے ہیں۔ دراصل طفیل احمد صاحب نے 2019میں بھی مشاعرے کی دعوت دی تھی۔ لیکن سچ پوچھئے تو میں نہ تو پروفیشنل شاعر ہوں اور نہ ہی مجھے مشاعرے کے ذریعہ روزی کمانا ہے۔ اسی وجہ سے 2019کے مشاعرے میں میری شرکت نہ ہوسکی۔

دھیرے دھیرے انڈین سوشل کلب عمان کی جانب سے پروگرام کی تفصیلات وغیرہ موصول ہونے لگی اور ہم نے بھی پر جوش ہو کر اتحاد ائیر لائنز سے ابو ظہبی کے ذریعہ مسقط کی ٹکٹ بُک کرو الی۔ بمشکل دفتر سے چھ روز کی چھٹی بھی حاصل کی۔ بس انتطار تھا تو 4اکتوبر کا جب ہمیں جہاز پر سوار ہو کر مسقط پہنچنا تھا۔4اکتوبر کی صبح چھ بجے میری بیگم نے اپنی گاڑ ی سے قریب ہی فاؤنٹن بس اسٹاپ پر چھوڑ دیا جہاں سے ہمیں ہیتھرو ائیر پورٹ کے لئے بس پر سوار ہونا تھا۔ یوں تو اکتوبر میں لندن سردی کی لپیٹ میں ہوتا ہے لیکن اس بارموسم گرم تھا اور ٹھنڈ کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔راستے سنسان تھے اور رات کی سیاہی نے اب تک لندن کو اپنی لپیٹ میں  لے رکھا تھا۔انگریزوں کو چھوڑ کر زیادہ تر دیگر نسل کے لوگ بس اسٹاپ پر کام پر جانے کے لئے اپنی اپنی  بس کا انتظار کر رہے تھے۔ جس سے اندازہ ہوا کہ لندن کو تیز رفتار اور ترقی یافتہ شہر بنانے میں دیگر نسلوں کے لوگوں کا رول کتنا اہم ہیں۔

بس پر سوار ہو کر پچاس منٹ میں ہم لندن کے معروف ہیتھروو ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ ہیتھرو ائیر پورٹ حسب ِ معمول لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔مجھے میں دیکھ کر حیرانی نہیں ہوتی کہ جب بھی میں ہیتھرو ائیر پورٹ سے روانہ ہوتا ہوں  تو ائیر پورٹ مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا  ہے، آج بھی وہی منظر تھا۔جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا کہ لندن دنیا کا مقبول ترین شہر کیوں ہے۔یوں تو دبئی انٹرنیشنل دنیا کا مصروف ترین بین الاقوامی ہوائی اڈہ بنا ہوا ہے جبکہ لندن ہیتھرو ائیر پورٹ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے۔

رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے اور مسقط ائیر پورٹ پہنچتے ہی امیگریشن پر ایک لمبی لائن دکھی۔ گاہے بگاہے منتظمین سے ائیر پورٹ لینے آئے بھائی آصف کا پیغام موصول ہورہا تھا اور ان کے پیغام سے ان کی بے چینی کا بھی احساس ہورہا تھا۔مرتا کیا نہ کرتا۔ میں لائن میں بے یارو مددگار کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔خیر ایک سیکورٹی اسٹاف نے میرے ساتھ دس لوگوں کو قطار سے نکال کر پیچھے کی دو میزوں پر لے گیا جہاں ہمارے برٹش پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے مجھے 14 دن کا ویزا جاری کر دیا گیا۔باہر نکلتے ہی بھائی آصف کی شکل پر راحت دکھائی دی اور ہم گاڑی پر سوار ہو کر مسقط کی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے تھوڑی دیر میں ہوٹل پہنچ گئے۔

