You are currently viewing برطانیہ کا مشکوک شہری بل مشکلات کا سبب بنے گا

برطانیہ کا مشکوک شہری بل مشکلات کا سبب بنے گا

بچپن ہندوستان کے معروف اور تاریخی شہر کلکتہ میں گزرا۔ خوشی تو اس بات کی تھی کہ ہم ہندوستانی تھے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمیں اس بات سے بھی خوفزدہ کیا جانے لگا کہ ہم مسلمان ہونے کے ناطے’پاکستانی‘ہیں۔

اور یہ باتیں کبھی ہما رے منہ پر کہہ کر ڈرایایا جانے لگا تو کبھی ہماری طرف اشارہ کر کے دل میں خوف پیدا کیا جانے لگا۔ تاہم اس کا احساس میرے ساتھ کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں کو بھی تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں اس بات کو محسوس کیا کہ مارکسی حکومت کی حمایت کی ایک اہم وجہ بنگال میں مسلمانوں کی یہ تھی کہ بائیں بازو کی پارٹیاں کھل کر فرقہ پرستی کے خلاف آواز اٹھاتی تھیں۔ ان دنوں بابری مسجد کو شہید کرنے کی تحریک کی آڑ میں دھیرے دھیرے بھارتیہ جنتا پارٹی  پورے ہندوستانی مسلمانوں کو سیدھے سیدھے نشانہ بنا کر اپنا الّو سیدھا کرنے میں لگے ہوئی تھی۔ جس میں انہیں نہ صرف کامیابی ملی بلکہ انہوں نے بابری مسجد کو شہید کر کے ہندوستان سمیت پوری دنیا کو سکتے میں ڈال دیا۔ جس کا اثر دنیا کے دیگر کٹر پسند مذہب کے رہنماؤں پربھی ہوا اور انہوں نے بھی اپنے اپنے ممالک میں مذہب کی آڑ میں سیاسی اور ذاتی مفاد کا فائدہ اٹھا ناشروع کردیا۔ چاہے وہ بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل و عام ہو یا برما کے روہنگائی مسلمانوں کا قتل و عام ہو یا چین کے اویغورمسلمانو ں پر ظلم ہو۔ اب تو دنیا میں مسلمان ہو نا جیسے جرم ہو گیا ہو۔ کبھی دہشتگرد تو کبھی پناہ گزین تو کبھی شہریت کا معاملہ، گویا آئے دن ایک نئی مصیبت سر پر آ جاتی ہے جو صرف مسلمانوں سے منسلک ہوتا ہے۔

برطانیہ میں رہتے ہوئے تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان تیس برسوں میں نہ جانے کتنے واقعات ایسے ہوئے ہیں جو زخم کواب بھی تازہ رکھے ہوئے ہے۔ جن میں یورپ کے بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل و عام، امریکہ کا مسلم ممالک میں گرائے جانے والے بم، فلسطین پر اسرائیل کی بربریت، افغانستان، عراق اور لبیا میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام، یمن میں جنگ سے فاقہ کشی، ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر صرف آنسو بہانا ناکافی ہے۔ اسی وجہ سے ان ممالک کے لوگ کبھی یورپ تو کبھی امریکہ میں پناہ گزیں بن کر مغربی طاقتوں کے ہاتھ کٹھ پتلی بن کر ناچ رہے ہیں۔ مغربی طاقتیں بھی انہیں اپنے اشارے پر نچاتے ہوئے دنیا کو یہ دکھا رہی ہیں کہ ان ممالک کے حکمراں ظالم ہیں اور ان ممالک کے حکمرانوں کوہماری طرح ہونا چاہیے یعنی جوانسانی حقوق کے چوکیدار بن کر انسانیت کا خون کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب اور خلیج کے عرب حکمراں جو اپنی بادشاہیت پر ناز کرتے ہوئے ہاتھوں میں تلوار لیے مغربی ممالک کے سربراہوں کے اشارے پر دن رات ناچتے رہتے ہیں۔

