You are currently viewing بابا،اساتذہ، یوگا اور جنسی استحصال

بابا،اساتذہ، یوگا اور جنسی استحصال

بچپن میں اسکول میں یوگا  کلاس سے میرا دم نکلتا تھا۔ ایک تو جسم کو توڑ موڑ کر یوگا کرنا اور دوسرے کلاس کے مانیٹر کی سختی، جس کے خوف سے یوگا سے میری دلچسپی بالکل ختم ہوگئی۔ پھر بھی اسکول میں اچھے رزلٹ اور کھیل کود میں دلچسپی کی خاطر کسی طرح ایک گھنٹے کا یوگا کرنا بحالتِ مجبوری میرے لئے صرف ضروری نہیں بلکہ صحت کے لئے بھی اہم تھا۔

ان دنوں یوگا کسی مذہب، سیاست اور قوم سے منسلک نہ  تھا۔ بس ہمیں اسکول میں یوگا کرنے کے فوائد بتائے جاتے تھے اور بڑے بڑے ٹنگے ہوئے چارٹ دیکھ کر ہمیں بھی تصویروں جیسے پیر اور ہاتھ کو موڑ ماڑ کر کرنا ایک محض تفریح کا سامان لگتا تھا۔لیکن  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس ہونے لگا کہ یوگا دراصل ایک خاص مذہب سے جڑی ہوئی ورزش ہے۔ جس کے رہنما ایک خاص پارٹی کے لوگ اور بابا و گرو ہیں۔ پھر فلم کی دنیا سے جڑے لوگوں نے یوگا کر کے لوگوں میں جہاں اچھی صحت کی بیداری پیدا کی تو وہیں غیر ممالک کے معروف شخصیتوں نے اس پر کریم لگا کر یوگا کو عام آدمی سے دور کر کے اسے رئیسوں کے گھر کی زینت بنا دیا۔جس کا فائدہ اور نقصان یہ ہوا کہ رئیس  کثیر رقم ادا کر کے یوگا سیکھنے اور کرنے لگے تو  غریب اپنی کٹیا میں سر نیچے کر کے اپنی غربت کو نچلی سطح سے دیکھنے لگے۔

اب تو برطانیہ سمیت دنیا بھر میں یوگا کے سینٹر کھل گئے اور ہر کسی پر یوگا کا ایسا بخار چڑھا ہے کہ لوگ ہر روز نہیں تو ہفتے میں ایک دن یوگا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ویسے یوگا ہندوستان کے عام آدمی کے ہاتھوں سے نکل کر پوری دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنا چکا ہے۔ اسی کے ساتھ بابااور گرو کی دکان بھی چمکنے لگی۔ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں یوگا گرو کی مانگ ایسی بڑھی کہ مت پوچھئے۔لمبی لمبی داڑھیوں کے ساتھ یوگا گرو ٹیلی ویژن سے لے کر راستے میں دکھنے لگے۔پھر ہندوستانی وزیر اعظم کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ انہوں نے تو یوگا کو قومی سطح پر اتنا پرچار کیا کہ اب ہر سال ہندوستان سمیت کئی ممالک میں ہندوستانی ’یوگا دیوس‘ منانے لگے ہیں۔ ویسے بات یہ بری بھی نہیں۔ بس مجھے اس بات کا کھٹکا ہے کہ یوگا جیسی مفید اور منفرد ورزش کو سیاست اور مذہب سے جوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔خیر اب تو یوگا خدو خال اور رکھ رکھاؤ کا زینہ طے کرتے ہوئے اتنی اونچائی پر جاچکا ہے کہ اس میں ملوث گرو اور بابا دولت مند ہوچکے ہیں اور جنسی استحصال عام ہوچکا ہے۔

