You are currently viewing آخر عوام کریں تو کیا کریں

آخر عوام کریں تو کیا کریں

پچھلے کئی مہینے سے دنیا کی نظر پاکستان کے عام انتخاب پر لگی ہوئی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ لوگوں کو دیکھنا تھا کہ کیا تحریکِ انصاف پارٹی جیت کر حکومت بنا پائے گی۔ تو دوسری طرف میاں نواز شریف کا بھی سیاسی کیرئیر داؤ پر لگا تھا۔

 ویسے بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں میاں نواز شریف بڑے ہی بد قسمت وزیراعظم رہے ہیں۔ وہ جب بھی وزیراعظم بنے، انہیں اپنے معیاد کو مکمل کرنے سے قبل ہی ملک چھوڑ کر کسی اور ملک میں پناہ لینی پڑی۔ بیچارے میاں نواز شریف جب عمران خان وزیراعظم بنے تو عدالتی کارروائی کے خوف سے بیماری کا بہانہ بنا کر لندن آگئے اور علاج کیا کرواتے کئی سال یہیں خیمہ گاڑ کر پڑے رہے۔ تاہم جوں جوں وقت گزرتا رہا، میاں نواز شریف نے اپنی طاقت اور سیاسی تجربے کی بنا پر پاکستان کی سیاست پر اپنی نظریں جمائے مداری کا کھیل دکھاتے رہے۔ لندن میں مسلسل عمران خان کے حامی ان کے گھر کے پاس احتجاج کیا لیکن میاں نواز شریف پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا۔

عدالت سے لے کر فوجی افسران تک  نے وہ چالیں چلیں کہ لندن میں آرام کرتے ہوئے میاں نواز شریف با عزت پاکستان پہنچ گئے جبکہ عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا۔بس یوں لگا کہ سارا کھیل تیار ہے اور اسے اسٹیج پر پیش کرنا رہ گیا تھا۔مشکلات کا سامنا تو بیچارے پاکستانی عوام کو کرنا پڑ رہا تھا۔ جو عمران خان کے حمایتی تھے انہیں ہر طرح سے ڈرا دھمکا کر چپ کرانے کی کوشش کی گئی اور بہتوں نے عمران خان کا ساتھ بھی چھوڑ دیا۔خیر سیاست میں یہ باتیں تو عام ہیں اور برصغیر میں تو آئے دن ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔

تھوڑی دیر کے لئے اگر ہم برصغیر کے تین ممالک ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی بات کریں تو دیکھا جارہا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے وہاں حزب اختلاف سے بدلہ لینے کے لئے حکومت بن رہی ہے۔جو بھی حکومت میں آیا وہ عوام کی سیوا کرنے کی بجائے اسی بات میں لگ جاتا ہے کہ کیسے اپوزیشن کے لیڈر یا ورکر کو ڈرا دھمکا کر ایک ایسا ماحول بنا دے کہ وہاں لوگ خوف زدہ ہو کر خاموشی اختیار کر لیں۔پاکستان میں بدقسمتی سے کئی برسوں سے خوف زدہ کرنے کی روایت کو کبھی سیاسی لیڈران تو کبھی فوجی جنرل اپنی طاقت کی بنا پرحکومت بناتے چلے آرہے ہیں۔یعنی کہ حکومت میں آتے ہی ملک کی ترقی کو بالائے طاق رکھ کر صرف الزام تراشی کر کے بات عدالت تک پہنچ جاتی ہے اور پھر عدالت حکومت کی دباؤ میں آکر جلد بازی میں فیصلہ سنا دیتی ہے۔

 جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کا غصہ بھڑک اٹھتے ہیں۔اسی طرح فوجی جنرل بھی جب حکومت سے عاجز آجاتے ہیں تو وہ بھی اپنی بندوق تان کر ملک کی سلامتی کا بہانہ بنا کر حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں۔گویا کہ پاکستان کے کمزور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی بجائے سب اپنی اپنی مرضی سے حکومت پر قبضہ کرنا فخر سمجھتے ہیں۔

