You are currently viewing !بنگلہ دیش کے پچاس برس اور مودی کا جیل جانا

!بنگلہ دیش کے پچاس برس اور مودی کا جیل جانا

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی دو دن کے سفر پر آن و بان سے بنگلہ دیش کی آزادی کی گولڈن جوبلی تقریب میں شرکت کے لیے ڈھاکہ پہنچے۔ دراصل کورونا وبا کی شروعات اور دنیا کی بگڑتی ہوئی حالت کے مد نطر ہندوستانی وزیر اعظم کو پچھلے سال سے بیرون ملک گھومنے کا کوئی موقع نہیں مل رہا تھا۔

نریندر مودی جب سے ہندوستان کے وزیر اعظم بنے ہیں انہوں نے اب تک ساٹھ ممالک کا 109باردورہ کیا ہے۔ جن میں 34ممالک کا ایک بار دورہ کیا۔ 16ممالک کا دو بار دورہ کیا۔ 2ممالک کا تین بار دورہ کیا۔ 4ممالک کا چار بار دورہ کیا۔ 3ممالک کا پانچ بار دورہ کیا اور 1ملک جو کہ امریکہ ہے اس کا چھ بار دورہ کر چکے ہیں۔  وزیر اعظم مودی نے موقع  غنیمت دیکھتے ہوئے سرحد پار بنگلہ دیش جانے کی ٹھان لی یا یوں کہئے کہ کسی بہانے کم سے کم بیرون ممالک جانے کا اپنا ریکارڈ قائم رکھا۔بیچارے ٹیکس ادا کرنے والوں کی رقم سے گھومنے کا فری موقع بھلا کون کمبخت سیاستدان گنوانا چاہتا ہے۔

حال ہی میں ایک خبر پڑھ کر حیرانی سے زیادہ پریشانی ہوئی۔ دراصل خبر ہی ایسی تھی۔ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے مخصوص انداز میں بنگلہ دیش کی عوام کو خطاب کرتے ہوئے کہہ ڈالا:  “میں بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے ستیہ گرہ گیا، جیل بھی گیا”۔ہے نا چونکا دینے والی بات۔ خیر آج کل جھوٹ کو سچ کی طرح کہنے کا رواج تو پوری دنیا میں عام ہے۔ اب اگر مودی جی نے ایسی بات کہہ دی تو کون اس کی تفتیش کرے۔ممکن ہے نریندر مودی ان دنوں ڈھاکہ میں مقیم تھے اور مجیب الرحمٰن کے ساتھ مکتی باہنی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوں۔ تبھی تو انہوں نے ستیہ گرہ اور جیل جانے کی بات کہہ ڈالی۔

لیکن تھوڑی دیر کے لیے سوچئے۔ کیا مودی جی جب  بیس بائیس برس کے تھے تو واقع انہوں نے ستیہ گرہ کیا تھا اور جیل گئے تھے؟ یہ باتیں عجیب و غریب لگ رہی ہیں۔ صرف مجھے ہی نہیں ان لوگوں کو بھی جنہوں نے تاریخ کا مطالعہ بھی کیا ہے اور ان لوگوں کو بھی جنہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کو دیکھا اور سنا بھی ہے۔تھوڑی دیر کے لیے ہم مان لیں کہ مودی جی نے ستیہ گرہ کیا اور جیل گئے تو کیا گجرات میں پاکستان کی حکومت تھی؟ جو مودی جی کو بنگلہ دیش کی آزادی یا مکتی باہنی تحریک کے جرم میں جیل میں ڈال دیا تھا؟  جب ہندوستان بنگلہ دیش کی حمایت میں مکتی باہنی تحریک کی حمایت کر رہا تھا اور اپنی فوج کی مدد سے پاکستان سے جنگ لڑ رہا تھا تو کیوں 20 سالہ نوجوان نریندر مودی کو بنگلہ دیش تحریک کے لیے جیل جانا پڑا۔کہیں مودی جی نے تاریخ کا بنامطالعہ کئے گاندھی بننے کا خواب دیکھ رہے ہوں؟ یا ممکن ہے مودی جی مکتی باہنی تحریک اور بنگلہ دیش بننے کے خلاف ہوں؟ ہو گئے نا آپ بھی میری طرح حیران و پریشان ہیں۔ دراصل جھوٹ بولنے کے بھی آرٹ ہوتے ہیں۔

ان دنوں ہندوستان کی ریاست مغربی بنگال میں الیکشن ہورہے ہیں اور اس موقع پر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ” 2019کے لوک سبھا الیکشن میں جب ایک بنگلہ دیشی اداکار نے ہماری ریلی میں شرکت کی تو بی جے پی نے بنگلہ دیش حکومت سے بات کی اور ویزا منسوخ کر دیا۔ جب یہاں پولنگ جاری ہے تو وزیر اعظم مودی لوگوں کی ایک حصے سے ووٹ مانگنے بنگلہ دیش جاتے ہیں “۔ ممتا بنرجی نے انتخابی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ” کیا وزیر اعظم کا ویزا منسوخ نہیں کیا جائے گا؟ ہم الیکشن کمیشن کو اس کی شکایت کریں گے”۔

