You are currently viewing تیسری عالمی جنگ کا خطرہ

تیسری عالمی جنگ کا خطرہ

جنگ بڑی ہو یا چھوٹی، میں ہر طرح کی جنگ کا مخالف ہوں۔ کیونکہ جنگ سے کسی بات کا حل نہیں نکلتا بلکہ حملہ کرنے والے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے کچھ پل کے لیے سر خرو بن جاتے ہیں۔

تاہم ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی جنگ کا ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ مثلاً جب کوئی آپ پر خوامخواہ حملہ کرے اور اپنی دفاع کے لیے آپ کے پاس سوائے جنگ کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا ہے۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ہی حالت میں جنگ سے اب تک نقصان ہی اٹھانے پڑے ہیں۔ آسٹریا کے سفر سے قبل جب مجھے روس کی یوکرین پر حملے کی اطلاع ملی تو دل میں عجیب سا خوف ہونے لگا۔کیونکہ میں یورپ کے اس حصے میں جارہا تھا جو یوکرین اور روس سے قریب اور جرمنی کی سرحد کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریا سے ہی پہلی جنگِ عظیم کا آغاز بھی ہوا تھا۔لیکن ان باتوں کے علاوہ یورپ میں اب بھی زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔ سوائے اس کے کہ ٹیلی ویژن پر چوبیس گھنٹے یوکرین پر حملے کی خبر اور پروپگنڈہ سے ذہن بار بار اس بات کو سوچنے پر مجبور ہوجارہا کہ اب تیسری جنگِ عظیم کے ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

 امریکہ اور برطانیہ بار بار اس بات کو دہرا رہے کہ روس کے مخالف جنگ کر کے کچھ حاصل نہیں ہے۔اس کے بر عکس امریکہ اور اس کے اتحادی فی الحال ا قتصادی پابندیاں لگانے مپر زور دے رہے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد کس بھلے مانس کے دل و دماغ میں یہ بات آئے گی کہ چلو ایک بار پھر جنگ میں کود ا جائے۔جیسا کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں ہوا تھا۔  اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پہلی جنگِ عظیم، جسے عظیم جنگ بھی کہا جاتا ہے، 1914ء میں آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کے قتل کے بعد شرع ہوئی۔ اس کے قتل نے پورے یورپ میں ایک جنگ کی شکل اختیار کر لی جو 1918ء تک جاری رہی۔ اس تنازعہ کے دوران جرمنی، آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور سلطنتِ عثمانیہ (مرکزی طاقتیں) نے برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، جاپان متحد ہ کے خلاف جنگ کی۔نئی فوجی ٹیکنالوجی اور خندق جنگ کی ہولناکیوں کی بدولت، پہلی جنگ عظیم نے قتل و غارت اور تباہی  دیکی۔  جب جنگ ختم ہوئی اور اتحادی طاقتوں نے فتح کا دعویٰ کیاتب تک 16ملین سے زیادہ لوگ جس میں فوجی اور عام شہری شامل تھے ہلاک ہوچکے تھے۔

پہلی جنگِ عظیم (1914-18)کے ذریعہ یورپ میں پیدا ہونے والے عدم استحکام نے ایک اور بین الاقوامی تنازعہ کھڑا کر دیا اور دو دہائیوں بعد دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا جو پہلی جنگِ عظیم سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ اقتصادی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم جرمنی میں اقتدار میں آنے کے بعد نازی پارٹی کے رہنما ایڈولف ہٹلر نے قوم کو دوبارہ مسلح کیا اور عالمی تسلط کے اپنے عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے اٹلی اور جاپان کے ساتھ حکمت عملی معاہدوں پر دستخط کیے۔ستمبر 1939میں پولینڈ پر ہٹلر کے حملے نے برطانیہ اور فرانس کو جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ جس سے دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا۔چھ سال چلنے والی اس جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 45سے

