You are currently viewing کیمبرج یونیورسٹی سے زارا فہیم کا ایم فل

کیمبرج یونیورسٹی سے زارا فہیم کا ایم فل

دنیا بھر میں کئی معروف یونیورسٹیاں ہیں جس کی مثالیں آج تک لوگ دیتے رہتے ہیں۔ جن میں ایک اہم یونیورسٹی کیمبرج بھی ہے۔جہاں سے آج بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے برطانوی سیاستدانوں سے لے کر ریسرچ اسکالر اور نوبل انعا م یافتہ دنیا بھر میں نام کما رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزوں نے اب تک برطانیہ کے تعلیمی معیار اوراس کے رکھ رکھاؤ میں کوئی سمجھوتہ  نہیں کیا، تبھی تو آج بھی ہزاروں طلبا دنیا بھر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے برطانیہ کے مختلف یونیورسٹی آتے ہیں اور یہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے یا تو وہ اپنے ملکوں میں  نام روشن کرتے ہیں یا برطانیہ یا دیگر ممالک میں رہ کر اپنی قابلیت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہیں۔

اب اسے آپ میری خوش قسمتی کہیے یا محض اتفاق جب ہماری صاحبزادی زارا فہیم نے برمنگھم یونیورسٹی سے لسانیات میں فرسٹ کلاس سے نمایاں کامیابی حاصل کرکے کیمبرج یونیورسٹی سے لسانیات میں ایم فل مکمل کیا۔ظاہر  سی بات ہے یہ لمحہ فخرصرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ قوم و ملت کے لئے بھی ہے۔21 جولائی کی صبح سات بجے ہم اپنی بیگم ہما سید کے ہمراہ کیمبرج کے لئے روانہ ہوئے۔گاڑی سے یہ سفر لگ بھگ دو گھنٹے کا تھا لیکن ٹرین اسٹرائک کی وجہ سے موٹر وے پر ٹریفک معمول سے زیادہ تھا۔ جس سے گاڑی سست رفتاری سے چلانے پر مجبور تھا اور جس کی وجہ سے ہماری مسافت طویل ہوگئی اورہم دو گھنٹے کی بجائے لگ بھگ تین گھنٹے میں کیمبرج پہنچے۔

کیمبرج پہنچتے ہی زارا نے ہمارا استقبال کیا اور اپنے ہاسٹل جاکر گریجیویشن میں شرکت کے لئے اپنی ماں کی مدد سے گاؤن پہنا اور ایم فل کے ان طلبا میں شامل ہوگئیں جنہیں سینٹ جان کالج سے روایتی طور پر سینَٹ کی عمارت تک جاتا تھا جہاں رشتہ داروں کی موجودگی میں گریجویشن کی تقریب میں شامل ہونا تھا۔

کیمبرج یونیور سیٹی کا سینَٹ ہال طلبا کے عزیز و اقارب سے بھرا ہوا تھا اور ایک خاص کرسی پر یونیورسٹی کی ڈپٹی وائس چانسلر  مسکراہٹ کے ساتھ براجمان تھیں۔سینَٹ ہال کی  شان و شوکت کو دیکھ کر ہمیں نہ جانے کیوں مغل اعظم فلم  میں  اکبر کا دربار یاد آنے لگا۔ اسی طرح دائیں اور بائیں خاص کپڑوں میں ملبوس کھڑے ایک خاتون اور شخص اپنے ہاتھ میں چاندی کی موٹی چھڑی تھامے باری باری آوازیں لگا رہے تھے۔ سینَٹ ہال میں موجود طلبا کے عزیز و اقارب خاموشی سے گریجویشن کی تقریب کالطف اٹھا رہے تھے۔ باری باری چار یا پانچ طلبا کا نام پکارا جاتا۔  نام پکارنے والے شخص جو کہ گاؤن اور گریجویشن ٹوپی پہنے اپنا ہاتھ بڑھاتا اور یہ طلبا اس شخص کا ہاتھ پکڑ کر اس کی لاطینی زبان میں (شاید کیمبرج یونیورسٹی کے عہد نامے کو پڑھتا) اس کے بعد ایک کے بعد ایک طالب علم ڈپٹی وائس چانسلر کے سامنے گھٹنوں پر بیٹھ کر ان کے دونوں ہاتھوں کو تھامے لاطینی زبان میں ان کی بات کو سنتا اور اپنی ڈگری لے کر کمرے سے باہر چلا جاتا۔

برطانیہ کی آکسفورڈ اور کیمبرج دو ایسی یونیورسیٹیاں ہیں جن کا نام ذہن میں آتے ہی انسان یہی سوچتا ہے کہ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا ایک اعلیٰ اور ذہین لیاقت کے مالک ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے کیونکہ برسوں سے ان قدیم یونیورسیٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے ہونہار طالب علموں نے اپنے اپنے شعبے میں نام روشن کر کے اس بات کو ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان یونیورسیٹیوں نے اب تک اپنے تعلیمی معیار کو برقرار رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اب بھی ان یونیورسیٹیوں میں داخلہ لینا آسان نہیں ہو تا ہے۔ دونوں یونیورسیٹیوں کی عمارتیں اور اس کے فیکلٹی کو دیکھنے کے لئے ہر سال ہزاروں لوگ دنیا بھر سے آتے ہیں۔

ویسے تو آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد کی تاریخ کہیں نہیں ملتی ہے لیکن کہا جاتاہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھانے کا باقاعدہ آغاز 1096 میں شروع ہو ا تھا۔ جبکہ کیمبرج یونیورسٹی کی بنیا د 1209 میں رکھی گئی تھی۔ ان دونوں یونیورسیٹیوں نے قیام سے لے کر اب تک اپنے تعلیمی معیار کو کیسے بر قرار رکھا ہے یہ ایک قابل ِ غور بات ہے۔ تاہم ایک بات تو سچ ہے کہ دنیا کی تمام یونیورسیٹیوں کے مقابلے میں ان دونوں یونیورسیٹیوں نے اپنے تعلیمی معیار اور وقار کو ریسرچ اور تجربہ سے قائم و دائم رکھا ہے۔

کیمبرج یونیور سٹی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا بھر میں اپنی تدریس اور تحقیق کی فضیلت اور اپنے گریجویٹس کے معیار کے لیے جانی جاتی ہے۔ 140سے زیادہ ممالک کے لگ بھگ  19000سے زیادہ طلبا یہاں ہر سال تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔کیمبرج یونیورسٹی کا مشن ہے کہ” اعلیٰ ترین بین الاقوامی سطح پر تعلیم،سیکھنے اور تحقیق کے حصول کے ذریعے معاشرے میں اپنا حصہ شراکت کرنا ہے”۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ انگلینڈ کے سب سے زیادہ وزیر اعظم، سینئر جج، سرکاری ملازمین اور میڈیا کے معروف لوگوں کا تعلق آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسیٹیوں سے رہا ہے۔جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان یونیورسیٹیوں میں داخلہ لینا کیوں مشکل ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان یونیورسیٹیوں نے تعلیم کے معیار کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے داخلے کے سسٹم پر پورا زور دیا ہے۔ تبھی تو ان یونیورسیٹیوں سے زیادہ تر طلباء ملک کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیور سٹی  اعلیٰ اور معتبر یونیورسیٹیاں ہیں۔ جس کی مثال شاید دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے جس یونیورسیٹی کے طلباء دنیا بھر میں اپنی ذہانت اور لیاقت سے اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے ہمیں اور آپ کو کوئی انکار نہیں ہے۔ لیکن ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ان یونیور سیٹیوں میں سماج کے ایسے طبقے کے بچّوں کا داخلہ ہو رہا ہے جن کے ماں باپ یا تو دولت مند ہیں یا اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔لیکن مجھے اس بات سے بھی دُکھ ہورہا ہے کہ سماج کے ان طبقوں کے بچّے جن کے ماں باپ معاشی بدحالی کے شکار ہیں اور جو پیشہ سے معمولی ملازم ہیں۔ جنہیں شاید اسی بات سے آکسفورڈ اور کیمبرج میں داخلہ نہیں مل پارہا ہے۔ جو کہ سماجی طبقات اور مساوات کے لئے ایک افسوس ناک بات ہے۔تاہم آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسیٹیوں میں اقلیتی طبقہ کے طالب علموں کی بھی کمی پائی جاتی ہے جو کہ یہ بات اب زیرِ بحث ہے۔

عام طور پرعلم اور تہذیب کا بھر پور مظاہرہ ہم نے بیشتر انگریزوں میں پایا ہے۔اگر ہم اس کی مثال یوں دیں کہ برطانیہ کی ٹرین اور بسوں میں اکثر لوگ اپنے کتے کے ساتھ سفر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ کیا مجال کہ کتے لوگوں پر بھونکتے ہو ں یا دوسرے مسافر کو پریشان کرتے ہوں۔ بلکہ ہمیں تو دیکھ کر یہ حیرانی ہوتی ہے کہ کتے بڑی تہذیب سے اپنے مالک کے ساتھ عام لوگوں کے بیچ خاموشی سے بیٹھے اپنی منزل کو طے کرتے ہیں۔کتوں کی تہذیب اور شرافت کو دیکھ کر یہاں یہ تمیز کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ بھیڑ میں کتے بھی انسانوں کے ساتھ اتنے مہذب طریقے سے رہ سکتے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ ان کتوں کی تربیت اس تہذیب یافتہ مالک سے ہوئی ہے جو لوگوں کودیکھ کربھونکنے کی بجائے عام لوگوں کی طرح خاموشی سے ٹرین اور بسوں میں بیٹھا رہتا ہے۔جب کہ دیگر ممالک اور خاص کر برصغیر میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے جہاں کتے اکثر بھونکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ کتے بھی ماحول اور برتاؤ سے عاجز  ہیں۔

کیمبرج یونیورسٹی میں زارا فہیم کے گریجیویشن تقریب اپنی آن بان  سے اختتام کو پہنچی اور ہم تما م مہمانوں کے ساتھ مخصوص  لنچ کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے لندن کے لئے نکل پڑے اور شام سات بجے تھکے ہارے لندن لوٹ آئے۔

Leave a Reply