ویسے آپ کو بابا رام دیو تو یاد ہیں نا! بھائی جن کی ایک آنکھ بنا یوگا کے کمزور اور ادھ کھلی رہتی ہے۔اس کے علاوہ وہ یوگا گرو کم اور جوکر زیادہ نظر آتے ہیں۔جس سے آپ اور ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ مثلاً ایک بار جب وہ گرفتار ہوئے تو خواتین کی لباس پہن کر فرار ہو گئے۔اس کے علاوہ ان کی طرح طرح کی باتیں جو ہمیں ہنسا ہنسا کر پیٹ  میں بل ڈال  دیتی ہے۔اب تو بابا رام دیو ایک خاص پارٹی کی پشت پناہی پاتے ہوئے بابا ارب پتی بن چکے ہیں۔

حال ہی میں بی بی سی کی ایک رپورٹ سے یہ پتہ چلا کہ یوگا کی آڑ میں جنسی استحصال اور زیادتی کا بازار عام اور خوب گرم ہے۔ بی بی سی کی صحافی ایشلین کاور جو یوگا کی دیوانی اور ٹیچر تھیں اور دنیا کی معروف ادارہ شیوانندا سے جڑی تھیں۔ ایشلین کور کی نظر سے ایک پریشان کن پوسٹ سوشل میڈیا پر سامنے آئی جس کے بعد انہوں نے کئی دہائیوں پر محیط جنسی استحصال کے متعدد  انکشاف کئے۔ایشلین کور کا کہنا ہے کہ بہت سے عقیدت مندوں یوگیوں کی طرح، یوگا صرف میرے ورزش کی کلاس نہیں تھی، بلکہ یوگا زندگی گزارنے کا ایک طریقہ تھا۔شیوانند اکی تعلیمات نے میرے وجود کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے‘۔ایشلین کور مزید کہتی ہیں کہ ’لیکن دسمبر 2019میں مجھے اپنے فون پر ایک اطلاع موصول ہوئی جو شیو انند اکے بانی، سوامی وشنودیو انند اکے بارے میں تھا۔ جولی سالٹر نامی ایک کینیڈا کی خاتون  کی ایک پوسٹ تھی۔ جس میں لکھا تھاکہ لگ بھگ تین سال وشنو دیوانند انے اس کا جنسی استحصال کیا تھا۔آخر کار جولی کو جب حوصلہ ملا تو اس نے اس بات کو پوسٹ پر لکھ کر اپنے دُکھ کا اظہار کیا جس سے اس کے ذہنی تناؤ میں کمی آئی۔

جولی لکھتی ہیں کہ 2015میں اس نے ایک شخص سے شادی کی جو لندن میں رہ رہا تھا۔ اس کے ساتھ رہتے ہوئے جولی نے اسے  پریشان کر دیاتھا۔ یہاں تک کہ جب پتہ چلا کہ جولی کے نئے گھر سے قریب پٹنی میں ایک شیونندا مرکز موجود ہے۔تو اس کے شوہر نے اسے   مذاق سے کہا کہ’شیونندا مرکز ہی تمہاری پہلی محبت ہے‘۔ اصل میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی جولی جب 20سال کی تھی تب وہ سب سے پہلے شیوانندا کی تعلیمات سے متاثر ہوئی تھی۔وہ تیزی سے اس تحریک کی زندگی میں غرق ہوگئی اور 1978میں کینیڈا کے ہیڈ کواٹر میں منتقل ہوگئی۔اس وقت وشنوانندا وہیں مقیم تھے اور جولی سے ان کا ذاتی معاون بننے کے لئے کہا گیا۔ جسے وہ ابتدا میں ایک اعزاز سمجھتی تھی۔ایک دن جب جولی وشوانندا کے گھر پر کام کر رہی تھی تو اس نے جولی کو اپنے پاس لیٹ جانے کو کہا۔ جولی نے کہا اسے سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ تو وشوانندا نے کہا ’اتانتر یوگا‘۔ ایک ایسا یوگا مشق جو روحانی، جنسی تعلقات سے متعلق ہوگیا ہے۔ جولی  وشوانندا کی بات کو مانتے ہوئے اس کے بغل میں لیٹ گئی اور اس طرح ان دونوں کے بیچ جنسی رابطہ قائم ہوا۔ جولی کا کہنا ہے کہ وہ تین سال سے زیادہ عرصے سے مختلف جنسی حرکتوں پر مجبور تھی۔

