You are currently viewing رام اور ہنومان کے نام پر دنگا

رام اور ہنومان کے نام پر دنگا

ہفتہ 16 اپریل کی شام دہلی میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ تشدد دیکھنے میں آیا۔ جو 2020کے فسادات کی یاد دلاتا ہے جس نے دارالحکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

یہ فرقہ وارانہ فساد مغربی دہلی کے جہانگیرپوری علاقے میں ہنومان جینتی کے جلوس کے دوران ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تصادم میں ہوا۔ پولیس کے مطابق شام چھ بجے کے قریب ہونے والے تشدد میں پتھراؤ کیا گیا اور کچھ گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا گیا۔اس کے بعد سوشل میڈیا پر کئی ویڈیو وائرل ہونے لگے جسے دیکھ کر ہمارا سر شرم سے جھک گیا۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ دارالحکومت دلی یا ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہوں۔ وزارت داخلہ کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2016سے 2020تک کے پانچ سالوں میں ملک میں فرقہ وارانہ یا مذہبی فسادات کے 3,399واقعات ہوئے ہیں۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016میں مذہبی تشدد کے 869 واقعات ہوئے تھے۔ تاہم یہ تعداد اگلے سال کم ہو کر 723 ہوگئی۔ 2018میں فرقہ وارانہ فسادات کے 512 اور 2019 میں ایسے 438واقعات ہوئے ہیں۔ اور 2020میں 857 مذہبی فسادات ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ان فسادات میں زیادہ ترجانی اور مالی نقصان مسلمانوں کا ہوتا ہے۔جو کہ ایک نہایت ہی شرمناک بات ہے۔

جہانگیر پوری نسبتاً غریب محلے میں، جس میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے، جہاں فساد ہوا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سینکڑوں افراد بشمول دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کے بہت سے اراکین جو ہندو دیوتا ہنومان کی یوم ِ پیدائش منانے کے مارچ کرنے کے بعد کشیدگی پھیل گئی۔ویڈیو میں شرکا کو رقص کرتے اور مذہبی نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جن میں بہت سے لوگ تلواریں اور ترشول اٹھائے ہوئے ہیں۔جلوس جب ایک مسجد کے قریب سے گزرا تو مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا کیونکہ ہنومان جلوس کے شرکا نے مسجد میں جھنڈے پھینکنا شروع کر دیے اور ساتھ ہی اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے جس نے تشدد کو ہوا دی۔ اور دونوں طرف سے پتھراؤں ہونے لگے۔

ایک بات تو میں بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر رام اور ہنومان کے بھگت مسجد کے سامنے ہی کیوں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور تلوار لے کر ناچنا اور شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر ہندوستانی حکومت ا س بات کو سمجھ لے تو مجھے لگتا ہے کہ پولیس سب سے پہلے گرفتار ان لوگوں کو کرے گی جو فساد برپا کرنے میں پہل کرتے ہیں۔اس کے بعد ان فسادیوں کو جن میں دونوں طرف کے لوگ ملوث ہیں۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پولیس سب سے پہلے مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر انہیں گرفتار کرتی ہے جس سے اصل مجرم کی خوب حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ شاید اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حکمراں جماعت کے حامی ہوتے ہیں جو مسلمانوں سے نفرت رکھتے ہیں۔

ابھی فساد میں ملوث لوگوں کی دھڑ پکڑ ہو ہی رہی تھی کہ اس واقعے پر سیاست بھی شروع ہوگئی ہے۔ دہلی بی جے پی کی جانب سے جہانگیر پوری تشدد کے ملزم محمد انصار اور عام آدمی پارٹی کے درمیان روابط کا دعویٰ کرنے کے ایک دن بعد دلی میں حکمراں جماعت کے ایم ایل اے آتشی نے منگل کو ٹوئیٹر پر تصویریں شئیر کیں جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ملشم کو زعفرانی پارٹی یعنی بی جے پی کے رہنماؤں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔آتشی نے یہ بھی لکھا کہ ’جہانگیر پوری فسادات کا مرکزی ملزم انصار ایک بی جے پی لیڈر ہے‘۔گویا ان باتوں سے تو یہی لگتا کہ یہ سارا معاملہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سیاسی مفاد کی خاطر کیا جارہا ہے جس کا خمیازہ غریب عوام کوبھگتنا پڑ رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے کچھ برسوں سے ہندوستان کی پُر امن فضا میں کشیدگی کا احساس ہورہا ہے۔ خاص کر بابری مسجد کو جس طرح شہید کیا گیا اور ہندو کار سیوکوں کے جارحانہ رویّے سے ہندوستان کے زیادہ تر ریاستوں میں اب تک کشیدگی پائی جارہی ہے۔ہندو دھرم کے نام نہاد ٹھیکے داروں نے ہمیشہ یہ دعوٰی کیا کہ وہ رام مندر وہیں بنائیں گے جہاں بابری مسجد تھی۔ رام مندر کی تعمیر کی آڑ میں بی جے پی ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکا کر زیادہ تر ریاستوں میں اپنی حکومت بنا چکی ہے۔ 2014کے عام چناؤ میں بی جے پی کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی تھی اور پورے ملک میں ’ہندو راشٹر‘ بنانے کی مہم تیز کر دی گئی۔لیکن اس کے بعد بھی بی جے پی اپنی حکومت کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے آئے دن کبھی رام تو کبھی ہنومان کی سیاست کر کے ہندوؤں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر ریاستی الیکشن میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے میں گامزن ہے۔