60ملین افراد ہلاک ہوئے جن میں 6ملین یہودیوں کو نازی حراستی کیمپوں میں ہٹلر کی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جسے اب بھی ہر سال ہولوکوسٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یوکرین اور روس کے مابین تناؤ پچھلے آٹھ برسوں سے چل رہا ہے۔ ہوائی، زمینی اور سمندری راستے سے رو س نے یوکرین پر تباہ کن حملہ کیا ہے جو کہ 44ملین افراد کی یوروپی جمہوریت ہے۔ اس کی افواج شہر کے مراکز پر بمباری کر رہی ہیں اور دارالحکومت کیف میں دھیرے دھیرے داخل ہورہی ہیں۔ جس سے مہاجرین کے بڑے پیمانے پر اخراج ہورہا ہے۔کئی مہینوں تک صدر ولاسیمیر پوتن نے انکار کیا،کہ وہ اپنے پڑوسی پر حملہ کریں گے۔ لیکن پھر انہوں نے امن معاہدہ توڑ دیا اور یوکرین کے شمال، مشرق اور جنوب میں فوجیں ڈالتے ہوئے، جسے جرمنی’پوتن کی جنگ کہتا ہے‘، شروع کر دیا۔ 24فروری کو صبح سے پہلے ایک ٹی وی خطاب میں صدر پوتن نے اعلان کیا کہ روس ’محفوظ‘،’ترقی اور وجود‘محسوس نہیں کر سکتا کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جدید یوکرین سے مستقل خطرہ ہے۔تاہم 24فروری سے ہفتوں پہلے امریکہ روز یہی رٹ لگایا ہوا تھا کہ روس بہت جلد یوکرین پر حملہ کر دے گا۔

روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ یوکرین کو غیر عسکری اور نازی سے آزاد کرنا ہے۔ظاہر سی بات ہے پوتن نے یہ بات اس لیے کہی کیونکہ یوکرین کا صدر ایک یہودی ہے۔پوتن اکثر یوکرین پر انتہا پسندوں کے قبضے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ جب سے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ کو 2014میں ان کی حکمرانی کے خلاف مہینوں کے مظاہروں کے بعد معزول کیا گیا تھا۔کریملن نے کہا ہے کہ ولادیمیر پوتن نے برطانیہ کے خارجہ سکریٹری لِز ٹرس اور دیگر کے تبصروں کے بعد روس کی نیوکلیرقوتوں کو ہائی الرٹ پر رکھا ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے پر نیٹو اور ماسکو کے سرمیان ممکنہ ’جھڑپوں‘ کے بارے میں ’ناقابل قبول‘ ریمارکس دیے گئے ہیں۔

جرمنی پچھلے کچھ روز قبل اچانک بول اٹھا اور اپنے پارلیمنٹ کی منظوری سے دفاع کے خرچ میں حیرت انگیز اضافہ کر دیا ہے۔اس کے علاوہ جرمنی نے روس کی گیس پائپ لائن نورڈ اسٹریم 2 کی منظوری کو روک دی ہے جو کہ روس اور یورپی کمپنیوں دونوں کی بڑی سرمایہ کاری ہے۔شاید جرمنی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے کیونکہ جرمنی کو پوتن کی نیت پر شک ہونے لگا ہے یا امریکہ اور یورپ کا دباؤ کیونکہ جرمنی اپنے آپ کو یورپ کا اقتصادی اور سیاسی رہنما مانتا ہے۔

 یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی،جو کہ ایک مزاحیہ اداکار رہے ہیں،  اور جنہیں تین سال سے بھی کم عرصہ قبل منتخب ہونے پر سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔روسی صدر پوتن اس بات سے برہم ہیں کہ یوکرین کے نئے یہودی صدر کا جھکاؤ یورپ اور امریکہ کی طرف دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔کیونکہ آئے دن یوکرین صدر زیلنسکی کبھی یوکرین کو نیٹو میں،  تو کبھی یورپین یونین میں شامل کرنے کی مانگ کرتا۔ جس کی وجہ سے پوتن کو یوکرین کے صدر پر شک گزرنے لگا کہ کہیں نہ کہیں یوکرینی صدر زیلنسکی امریکہ یا یورپ کا جوکر بن کر روس کی سلامتی اور ملک کو خطرہ پہنچانے کا کام کر رہا ہے۔

اگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو  تیسر عالمی جنگ کا اندیشہ ہے۔اگر ہم پچھلے دو جنگِ عظیم کا جائزہ لیں تو دونوں ہی جنگیں ایک ملک سے شروع ہو کر ایک خاص قوم سے منسلک تھی۔ یعنی پہلی جنگِ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی پیش قدمی اور دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کا قتل و عام اہم وجہ تھیں۔اور اس بار بھی بات کہیں نہ کہیں یوکرین کے یہودی صدر زیلنکسی کے ہی ارد گرد گھوم رہی ہے۔جن کے رویے نے روسی صدر پوتن پر جنگ کا جنون سوار کر دیا ہے۔ تاہم جنگ تو کوئی نہیں چاہ رہا ہے لیکن روس کے جارحانہ انداز اور امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے اتحاد سے جنگ کا ٹلنا شاید ناممکن لگ رہا ہے۔

Leave a Reply