ایشلین کور نے اب تک 14خواتین سے اس سلسلے میں انٹرویولیا ہے جنہوں نے شیوانندا سینٹرکے سنئیر اساتذہ کے ہاتھوں بدسلوکی کا الزام لگایاہے۔ایشلین کور کی تحقیقات نے اس تنظیم کے زور اور اثر ورسوخ کے غلط استعمال کے دعوؤں کو بے نقاب کیا ہے۔ایشلین کور لکھتی ہیں کہ سوامی وشنو دیوانندا کی تعلیمات اتنی طاقت ور تھیں کہ بہت سارے یوگیوں نے تمام دنیا وی روابط ترک کر دئیے اور اپنی زندگی اس تنظیم کے لئے وقف کر دی۔لوگوں نے سوامی کے متعلق ایسے خیالات ظاہر کئے جو حیران کن تھے۔ جیسے لوگوں نے لکھا کہ آشرم میں سکون ملا، جسمانی طاقت بخشی، شیوانندا کے کرما دیکھے، مثبت سوچ اور مراقبہ کے اصولوں نے ان کے روح کو پروان چڑھایا۔

شیوانندا ایک کلاسیکل یوگا کی شکل ہے جو جسمانی او ر روحانی تندرستی کو فروغ دیتا ہے۔1959میں کینیڈا کے مونٹریال میں سوامی وشنودیوانندا نے یوگا سینٹر قائم کیا تھا اور اپنے گرو سوامی شیوانندا کے نام پر اسے ر کھا تھا۔ دنیا بھر کے 35ممالک میں 60کے قریب شیوانندا آشرم اور مراکز ہیں اور تقریباً50000یوگاتربیت یافتہ اساتذہ ہیں۔ حالیہ برسوں میں متعدد دوسرے اعلی اور معروف یوگا گرووں پر ان کے منصب کو غلط استعمال کرنے کا الزام لگ چکا ہے۔ جن میں بکرم چوہدری، پتابھی جوائس، اور بھگوان رجنیش کے نام شامل ہیں۔

حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ یوگا گرو یا دیگر شعبوں کے اساتذہ کے جنسی استحصال کی داستان صرف مغربی ممالک میں ہی سنی جاتی ہیں یا وہ سبھی مغربی خواتین ہوتی ہیں۔ مجھے علم ہے کہ جنسی استحصال کا یہ سلسلہ ہندوستان میں بھی عام ہے۔میں نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ ہندوستان کی کئی طالبات سے بات چیت کی ہے جنہیں تعلیم کے دوران ان کے استاد جنسی استحصال کے لئے مجبور کرتے ہیں۔ تاہم وہ خاندانی، سماجی، مذہبی اور بدنامی کی وجہ سے بات کرنے یا ان کے خلاف شکایت کرنے سے گھبراتی ہیں۔

آج میں نے یوگا کے متعلق ان باتوں کو لکھنا ضروری سمجھا ہے جس کی آڑ میں بابا، گرواور اساتذہ نے اپنی جنسی ہوس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر نہ جانے کتنی معصوم خواتین کا جنسی استحصال کیا ہے۔جس کی پردہ پوشی بھی ہے اور جو سماجی دباؤ کی وجہ سے کہیں پوشیدہ بھی ہے۔تاہم جولی کے پوسٹ سے لاکھوں خواتین کو حوصلہ ملے گا اور وہ جولی کی طرح آگے آ کر ان بابا اور اساتذہ کا پردہ فاش کرے گی جنہیں بابا اور اساتذہ اپنی جال میں پھنسا کراپنی جنسی پیاس بجھاتے رہے۔

Leave a Reply