You are currently viewing دولت، ہوس،شہرت اور ذلت

دولت، ہوس،شہرت اور ذلت

دولت اور شہرت کے حصولیابی کی ہوس میں انسان اکثر ذلیل و خوار ہوجاتا ہے۔ہم اپنے ارد و گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں دولت، ہوس، شہرت اور ذلت کے ہزاروں واقعات چھوٹے بڑے پیمانے پر آئے دن پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ عمل صرف امیروں کے یہاں ہی نہیں بلکہ غریبوں میں بھی عام طور پر پایا جاتا ہے۔ہم سب اپنے اپنے طور پر اچھی اور عیش و آرائش کی زندگی گزارنے کے لیے کسی بھی حد کو پار کرنے سے نہیں چونکتے ہیں۔خواہ اس کے لیے ذلیل و خوار ہی کیوں نہ ہونے پڑے۔بعض اوقات انسان اچھے اور برے کی تمیز کو نظر انداز کرکے بار بار ایسی غلطیاں کرتاہے جس سے اسے ذلیل و خارہو کر جیل کی ہوا بھی کھانی پڑتی ہے۔ شاید اس کی وجہ ضد،غرور، روایت، خاندان، قبیلہ، طاقت اور یقیناً دولت ہوا کرتی ہے۔ جو ہماری انسانیت کوبالائے طاق رکھ کر ہمیں انسان سے حیوان بنا دیتی ہے جس ہم اپنی حرکات سے شرم وسار ہوجاتے ہیں۔تاہم کبھی کبھی ہم ان باتوں سے بے پرواہ  اور بد اخلاق ہو کر ہم اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں ہر وہ کام کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حالانکہ دنیا کے بدلتے چہرے کو دیکھنے سے یہ باتیں کچھ لوگوں کے لیے محض کتابوں میں پڑھنے کے لیے کہانیاں ہیں۔تاہم ایسے واقعات ہی سماج میں پھیلتی ہوئی برائیوں کا سبب، یابے انتہا دولت کی بھر مار مانا جاتا ہے۔ میرا مشاہدہ ان باتوں سے یکسر مختلف ہے۔ جس میں ہم سب ملوث ہوتے ہوئے بھی اس کی تہہ میں جانے سے اپنا دامن بچاتے ہیں۔ چاہے وہ خاندان، سماج، دفتر یا محلے کا واقعہ ہو۔یوں بھی دیکھا جائے تو بر صغیر کی پردہ پوشی والے خاندان اور سماج میں بیشتر ایسی باتیں دفن کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے جیتے جی مظلوم گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی گزاردیتاہے۔ کیونکہ اس کی شکایت کو نہ اپنے تسلیم کرتے ہیں، نہ معاشرہ سنتا ہے، نہ پولیس اس کی کاروائی کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے اور نہ قانون کا صحیح طور پر استعمال ہونے دیا جاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بر صغیر میں عورت اور دولت کے مابین بیشتر واقعات کو سیاسی اور دولت کی پست پناہی مل جاتی ہے جس سے زیادہ تر لوگ انصاف پانے سے محروم رہتے ہیں۔

حال ہی میں برطانوی سوشلائیٹ گھسلین میکسویل، جس نے سزا یافتہ پیڈوفائل(وہ مرد یا عورت جو کم عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات بحال کرتے ہیں)جیفری ایپسٹین کی سابقہ گرل فرینڈ اور سماجی ساتھی کے طور پر عالمی شہرت حاصل کرنے والی گھسلین کو نیو یارک کی ایک جیوری نے نابالغ لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث پاتے ہوئے انہیں مجرم قرار دیا ہے۔مس میکسویل کو پانچ وفاقی الزامات میں قصور وار پایا گیا ہے۔ جس میں نابالغ کی جنسی اسمگلنگ، مجرمانہ جنسہ سرگرمی میں ملوث ہونے کے ارادے سے نابالغ کو لے جانا اور سازش کے تین متعلقہ شمار ہیں۔

ساٹھ سالہ گھسلین میکسویل نے تمام معمالات میں قصور وار نہ ہونے کی استدعا کی ہے۔جبکہ گھسلین کا بوائے فرینڈ ایپسٹین نے مقدمے کی سماعت کے انتظار میں اگست 2019 میں خود کشی کر لی۔ ایپسٹین جو کہ دولت مند اور فائیننسر تھا، اس کی موت کے بعد عوامی دباؤ میں کافی اضافہ ہوا کہ ان لوگوں کو پکڑا جائے جنہوں نے اس کی مدد کی تھی۔بشمول گھسلین میکسویل اور مبیہ طور پر اس کے ماتحت کام کرنے والی نوجوان خواتین کی ایک جماعت کو جو نہ صرف اس کے اعمال کے لئے بلکہ ان سبھوں کو ان کے اپنے کرداروں کے لئے بھی جو جوابدہ ہیں۔