تاہم’ہندوراشٹر‘ بنانے کا خواب بی جے پی کے سیاستداں برسوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں اس سلسلے میں کافی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ہندوستان مختلف مذاہب، ثقافت، زبان اور ماحول کا ملک ہے۔رام کے اس دیش کو رحیم، بدھ، جین، گرونانک، اور کئی ایسے سادھو، سنت، پیر اور پیغمبروں نے اپنایا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور حصّے میں نہیں پائی جاتی ہے۔ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگ برسوں سے آپس میں بھائی چارگی اور امن و سکون سے جی رہے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے لیڈروں نے ہر سال رام نومی کے تہوار کے موقعے پر اپنے ناپاک ارادے اور سماج دشمن کی حوصلہ افزائی کر کے ایک خاص فرقے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔تاہم حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہر سال یہ لوگ اپنے ناپاک اردوں میں جلسہ و جلوس کے ذریعے ہنگامہ کرتے ہیں اور کسی معصوم کی جان لے کر اس کا جشن مناتے ہیں۔

آئے دن ہاتھوں میں ہتھیار لئے ہوئے وہ لوگ جن کے سر پرمذہبی جنون سوار ہے ایک خاص فرقے کو کوس رہے ہیں۔خاص کر جب ان کا گزر کسی مسجد کے پاس سے ہوتا ہے۔ تاہم مسلمان اپنے پیارے وطن کی پاک دھرتی پر رام کے نام کو بدنام ہوتے ہوئے دیکھ کر اپنی بے بسی پر افسوس کر رہے۔ رام اور ہنومان کا نام لینے والے ظالم لوگ نہ جانے کس کے بہکاوے میں آکر اپنے بھگوان کو شرمندہ کر رہے ہیں۔ خدا جانتا کہ ان ظالموں کو آخر مسلمانوں سے کیا دشمنی ہے۔ ہر بار مسلمان پر الزام لگا کر اور انہیں گرفتار کرکے دنیا کو یہ بتا یا جاتا ہے کہ بھاڑے کے مذہبی سر پھرے غنڈوں پر بنا کسی وجہ کے حملہ کیا گیا اور لوگوں سے پُر امن رہنے کی اپیل کی جاتی ہے اور مسلمان اپنا سر جھکا کر ان کی باتوں کو ما ن لیتا ہے۔اب تو مسلمان شری رام اور ہنومان جینتی کے آتے ہی اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اس بار کہاں کہاں فساد ہوں گے۔

وہ مسلمان جو سیاسی پارٹیوں سے منسلک ہیں وہ شاید اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر امن کے پیغامات کو لوگوں میں پھیلانے لگے۔ جس سے ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ مسلمان ان تمام باتوں کو برداشت کرتے ہوئے اللہ سے اس نا انصافی اور ظلم کے خلاف دعا ما نگنے لگا۔لیکن شاید مسلمان وقتی طور پر اس صدمے کو برداشت کر لے لیکن اگر دائیں بازو کا ہندو اپنی اس حرکت سے باز نہیں آئیں تو شاید مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک سکتا ہے اور حالات سنگین ہو سکتے ہیں۔تاہم اب تک پورے ملک میں مسلمانوں نے صبر کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے جس کی ہم سراہنا کرتے ہیں اور یہ ایک قابلِ ستائش بات ہے۔

سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ ہر سال رام نومی کے موقعے پر کیوں بجرنگ دل ایسا تماشہ کرتی ہے اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف جلوس میں شامل لوگ اشتعال انگیزی کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس موقعے پر پولیس اور حکّام ہمیشہ ناکارہ ثابت ہوتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہر سال اس خوشی کے موقعے پر کہیں نہ کہیں فساد برپا ہو جاتا ہے۔جس کا فائدہ سیاسی پاٹیوں کے علاوہ ان بدنام لیڈروں کو ہوتا ہے جو ملک میں امن و امان کے دشمن ہوتے ہیں۔

برطانیہ میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ایسی خبروں سے مایوسی اور بے چینی پائی جارہی ہے۔بہت سارے ہندوستانی ٹیلی ویژن کی خبروں کو دیکھ کر لوگوں میں یہ بحث چھِڑ گئی ہے کہ آخر یہ کو نسا ہندوستان بنایا جارہا ہے جہاں رام کا نام بدنام کیا جارہا ہے۔تو وہیں صبغت اللہ کی موت پر بھی افسوس ظاہر کیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی ایسے کئی پوسٹ دکھائے جا رہے ہیں جس میں وی ایچ پی، بجرنگ دل اور آرا یس ایس کے رضا کاروں کو یہ کہتے ہوئے پایا جارہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کوکبھی اتنا بے بس اور مجبور نہیں پایا تھا جتنا ہندوستان کے ان واقعات سے پارہاہوں۔شاید اب اگر میں برطانیہ کی محفلوں میں جاؤں تو میرا سر ان بہاری اور بنگالیوں کے سامنے جھکا رہے گا کیونکہ میرے ہندوستان میں ’رام‘کو بدنام کیا جارہا ہے۔

میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ ایسے سماج دشمن عناصر کو فوراً گرفتار کیا جائے جو مذہب کی آڑ میں لوگوں میں ڈر اور خوف کا ماحول پیدا رہے ہیں اور ’رام‘ اور ’ہنومان‘ کے پوتر نام کو بدنام کر رہے ہیں۔جس سے ہندوستان کے خوبصورت ماتھے پر کالک لگ رہا ہے۔ میں حکومت سے یہ بھی اپیل کرتا ہوں کہ ان تمام جلسہ اور جلوسوں پر پابندی لگا دی جائے جس میں لوگ ہتھیار لے کر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم علاقوں میں پولیس کو پہلے سے تعینات کیا جائے تا کہ مسلمان اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں۔

Leave a Reply