You are currently viewing کوڑھ کا مرض اورایک امید

کوڑھ کا مرض اورایک امید

مرض چاہے جیسا ہو اور جس حالت میں ہو اس شخص کی دیکھ بھال اور علاج بنا کسی بھید بھاؤ کے کرنا چاہئے۔ یہ ایک انسانی تقاضا ہے اور اس کے علاوہ انسانی ہمدردی بھی ہے۔لیکن آج بھی چند ملکوں میں کچھ بیماریاں ایسی ہیں جس کا نام سنتے ہی علاج کرنے والوں سے لے کر خاندان کے لوگ بھی منھ پھیر لیتے ہیں۔

جس سے ہمیں صرف شرم ہی نہیں آتی ہے بل کہ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جی تو رہے ہیں لیکن ایک ایسی دنیا میں جہاں شاید جانور کو بھی اگر ہماری بے رحمی کا پتہ چل جائے تو وہ ہم سے منہ پھیر لے۔تو آئیے آج ہم آپ کو کوڑھ کی بیماری اور اس سے منسلک بات کرتے ہیں جس سے دنیا کا سب سے گھنی آبادی والا ملک ہندوستان کیسے منہ پھیر کر اس مرض سے پریشان لوگوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنی عکاسی بھی کریں گے کہ کیسے ہم اس مرض کو جان کر اُن معصوم مریضوں کی عیادت تو دور اُ ن کو اپنے خاندان اور سماج سے الگ تھلگ کر دیتے ہیں۔

 ہندوستان میں کوڑھ کے مرض کو ختم کرنے کے لئے ایک نیا لیپروسی ویکسن تیار کیا گیا ہے۔ فی الحال ہندوستان میں لگ بھگ 60%فی صد نئے کوڑھ کے مرض کی جانکاری ہر سال حکومت کو مل رہی ہے۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت نے کوڑھ مرض کو صفہ ہستی سے مٹانے کے لئے ایک نئے پروگرام کا آغاز کیا ہے جس سے لوگوں کو کافی امیدیں ہیں۔محمد شفیق جو کہ پیشہ سے اردو زبان کے استاد ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب میں سولہ برس کا تھا تو ایک دن میں جب اپنے گھر واپس آیا تو میرا بستر گھر والوں نے راستے پر پھینک دیا تھا۔ میرے گھر والوں نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور میرے گاؤں والوں نے بھی مجھے دھتکار دیا تھا۔ محمد شفیق کو اس بات سے سخت صدمہ پہنچا تھا اور انہیں بحالتِ مجبوری اسی وقت اپنا گھر اور گاؤ ں چھوڑنا پڑا۔جب سے محمد شفیق کو کوڑھ کا مرض پکڑا ہے تب سے ان کی کمیونٹی نے انہیں نکال دیا ہے۔اب محمد شفیق طاہر پور میں ایک پختہ مکان میں رہتے ہیں جسے حکومت نے کوڑھ کے مریضوں کے رہنے کے لئے شمالی دلّی میں بنا یا ہے۔

محمد شفیق کی طرح اور بھی کئی لوگ اس کالونی میں رہتے ہیں جو اس مرض سے دوچار ہیں۔ ان میں ایک صدیق ہے جو صحت یاب ہوچکے ہیں لیکن ان کی جسمانی صورت کی وجہ سے وہ اب بھی اس کالونی میں رہنے پر مجبور ہیں۔ صدیق کے ٹیڑھے ناک، ہاتھ اور پاؤں اور سماجی کلنک کی وجہ سے وہ اب بھی اس مرض کا دھبہّ اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں اور لوگ اب بھی ان سے دُوری رکھتے ہیں۔کوڑھ کے مریضوں کے رہنے کے لئے ہندوستان میں آٹھ سو سے زیادہ کالونیاں ہیں جن میں اکیلے طاہر پور میں کوئی لگ بھگ پانچ ہزار کوڑھ کے مریض رہتے ہیں۔زیادہ تر کوڑھ کے مریض کے رہنے کی جگہ تنگ رہائش، کھلے نالے اور کوڑوں کے ڈھیر کے درمیان ہوتی ہے جبکہ طاہر پور کی کالونی پختہ کٹیا، پانی کی فراہمی اور بیت الخلاء کی سہولیات سے باقی کوڑھ کے کالونی سے بہتر مانا جاتا ہے۔طاہر پور میں زیادہ تر مرد دن بھر تاش کھیلتے رہتے ہیں، ساتھ ہی بچے کھیلتے رہتے ہیں اور عورتیں دروازے پر کھڑی گپ مارتی رہتی ہیں۔کچھ لوگوں کے پاؤں اور ہاتھ میں سفید بینڈیج لگا ہوتا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس آدمی کو کوڑھ کا مرض ہے۔