 گھسلین میکسویل کے مقدمے کی سماعت کو روزانہ بی بی سی سمیت برطانیہ اور دنیا بھر کی خبر ایجنسیوں نے مسلسل سرخیاں بنائی تھیں۔ گھسلین میکسویل کے مقدمے کی سماعت کے دوران، استغاثہ نے دلیل دی گھسلین میکسویلاور ایپسٹین نے نیو یارک، فلوریڈا، نیو میکسیکو اور یو ایس او اور درجن آئی لینڈ میں نوجوان لڑکیوں کو ایپسٹین کے ساتھ جنسی تعلقات پر آمادہ کرنے کے لیے ایک اسکیم ترتیب دینے کی سازش کی۔اس کیس میں چار چار خواتین نے گواہی دی کہ ایپسٹین نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی اور گھسلین میکسویل نے بدسلوکی کی سہولت فراہم کی اور بعض اوقات اس میں حصہ لیا۔ گھسلین میکسویل کو اب 65سال قید کی سزا کا سامنا ہے جو کہ جلد سنائی جائے گی۔

آئیے جانتے ہیں یہ گھسلین میکسویل کون ہیں۔ گھسلین میکسویل1961 میں پیدا ہوئی اور برطانیہ کے معروف شہر آکسفورڈ کے دیہی علاقوں میں پلی بڑھی۔یہ رابرٹ میکسویل کی بیٹی ہیں۔رابرٹ میکسویل بہت رئیس یہودی تھا جو دوسری جنگِ آزادی کے دوران نازی حملے سے بچ کر چیکوسلواکیہ سے برطانیہ آئے تھے اور ایک اخبار کے مالک تھے۔ یہ لیبر پارٹی کے ایم پی بھی رہ چکے ہیں، ان کی موت پر اسرار حالات میں ہوئی جب یہ اپنے نجی بوٹ سے گرے اور بعد میں ان کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی ملی۔ اس خبر سے منسلک ملکہ برطانیہ کے دوسرے بیٹے پرنس اینڈریو بھی خبروں کی سرخیوں میں ہیں۔ پرنس اینڈریو کی ایک بدنام زمانہ تصویر کے پس منظر میں گھسلین میکسویل کھڑی دِکھی ہیں اور جس میں پرنس اینڈریو،ورجینیا رابرٹس نامی نوجوان خاتون کی کمر کے گرد بازو باندھے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔گھسلین میکسویل کے ارب پتی بوائے فرینڈایپسٹین کی پہلی ملاقات پرنس اینڈریو سے 1999میں بذریعہ گھسلین میکسویل ہوئی تھی۔ ورجینیارابرٹس نے الزام لگایا ہے کہ اسے ایپسٹین نے گھسلین میکسویلکی مدد سے اسمگل کیا اور جب وہ نابالغ تھی تو پرنس اینڈریو سمیت اپنے دوستوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا۔ تاہم پرنس اینڈریو نے ورجینیا رابرٹس کے ساتھ جنسی تعلق کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا کہ انہیں ’کبھی تصویر لینے کی کوئی بات یاد نہیں ہے‘۔

لیکن پرنس اینڈریو صاحب کو پتہ ہونا چاہیے کہ اب تو بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے۔ اب وہ جتنی اس بات کی تردید کر لے،تصویر تو یہی بتا رہی کہ پرنس کی ورجنیا روبرٹ کے کمر میں ہاتھ ڈال کر تصویر کچھ اور ہی بیان کر رہی ہے۔تبھی تو اب یہ بھی بات ہو رہی کہ ورجینیا روبرٹ سے کسی طرح صلح ہوجائے تا کہ پرنس اینڈریو پرنس بنے رہے۔تاہم عام لوگوں کی نظر میں پرنس اینڈریو ایک مجرم دکھائی دے رہے ہیں۔

 گھسلین میکسویل کے ٹرائل سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ناجائز دولت اور ہوس انسان کو کس حد تک ذلیل کرسکتی ہے جس کی وجہ سے ایپسٹین جیسے ارب پتی کو جان دینی پڑی تھی۔لیکن اس کیس سے ایک مثبت پہلو تو یہ دیکھنے کو ملا کہ دولت ہوتے ہوئے بھی مجرم بچ نہیں سکتا ہے اور یہ بات امریکہ اور مغربی ممالک ہی میں ممکن ہے۔ جبکہ اس کے بر عکس اگر یہ بات ہندوستان اور پاکستان یا کسی عرب ممالک میں ہو تو مجھے نہیں لگتا کہ مجرم کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی یا اس کو سزا ملتی۔کیونکہ شاید ان ممالک میں قانون کے ہاتھ تو ہیں لیکن اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ وہ دولت مند طاقتور مجرم کو پکڑ سکے۔

اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے ہندوستان اور پاکستان پر نظر ڈالیں تو پچھلے کچھ برسوں میں کئی نامور اور دولت مند لوگوں نے ملک چھوڑ کر انسانی حقوق کی آڑ میں برطانیہ اور دیگر ممالک میں پناہ گزین بن بیٹھے ہیں۔ جن کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی کرنے والا ہے اور نہ ہی انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply