You are currently viewing برطانیہ کا پوسٹ آفس اسکینڈل

برطانیہ کا پوسٹ آفس اسکینڈل

اعتماد نہ صرف ہمیں دھوکہ دہی کا احساس دلاتا ہے، بلکہ اعتماد کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ اعتماد میں خیانت کیا ہے یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اعتماد کس طرح قابل بھروسہ شخص کی طرف سے بطور خاص طور پر قابل اعتماد کام کرنے کی ذمہ داری کو بنیاد بنا سکتا ہے۔

برطانیہ میں ان دنوں پوسٹ آفس اسکینڈل خبروں کی سرخیاں بنی ہوئی ہے۔ آئی ٹی وی ڈرامہ مسٹر بیٹس بمقابلہ پوسٹ آفس کے بعد ان کا معاملہ دوبارہ روشنی میں آگیا ہے۔ پوسٹ آفس اسکینڈل کے متاثرین کو حکومت کی طرف سے فوری معافی اور معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ کئی سال قبل900سے زائد کارکنوں کے خلاف کارروائی کی گئی جب ناقص سافٹ وئیر کو غلط طریقے سے  استعمال ہونے پرایسا لگتا تھا کہ ان کی شاخوں سے رقم غائب ہے۔

دراصل پوسٹ آفس اسکینڈل کیا ہے؟ برٹش پوسٹ آفس اسکینڈل انصاف کا اسقاط ہے جس میں 1999 سے 2015کے درمیان 900سب پوسٹ ماسٹرز کے خلاف چوری، جھوٹے اکاؤنٹنگ اور دھوکہ دہی کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا جب ان کی برانچوں میں کمی در حقیقت پوسٹ آفس کے ہورائیزن اکاونٹنگ سافٹ وئیر کی غلطیوں کی وجہ سے تھی۔ جسے برطانوی وزیراعظم  رشی سونک نے “ہماری قوم کی تاریخ میں انصاف کے سب سے بڑے اسقاط میں سے ایک”کے طور پر بیان کیا۔ 2019میں ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ہورائزن سسٹم ناقص تھا اور 2020میں حکومت نے پبلک انکوائری قائم کی۔ عدالتوں نے 2020سے سزاؤں کو منسوخ کرنا شروع کیا۔ 2024تک کچھ متاثرین اب بھی اپنی سزاؤں کو کالعدم کرنے اور معاوضہ حاصل کرنے کے لیے اپنے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ عوامی انکوائری جاری ہے اور میٹروپولیٹن پولیس پوسٹ آفس سے ممکنہ دھوکہ دہی کے جرائم کی تفتیش کر رہی ہے۔

اس واقعہ کے بعد کچھ لوگ جھوٹے حساب کتاب اور چوری کے جرم میں جیل گئے۔بہت سے لوگ مالی طور پر تباہ ہوگئے تھے۔ حالانکہ انہوں نے سافٹ وئیر کے ساتھ مسائل کو بار بار اجاگر کیا تھا۔ بیس سال کے بعد، مہم چلانے والوں نے اپنے مقدمات پر دوبارہ غور کرنے کے لیے قانونی جنگ جیت لی۔ اب تک صرف 93سزاؤں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ حکومتی منصوبوں کے تحت، متاثرین ایک فارم پر دستخط کر سکیں گے کہ وہ بے قصور ہیں  تاکہ ان کی سزا کو ختم کیا جاسکے اور معاوضے کا دعویٰ کیا جاسکے۔

یہ بھی بات زیرِ بحث ہے کہ کیا پوسٹ آفس کی سزاؤں کو ختم کرنے کی اسکیم کام کر سکتی ہے۔ وزیراعظم کی آفس ڈاؤننگ اسٹریٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پولیس ہیڈ کواٹر اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے ساتھ مل کر کام کرے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان ممالک میں غلط الزام لگائے گئے متاثرین کو بھی بری کیا جاسکے۔فی الحال میٹروپولیٹن پولیس ممکنہ دھوکہ دہی کے جرائم پر پوسٹ آفس کی تفتیش کر رہی ہے۔فروری 2021میں ایک عوامی انکوائری شروع ہوئی جس سے متاثرین اب بھی مناسب ازالے اور جوابدہی کے خواہاں ہیں۔

1999میں ہورائیزن نے پوسٹ آفس کو فوزیتسو کمپیوٹرسسٹم متعارف کرایا تھا۔ یہ نظام جاپانی کمپنی فوزیتسو نے اکاونٹنگ اور اسٹاک ٹیکنگ جیسے کاموں کے لیے تیار کیا تھا۔سب پوسٹ ماسٹر ز نے سسٹم میں وائرس کے بارے میں شکایت کی جب اس نے غلط طور پر کمی کی اطلاع دی جس میں ہزاروں پونڈ کا گھپلا تھا۔ کچھ اسٹاف نے اپنے پیسوں سے اس خلا کو پورا کرنے کی کوشش کی کیونکہ ان کے معاہدوں میں کہا گیا تھا کہ وہ کسی بھی کمی کے ذمہ دار ہیں۔ بہت سے لوگوں کو دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑا یا اس کے نتیجے میں اپنی روزی روٹی کھو بیٹھے۔ہورائزن سسٹم اب بھی پوسٹ آفس کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے جو تازہ ترین ورژن  کے مضبوط طریقے سے کام کرتا ہے۔

اس واقعہ کے بعد بہت سے سابق سب پوسٹ ماسٹرز اور سب پوسٹ ماسٹریس اس اسکینڈل سے ان کی زندگیاں برباد کر دیں۔ بہتوں کی شادیاں ٹوٹ گئیں اور کچھ خاندانوں میں تناؤ کی وجہ سے صحت کی صورت حال کافی خراب ہے اور بہت ساروں کی قبل از وقت موت واقع ہوگئی۔مجموعی طور پر 4000سے زیادہ لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ معاوضے کے اہل ہیں۔ اس میں تین الگ الگ اسکیمیں کام کر رہی ہیں۔ گروپ لٹیگیشن آرڈر اسکیم 555سابق پوسٹ ماسٹرز کے لیے ہے جنہوں نے ایک گروپ مقدمہ دائر کیا اور قانونی اخراجات کی ادائیگی کے بعد نسبتاً کم ادائیگی حاصل کی۔ اب انہیں 75000 پاؤنڈکی پیشگی ادائیگی کی پیشکش کی جائے گی۔ لیکن تقریباً دو تہائی سے توقع ہے کہ وہ اس پیشکش کو ٹھکرا دیں گے اور مزید رقم کے لیے آگے بڑھیں گے۔

جن 93سزاؤں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان میں سے صرف 30لوگوں نے مکمل اور حتمی تصفیے پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن جب حکومت کا وعدہ کیا گیا قانون اسکینڈل سے منسلک تمام سزاؤں کو کالعدم کرنے کے لیے ایک حقیقت بن جائے گا تو مزید سینکڑوں لوگ اس کے اہل ہوں گے۔ پوسٹ آفس کی سابق چیف ایگزیکٹو پاؤلا وینیلز نے شدید تنقید کا نشانہ بنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک ملین سے زائد دستخطوں کے جمع ہونے کے بعد اپنا سی بی ای خطاب جو کہ برطانوی شاہی خاندان سے انہیں دیا گیا تھا اسے وہ واپس کر دیں گی۔وہیں لب ڈیم کے رہنما سر ایڈ ڈیوی ان متعدد سیاست دانوں میں شامل ہیں جنہیں کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کیونکہ وہ مخلوط حکومت میں ڈاک کے امور کے وزیر تھے۔ فی الحال وہ افسوس ظاہر کر رہے ہیں اور کہا کہ جو کچھ ہوا وہ خوفناک ہے۔

پوسٹ آفس اسکینڈل نے برطانوی سیاست میں ایک بھونچال سا لا دیا ہے جہاں پوسٹ آفس اسٹاف کے علاوہ عام آدمی بھی اس اسکینڈل سے دم بخود ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کے کیا نتائج سامنے آئیں گے۔  فی الحال ہائی کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں ایک آزاد عوامی انکوائری پوسٹل ورکرز، حکومت، پوسٹ آفس، فوجیتسو اور دیگر سے شواہد اکٹھا کر رہی ہے۔ انکوائری اس سال کے آخر میں مکمل ہونے کی امید ہے۔تاہم پوسٹ آفس اسکینڈل سے تباہ و برباد ہونے والے پوسٹ ماسٹراور ان کی فیملی کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی ان تمام باتوں کے بعد کیسے انہیں واپس ملے گی۔

Leave a Reply