You are currently viewing ذیابیطس،ایک خاموش قاتل

ذیابیطس،ایک خاموش قاتل

ذیابیطس ایک دائمی، میٹابولک بیماری ہے جس کی خصوصیات خون میں گلوکوز(بلڈ شوگر) کی بلند سطح سے ہوتی ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ دل، خون کی نالیوں، آنکھوں، گردوں اور اعصاب کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔

 سب سے عام قسم ذیابیطس 2ہے جو عام طور پر بالغوں میں ہوتی ہے جو جسم میں انسولین کے خلاف مزاحم ہوجاتا ہے یا کافی انسولین نہیں بنا پاتا۔گزشتہ تین دہائیوں میں تمام آمدنی والے ممالک میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کے پھیلاؤ میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطیس جسے کبھی نو عمر ذیابیطسیا انسولین پر منحصر ذیابیطس کہا جاتا ہے۔ ایک دائمی حالت ہے جس میں لبلبہ خود سے بہت کم یا کوئی انسولین پیدا نہیں کرتا ہے۔

دنیا بھر میں تقریباً 422ملین افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ جن کی اکثریت کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں رہتی ہے اور ہر سال 1.5ملین اموات براہ راست ذیابطیس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ذیابطیس کے کیسز اور پھیلاؤ دونوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انٹرنیشنل ڈائیبیٹز فیڈریشن کے ایک سروے سے یہ پتہ چلا ہے کہ ایشیا ذیابیطس کی مہاماری کی لپیٹ میں ہے۔ یہ بیماری خاص کر غریبوں پر ایک آفت ہے اور انسانی اور مالیاتی حساب سے یہ لوگوں پر ایک بہت بڑا بوجھ بنا ہوا ہے۔اکثر یہ مانا جاتا تھا کہ یہ بیماری امیر لوگوں میں ہی ہوتی ہے کیونکہ ان کو طرح طرح کے کھانے دستیاب ہیں لیکن ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اب ہر طرح کے کھانے بازار میں دستیاب ہیں جس سے یہ بیماری اب عام لوگوں میں بھی ہوتی جارہی ہے۔

 ٹائپ 2  ذیابیطس کے بڑھنے کی وجہ یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں تبدیلی، شہری زندگی میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ہجرت کرنا اور سستی کیلوریز کی عمل در آمد غذائیں کی دستیابی ہیں جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگی میں ٹائپ 2  ذیابیطس کے بڑھاوا دینے میں اہم وجوہات ہیں۔

 انٹرنیشنل ڈائیبیٹز فیڈریشن کے مطابق دنیا میں تقریبا  4 کروڑ لوگ ذیابیطس میں مبتلا ہیں اور اس میں آدھے سے زیادہ لوگ ایشیا اور مغربی  پیسیفک سے ہیں جہاں 90-95% فی صد لوگ ٹائپ 2  ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ ان میں چین دنیا کا ایسا اہم ملک ہے جہاں  10کروڑ سے زیادہ لوگ اس بیماری کے شکار ہیں جو کہ چین کی آبادی کا 10%فی صد ہے۔ اب یہ بیماری  1980میں 1%فی صدکے مقابلے میں اس میں ایک ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔پروفیسر جولیانا چان جو کہ چائینیز یونیورسیٹی آف ہانگ کانگ سے تعلق رکھتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ  ’ذیابیطس ایک خاموش آبادی کی ایک خاموش قاتل ہے‘۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اس بیماری میں بہت پیچیدگی ہے اور اس کے کئی اسباب مانے جاتے ہیں مثلاً موروثی جینیٹک، طرزِ زندگی اور ماحولیاتی اثر ہیں جو کہ حال ہی میں چین میں بدلتی ہوئی زندگی اور اس کی جدیدیت سے اثر انداز ہوا ہے۔