 سچ یہ ہے کہ بنگلہ دیش بنانے میں ہندوستانی حکومت اور اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اہم رول نبھایا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی جنگ میں سابق ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا سیاسی اور ذاتی کردار ملکی تاریخ سے الگ نہیں ہے۔بنگلہ دیش کی سیاست میں بہت سے اتار چڑھاؤ کے باوجود، سابقہ مشرقی پاکستان کے عوام کی غیر متزلزل حمایت کرنے والی اندرا گاندھی کو اس کے عوام نے بہت پسند کیا ہے۔لیکن ان کے کردار کو کبھی بھی سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔

1947 میں تقسیم ہند کے فوراً بعد ہی پاکستان مخالف جذبات منظر عام پر آنے لگے۔1970میں پاکستان میں ہونے والے پہلے عام انتخابات میں، لوگوں نے بھاری اکثریت سے عوامی لیگ اور اس کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کو ووٹ دیا۔ تاہم مغربی پاکستان کے کچھ سیاسی رہنمامجیب الرحمٰن کی حیرت انگیز رائے شماری کی فتح سے گھبرا گئے اور فوج کی مدد سے بنگالیوں کی بغاوت کو کچلنے کا فیصلہ کیا۔25مارچ 1971کو ڈھاکہ میں خاص طور پر طلبہ، بنگالی پولیس اور نیم فوجی دستوں پر وحشیانہ کارروائی شروع کی گئی۔جس نے مکتی باہنی تحریک میں شدت پیدا کردی۔مجیب الرحمٰن کو اقتدار  نہ دینے سے عوامی مزاحمت کا ایک حیرت انگیز مظاہرہ بھڑک اٹھا۔ جس نے آخر کار ایک مکمل پیمانے پر جنگ کی صورت اختیا کر لی اور ہندوستان نے موقع  غنیمت کو دیکھتے ہوئے مجیب الرحمٰن کی حمایت کی اور پاکستان سے جنگ کا اعلان کر دیا۔26 مارچ 1971کو پاکستانی فوج کی طرف سے گرفتاری سے قبل شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان کی آزادی کا اعلان کیا اور اپنے لوگوں سے کہا کہ وہ تب تک لڑیں جب تک کہ آخری پاکستانی فوجی  بنگلہ دیش سے بے دخل نہ کردیا جائے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بنگالی زبان کی محبت اور پاکستانی حکومت کی زور زبردستی نے مکتی باہنی تحریک کو ہوا دی۔ اندرا گاندھی کی قیادت میں، ہندوستان نے تقریباً دس لاکھ افراد کو پناہ، کھانا اور دوائیں مہیا کیں جو اپنے گھروں سے بھاگ کر مغربی بنگال، تریپورہ، میگھالیہ اور آسام پہنچ کر اپنی جان بچائی تھی۔نو ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کے اختتام پر بنگلہ دیش کو دنیا کے نقشے پر  ابھرا۔ ان تمام باتوں میں ایک بات بالکل ہی بھلا دی گئی ہے،  وہ ہے بنگلہ دیش میں اردو بولنے والوں کے لئے انصاف جو کہ اس جنگ میں محض اردو بولنے کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔ لاکھوں اردو بولنے والے 1947 کی آزادی کے بعد  بنگلہ دیش میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ 1971 کی جنگ میں مکتی باہنی والوں نے ان کا قتل  عام کیا تھا۔ اس معاملے کی آج تک نہ ہی بنگلہ دیش کی حکومت نے انکوائری کرائی ہے اور نہ ہی عالمی برادری نے اس معاملے پر کوئی بحث کی ہے۔ مانا جا تا ہے کہ اُس وقت اردو بولنے والوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کیا گیا  اور بڑے پیمانے پر عورتوں کی عزت لوٹی گئی تھی۔

 لندن کی ایک تنطیم ’انجمن نو‘ جس کے زیادہ تر ممبران کا تعلق ہندوستان کے صوبہ بہار سے ہے اس کے صدرخورشید اعلا نے مجھے بتایا کہ 1971 کی جنگ میں  ان کے خاندان کے  اکیس افراد  قتل ہوئے تھے۔ کچھ سال قبل جب انہوں نے ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا تو ا نہیں ان لوگوں سے ملاقات کر کے بہت دکھ پہنچا تھا جو  رفیوجی کیمپ میں رہ رہے ہیں۔انہوں نے اردو بولنے والے ہزاروں رفیوجیز سے ملاقات کی اور ان کی حالت بہت بد تر بتائی اور یہ بھی کہا کہ اب تو وہ لوگ اردو بھی نہیں بولتے ہیں۔ اب وہ بنگلہ زبان کا استعمال کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا واحد ملک بنگلہ دیش ہے جس کا قیام زبان پر ہوا تھا۔خیر بنگلہ دیش بن چکا ہے اور اب تو اس کی عمر بھی پچاس برس ہوگئی ہے۔ لیکن بنگلہ دیش کے بننے کے بعد بھی ہندوستان اور پاکستان کے مابین تناؤ  روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اس موقع پر پڑوسی ملکوں سے دوستی مضبوط کرنے کا پیغام جاری کرتے تو شاید بر صغیر میں  کشیدگی میں کچھ کمی ہوتی۔

Leave a Reply