اسی طرح ایک کہانی سومو کمار کی ہے جو اٹھارہ سال کا ہے اور وہ بہار سے دلّی اپنے کوڑھ کے علاج کے لئے آتا ہے۔ سومو کمار کی شکل پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں اور وہ بوکھلایا بھی دِکھ رہا ہے۔وہ اپنی عمر سے بہت کم لگ رہا ہے۔ اس کے پاؤں پر بینڈیج لگے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ہاتھوں کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سومو کمار کا کہنا ہے کہ جب وہ چھ سال کا تھا تب سے اسے کوڑھ کا مرض ہوا ہے۔اس نے تبھی سے ڈاکٹروں کے مشورے پر دوائیاں لینی شروع کردی ہے لیکن اس کا پیر بُری طرح اس مرض سے خراب ہوگیا ہے جو کہ کوڑھ کے مریضوں کے لئے ایک عام بات ہے۔سومو کمار کا کہنا ہے کہ اس نے کسی طرح دسویں جماعت تک کی تعلیم مکمل کر لی ہے لیکن وہ اپنے گا ؤں والوں سے کافی دُکھی ہے جنہوں نے اسے الگ تھلگ کر رکھا ہے اور وہ ا سے اچھوت مانتے ہیں۔

لیکن آخر کار برسوں کی مایوسی کے بعد حکومت ِہندنے کوڑھ کے مرض کے خاتمے کے لئے دنیا کا پہلا کوڑھ ویکسن کا ایجاد کیا ہے۔ جو کہ ہندوستان کے دو سب سے زیادہ کوڑھ سے متاثر صوبے بہار اور گجرات سے شروع ہوااور اب یہ  پورے ملک میں استعمال  ہورہا ہے۔

پرو فیسر گرشرن پرساد تلوار نے 1980کی دہائی میں سب سے پہلے(MIP-Mycobacterium indicus ptani) ویکسن تیار کیا تھا۔ 2005میں (National Institute of Immunology)  نے اتر پردیش کے 24,000 لوگوں کوٹرائل کے طور پر ویکسن لگایاتھا۔اس کا نتیجہ کافی امید افزا ہوا تھا جس کی وجہ سے 68.6%فی صد لوگوں کو چار سال تک اور 59%فی صد لوگوں کو آٹھ سال تک اس مر ض سے محفوظ رکھا گیا تھا۔تا ہم اسی سال ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے کوڑھ کا سرکاری طور پر خاتمہ کا اعلان کیا تھا۔  (The Leprosy Mission Trust India) دی لیپروسی میشن ٹرسٹ انڈیا کی ڈاکٹر میری ورگیس کا کہنا ہے کہ ڈبلو ایچ او کے لیپروسی خاتمہ کے اعلان دراصل ہندوستان کے لئے تباہ کن  تھا۔انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتا یا کہ پہلے کوڑھ کا علاج ایک عمودی پروگرام تھا۔جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے لئے خاص لوگ مقرر کئے جاتے تھے اور ایک خاص طریقے سے وہ مریضوں کا علاج کرتے تھے۔لیکن 2005سے کوڑھ کے مرض کے علاج کے لئے اسے جنرل ہیلتھ کیر سروس میں شامل کر دیا گیا ہے جس سے اب ایسے مریض کو دیکھنے کے لئے ہیلتھ ورکر کو ان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بل کہ کوڑھ کے مریض اب خود کلینک میں آتے تھے۔لیکن زیادہ تر کوڑھ کے مریض اپنے مرض کے آخری حصےّ میں آتے تھے اور انہیں علاج میں بڑی مایوسی ہوتی تھی۔ 2005کے بعد کوڑھ کے مریضوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ انہیں علاج کے لئے کلینک جانا چاہئے۔ ڈاکٹر میری ور گیس کا کہنا ہے کہ اب لگ بھگ 125000نئے کوڑھ کے مریض ہر سال کلینک آرہے ہیں اور ہر سال کوڑھ کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔

(The Leprosy Mission Trust India) کوڑھ کے مریضوں کے لئے کئی پیشہ وارانہ کورس کا انتظام کررہے ہیں جس کا مقصد ہوتا ہے کہ سومو کمار جیسے لوگ اس میں ٹریننگ حاصل کرکے روزگار اور اعتماد حاصل کر لے۔اس طرح کے پراجیکٹ کا ایک اور مقصد ہے کہ وہ لوگوں میں کوڑھ کے متعلق جانکاری کو بڑھائے اور لوگوں میں کوڑھ کے متعلق غلط فہمی کو بھی دور کرے۔انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ  کے ڈائرکٹر سومیا سوامی ناتھن کا کہنا ہے کہ (MIP vaccaine) ایک کامیاب ویکسن بنائی گئی ہے جس سے امید کی جارہی ہے کہ یہ کوڑھ کا خاتمہ کر دیگی۔فی الحال گھر گھر جا کر سروے کیا جارہا ہے اور 32 ملین سے زیادہ لوگوں کا کوڑھ سے متاثر علاقوں میں ان کی اسکریننگ کی جائیگی اور لوگوں کو اس نئے ویکسن کی اطلاع بھی دی جائیگی۔ڈاکٹر سوامی ناتھن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ویکسن بل کل محفوظ ہے اور یہ بلاڈر کینسر جیسے مرض کے لئے بھی کافی مفید ثابت ہوگا۔

لیکن ڈاکٹر اتپل سین گپتا کا کہنا ہے کہ ویکسی نیسن صرف ایک مسئلے کا حل ہے جب کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ صاف صفائی کا بھی دھیان رکھا جائے۔انسان سے انسان کے بیچ ٹرانسمیشن ہوتا ہے لیکن ماحول بھی اس میں اہم رول نبھاتا ہے۔ڈاکٹر سین گپتا جنہوں نے کوڑھ کے مرض پر چالیس سال سے زیادہ دنوں تک مطالعہ کیا ہے کہتے ہیں کہ کوڑھ کے مرض میں بیکٹیر یا ایک اہم وجہ ہے۔جمے ہوئے پانی اور بھیگے ہوئے مٹی کی وجہ سے (Mycobacterium leprae) کا جنم ہوتا ہے۔ڈاکٹر گپتا کا ماننا ہے کہ دیہاتوں میں لوگ ایک ہی تالاب میں نہاتے ہیں جس کی وجہ سے  Mycobacterium leprae)  پانی میں منتقل ہوجاتا ہے اور جس سے لوگ کوڑھ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان میں انگریزوں کے دورِ حکومت کا قانون  (1898 Lepers Act اب بھی ایک ایسا غلط فہمی والا قانون ہے جس کے ذریعہ ایک مرد یا عورت کوڑھ کی تشخیص ہونے پر ایک دوسرے کو طلاق دے سکتے ہیں۔

(The Leprosy Mission Trust India حکومت کے ساتھ اس قانون کو ختم کرنے کے لئے صلاح و مشورہ کر رہی ہے۔

آج کا کالم کوڑھ کے مریضوں کی ایک ایسی ادھوری کہانی ہے جسے شاید ہم اور آپ نہ سمجھ پائیں گے۔ کوڑھ ہونا ایک مرض ہے لیکن کوڑھ کا مریض ہونا خاندان اور سماج میں ایک کلنک ہے جس سے ہم اور آپ انکار نہیں کر سکتے ہیں۔شفیق، صدیق اور سوموکمار جیسے لوگ شاید اپنی قسمت کو اس لئے کوستے ہوں گے کہ انہیں یہ مرض ہے۔ لیکن اب ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمارا سماج جوکوڑھ کے مریضوں کو ایک کلنک مانتا ہے اسے کیسے درست کیا جائے اور ہم کیسے اپنی سوچ کو بدلے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کوڑھ کے خاتمے کے لئے جو نئے لیپروسی ویکسن کا استعمال شروع ہونے والا ہے اس سے امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کوڑھ کے مرض کا خاتمہ ہو جائیگا اور پھر کوئی کوڑھ کی مرض سے خاندان اور سماج میں کلنک نہ بنے گا۔

Leave a Reply