مسقط کی چالیس ڈگری کی گرمی میں ہمارا جسم دہکنے لگا اور ہم مارے خوف کے ہوٹل کے کمرے میں قید ہوگئے۔جمعہ کے روز مشاعرہ ہونے والا تھا اور منتظمین اپنی پوری طاقت سے مشاعرے کی تیاری میں جڑے ہوئے تھے۔ تاہم مہمانوں کا بھی پورا خیال رکھا گیا۔شام کو ہندوستان سے تشریف لائے سات پروفیشنل شعرا کے ساتھ ہمیں بھی ال بوستان پیلیس ہوٹل لے جایا گیا جہاں مشاعرے کی شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ہندوستانی سفیر امیت نارنگ کی پر مغزاردو تقریر سے مشاعرے کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد مشاعرے کے اہم اسپانسر آفتاب پٹیل جنہیں سفیرِ اردو کہہ کر مخاطب کیا جارہا تھا،مشاعرے کے انعقاد اور اپنی شرکت کا خوش دلی سے اظہار کیا۔مشاعرے کا باقاعدہ آغاز عمان کے تین مقامی شعرا کے کلام سے ہوا اور پھر باری باری تما م شعرا نے اپنے اپنے کلام سنائے۔

مجھے فرحت احساس کی ایک بات اچھی لگی جب انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب لوگ مشاعرہ دیکھنے آتے ہیں،سننے نہیں۔ جس کا علم مجھے مسقط کے مشاعرے سے بھی ہوا۔ جہاں ہندوستان سے آئے شعرا اور شاعرات ہر شعرسنانے کے بعد سامعین سے مخاطب ہو کر ان پر چند ایسے جملے داغتے، جس سے ماحول غیر سنجیدہ ہوجاتا اور سامعین کا ایک طبقہ ہنسنے ہنسانے کے علاوہ سیٹیاں بجانے پر بھی مجبور ہوجاتا۔شعرا سے دوران گفتگو یہ بھی منکشف ہوا کہ اب تو یہ شعرا پیشہ ور ہیں اور مشاعرے میں شرکت کے لئے منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں اور یہی ان کی روزی روٹی بھی ہے۔

مسقط قیام کے دوران ال عمانیہ فائنینشل سروس کے چیف ایکزیٹیو آفیسر آفتاب پٹیل صاحب کی دعوت پر ان کی رہائش گاہ جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ جہاں ان کی بیگم کے علاوہ ڈاکٹر بیٹی کے ساتھ ایک شاندار ڈنر کا انتظام تھا۔ آفتاب صاحب کا تعلق ہندوستان کی ریاست کرناٹک سے ہے اور پچھلی تین دہائی سے عمان میں مقیم ہیں۔ آفتاب صاحب کو اردو زبان سے کافی دلچسپی ہے اور پچھلے پندرہ برس سے اردو ونگ کے مشاعرے کو اسپناسر بھی کر رہے ہیں۔

میری ملاقات نوجوان عمانی شاعر حبیب ندیم سے بھی ہوئی۔ جن کا تعلق ہندوستان کی ریاست مہاراشٹرسے ہے اور پچھلے پندرہ برس سے مسقط میں مقیم ہیں۔ جنہوں نے اپنی کتاب” لفظ لفظ اردو سفر” بطور تحفہ پیش کی۔ ان کے ہمراہ ہم مطرح علاقے جو کے سمندر کنارے واقع ہے، گھومنے پھرنے گئے۔ وہیں ہماری ملاقات ان کے خاندان کے لوگوں سے بھی ہوئی اور ہم نے ایک ترکش ریستورنٹ میں ساتھ ڈنر بھی کیا۔ مختلف لوگوں سے دورانِ گفتگو یہ بھی پتہ چلا کہ انڈین سوشل کلب عمان کی اردو ونگ بچوں میں اردو سکھانے سے لے کر سہ ماہی مشاعرہ، گفتگو، بلڈ ڈونیشن، اور فلاح و بہبود کے کام میں پیش پیش ہے۔ اردو ونگ ایک مثالی ونگ ہے جو انڈین سوشل کلب عمان کے دیگر ونگس سے زیادہ فعال اور متحرک ہے۔ میں جناب طفیل احمد اور ان کی پوری ٹیم کو دلی مبارباد پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ ان تمام لوگوں کو سلامت رکھے۔

خیر سبھی کی طرح مجھے بھی لندن لوٹ آنا پڑا اورمیں انڈین سوشل کلب عمان کی اردو ونگ کی محبتیں اور عزت افزائی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا جنہوں نے میرے جیسے غیر پیشہ ور شاعر کو اس پروگرام میں شامل کر کے میری  حوصلہ افزائی کی۔

Leave a Reply