ذیابیطس کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم ٹائپ 1 اور دوسری قسم ٹائپ 2 ہے۔ ٹائپ1 کے جو لوگ شکار ہیں وہ انسولین پیدا نہیں کر پاتے ہیں۔ اس بارے میں اب تک یہ بات نہیں معلوم کی جاسکی ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے لیکن اس کی دوسری وجہ زیادہ وزن بھی ہونا ضروری نہیں ہے۔ عام طور پر اس کے شکار بچے اور نوجوان ہوتے ہیں۔ یہ اچانک شروع ہوتا ہے اور اس سے مریض کی حالات تیزی سے بگڑنے لگتی ہے۔ اس کا علاج انسولین کے روزانہ خوراک لینے سے،ایک صحت بخش غذا اور باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی رکھنے سے یہ کنٹرول رہتا ہے اور مریضوں کو اس بیماری سے محفوظ بھی رکھا جا سکتا ہے۔

ٹائپ 2 کے جو لوگ شکار ہیں وہ اپنے جسم کے اندرکا فی انسولین پیدا نہیں کر پاتے ہیں یا جو انسولین پیدا کرتے ہیں وہ مناسب طریقے سے جسم میں کام نہیں کر پاتا ہے۔ اسے انسولین سے مزاحمت بھی کہتے ہیں۔ایسے ذیا بیطس کے شکار لوگ یا تو خاندانی بیماری،عمر اور نسلی پسِ منظر کی وجہ سے اس کے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ٹائپ 2  ذیابیطس کے شکار ہوتے ہیں ان میں وزن کا بڑھنا بھی ایک وجہ بتائی جاتی ہے۔ ٹائپ 2  ذیابیطس کا علاج صحت بخش غذا اور جسمانی سرگرمی ہے جو اس میں مفید ثابت ہوتا ہے اور اسے کنٹرول رکھتا ہے۔

 ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ عورتوں میں حاملہ کے دوران چودہ سے چھبیس ہفتوں میں گیسٹیشنل ڈائیبیٹزکا پانا بہت عام بات ہے۔ ان حالات میں خون میں شوگر کے مقدار کا بڑھنا اور انسولین کا کم پیدا کرنا عام بات ہے جس کی وجہ سے یہ جذب نہیں کر پاتا ہے۔ حالانکہ یہ تکلیف زیادہ تر عورتوں میں بچہ کے پیدا ہونے کے بعد غائب ہوجاتی ہے۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ یہ دراز عمر لوگوں کی بیماری ہے لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب یہ بیماری نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں میں بھی کافی پایا جا رہا ہے اور یہ بیماری آگے چل کر کافی خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے جس سے جان کو خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ یوں تویہ بیماری زیادہ تر وزنی لوگوں میں عام پائی جاتی ہے لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب کم وزن اوردبلے پتلے لوگ بھی اس بیماری کے شکار ہورہے ہیں۔ اس بیماری میں گردے کا کام نہ کرنا، قلبی بیماری اور اندھا پن کا ہونا عام ہیں۔ ہندوستان بھی چین سے اس معاملے میں زیادہ پیچھے نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں لگ بھگ 7 کروڑ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں اورلگ بھگ 2  کروڑسے زیادہ عورتیں ایسی ہیں جو بچہ جنم دیتے وقت اس بیما ری کی شکار پائی گئیں ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان خواتین کے زیادہ تر بچوں کو بھی آگے چل کر اس بیماری کے شکار ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔

 برطانیہ میں ذیابیطس کے شکار لوگوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ ان میں زیادہ تر ایشیائی نسل کے لوگ ہیں۔ مانا جا تا ہے کہ یہ لو گ یا تو خاندانی بیماری کی وجہ سے اس بیماری کی لپیٹ میں آگئے ہیں یا ان کے طرزِ زندگی کو بھی ایک وجہ مانا جا رہا ہے۔ تقریباٌیہاں کے تمام ہسپتال میں ذیابیطس کے علا ج اور جانچ کے لئے ایک خاص حصہّ بنا ہوا ہے جہاں مریضوں کو  باقاعدہ نئے آلات سے ان کا جانچ کیا جاتا

 ہے اور ڈسٹرک نرس گھروں پر جا کر ان کو دوائیاں اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی سرجری میں ڈاکٹر بھی دستیاب ہوتے ہیں جو ذیابیطس کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے مشورہ دیتے ہیں او ر وہ ان مریضوں کا باقاعدگی سے جانچ کرتے رہتے ہیں۔

Leave a Reply