لیکن یہ بات صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ کم وبیش ایسا ہی ہندوستان میں بھی آج کل دیکھنے کو مل رہاہے۔ جب سے نریندر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بنے ہیں ہندوستان میں عوام خوف و ہراس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی کو بھی مجرم بنا کر انکاؤنٹر کیا جارہا ہے تو کہیں سیاستدانوں کو منہ مانگی رقم دے کر حکومت گرا دی جارہی ہے۔ مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلا جارہا ہے اور حکومت میں آتے ہی اپوزیشن کے سیاستدانوں خاص کر مسلمانوں کو غبن اور دہشت گردی کا کیس لگا کر انہیں جیل میں ڈال دیا جارہا ہے۔ حال ہی میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو گجرات کی عدالت نے ایک کیس میں انہیں مجرم قرار دیا اور جس کی بنا پر ان کی پارلیمانی رکنیت کو معطل کردیاگیا۔

دراصل یہ پورا معاملہ ہی کافی پیچیدہ ہے۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں زیادہ تر سیاستدانوں پر مقدمے چل رہے ہیں یا ان کے خلاف کسی فرد نے کیس کر رکھا ہے۔اب سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ آخر سچ کون بول رہا اور جھوٹا کون ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں ہورہا ہے۔ عمران خان کی حکومت بنی تو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کیس بنائے گئے اور وہ عادت سے مجبور ملک چھوڑ کر ہی بھاگ گئے۔ جب پرویز مشرف نے فوجی حکومت قائم کی توانہوں نے سعودی عرب میں پناہ لی اور جب عمران خان وزیراعظم بنے توانہوں نے بیماری کا بہانہ بنایا اور لندن آگئے اور سکون کی زندگی گزار تے رہے۔اس سے قبل سابق وزیراعظم بھٹو کو بھی بدعنوانی اور قتل کے معاملے میں پھانسی دی جا چکی ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان نے بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کیا ہے۔ جس میں ضروری اشیاکی مہنگائی، دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ اور وزیر اعظم عمران خان کی پارلیمانی ووٹ میں عدم اعتماد کی منصوبہ بندی سے بر طرفی شامل ہے۔ اسی دوران یہ بات بھی کہی جانے لگی کہ عمران خان کے کچھ قومی اسمبلی کے ممبران نے بھاری رقم کی عوض میں اپوزیشن اتحاد کے ساتھ ہاتھ ملا کر عمران خان کی حکومت کو بے دخل کر دیا۔ جس کے بعد عمران خان  مسلسل تحریک چلاتے ہوئے حکومت کو نشانہ بناتے رہے۔ بڑے بڑے جلسوں کا اہتمام ہوا اور لوگ بھاری تعداد میں عمران خان کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔لیکن عمران خان بار بار یہ دہراتے رہے کہ حکومت انہیں گرفتار کرنے کے لئے عدالت اور فوج کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور انہیں اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ کہیں ان کی جان نہ لے لی جائے۔

پاکستان میں الیکشن ہوگیا۔ آزاد امیدوار یا یوں کہہ لیجئے کہ عمران خان کے حمایتی امیدوار سب سے زیادہ جیتے ہیں لیکن حکومت بنی ہے دیگر پارٹیوں کی جنہیں عوام نے سب سے کم ووٹ دیا۔ لیکن کون کس کی پرواہ کرتا ہے۔ سبھی کو کرسی کی چاہت ہے جس کے عوض میں انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ اس مسئلے کا کوئی حل ہے۔ کیونکہ برصغیر کی سیاست اتنی کرپٹ ہوچکی ہے کہ جو بھی حکومت سنبھالتا ہے، اسے اسی بات کی پرواہ رہتی کہ کس طرح اپوزیشن کو ہراساں کرنے کے لئے ان پر مقدمات چلائے جائیں اور انہیں اس کی سزا ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کے بدلہ لینے اور ماحول کو خوف زدہ کرنے کی کوشش میں بیچارے عوام نہ اِدھرکے اور نہ اُدھر کے رہتے ہیں۔الزام تراشی کایہ طریقہ اتنا آسان ہوگیا ہے کہ ان ممالک میں سوائے اپوزیشن سے بدلہ لینے کے علاوہ اور کچھ رکھا ہی نہیں ہے۔یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ کہہ رہا ہے۔

میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ بدلے کی سیاست میں بیچارے عوام ہی گھاٹے میں رہتے ہیں جو انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ آنے والی حکومت ان کے مسائل کو حل کرے گی اور ملک ترقی یافتہ ہوگا۔ ایسی حکومتیں تمام پالیسیوں پر ناکام ہوتی ہیں اور ملک کی معاشی صورتِ حال تباہ و بربادہوجاتی ہے۔ اوراس کی عوض میں عوام کو مہنگائی، بدحالی، بے روزگاری، غربت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

Leave a Reply