برطانیہ میں پچھلے کچھ مہینے سے ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل کے شہری بل سے خاص کرجہاں مسلمانوں میں بے چینی پائی جارہی ہے، وہیں امن پسند شہری بھی اس نئے قانون سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ دہشت گردی، جنگی مجرم، جاسوسی، یہی وہ وجوہات ہیں جس کی بنا پر حکومت کا کہناہے کہ وہ امیگریشن قانون میں تبدیلی لارہی ہے۔ ہاؤس آف لارڈز میں زیر بحث ’نیشنلٹی اینڈ بارڈر بل‘ کے تحت اگر برطانوی حکومت کسی کی شہریت ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے اب بتانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل کا کہنا ہے کہ اس قانون کا استعمال ’غیر معمولی حالات‘ میں ان لوگوں پر کیا جائے گا جو برطانیہ کے لیے سب سے زیادہ خطرہ ہیں۔  ان دنوں برطانیہ میں گاہے بگاہے ان منصوبوں کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ خدشہ تو اس بات کا ہے کہ ایک ہی جرم کے ارتکاب پر نسلی اقلیتوں کے ساتھ سفید فام برطانیوں سے مختلف سلوک کیا جاسکتا ہے۔ تاہم حکومت نے کہا ہے کہ بل کے ارد گرد کچھ خوف ہے جو محض ایک سادہ سی غلطی ہے اور جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ظاہر سی بات ہے حکومت ایسے بیانات دے کر اپنا پلو جھاڑ رہی ہے لیکن کہیں نہ کہیں ان منصوبوں سے حکومت کی نیت اچھی نہیں لگ رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون سے اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ یہ ایک خاص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔

بہت سارے لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ شہریت کیسے کھو دیتے ہیں؟ یہ ایک سوال بھی ہے اوراگر دیکھا جائے تو ایک عام شہری کو مجرم بنا کر نشانہ بنانے کی سازش بھی ہے۔ شہریت کسی ملک میں رہنے کا حق ہے۔ اس کے بغیر لوگ ووٹ نہیں دے سکتے اور وہ کام کرنے یا تعلیم یا صحت کی دیکھ بھال تک کی رسائی کے لیے جد و جہد کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے شخص کو حکومت کبھی بھی گرفتار کر کے مجرم بھی قرار دے سکتی ہے اور اگر مسلمان ہوا تو دہشت گردی میں ملوث ہونا ہی شہریت کا واپس لے لیناکافی ہے۔ لیکن شہریت ہٹانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ برطانوی حکومت ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ایسا کرنے میں کامیاب رہی ہے اور ہوم سیکریٹری ہر معاملے کا ذاتی طور پر فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن جس بات کا خوف ہے، وہ ہے مسلمانوں کو اس قانون کے تحت نشانہ بنانا اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ پریتی پٹیل کی ناپاک چال کہیں کامیاب نہ ہوجائے جس کے لئے وہ بطور ہوم سیکریٹری کوشاں ہیں اور بہت حد تک کامیاب ہیں۔

حالیہ برسوں میں اس نئے شہری قانون کا تعلق اسلامی دہشت گردی کے معاملات سے جوڑا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ برطانوی نژاد شمیمہ بیگم جنہوں نے 2015میں اسلامک اسٹیٹ گروپ میں شامل ہونے کے لیے شام کا سفر کیا۔ برطانوی حکومت نے سیکوروٹی کی بنیاد پر 2019میں اس کی شہریت منسوخ کر دی۔ جبکہ بین الاقوامی قانون کے تحت اور خاص طور پر 1948کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے تحت ہر ایک کو قومیت کا حق حاصل ہے۔ لہذٰا لوگوں کو اپنے من مانی کے طور پر بے وطن نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اگر ان کے پاس دوسری شہریت ہے تو ان کی شہریت چھیننا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر اگر ان کے پاس دوہری شہریت ہے یا اگر  کسی اورجگہ کی شہریت حاصل کرنا ممکن ہے جیسے کہ ان کے والدین جس ملک سے آتے ہیں وغیرہ۔

قانون کے نئے حصے کا مطلب ہے کہ حکومت کو اب لوگوں کو یہ بتانا نہیں پڑے گا کہ ان کی شہریت ختم کی جارہی ہے۔ لیکن اقلیتی گروپوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل منظور ہوتا ہے تو وہ ’دوسرے درجے کے شہری بن سکتے ہیں‘۔ دسمبر اور جنوری میں وزیراعظم کے رہائش گاہ ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے ہونے والے مظاہروں میں مسلم ایسوسی ایشن آف برطانیہ، سکھ کونسل یوکے اور ونڈرش لائیو سمیت بیس سے زائد گروپوں نے اس قانون کے خلاف کافی مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن اب تک حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی ہے۔

کچھ ہی سال قبل ہندوستان میں بھی حکومت نے اسی طرح کا قانون لاکر مسلمانوں  کو سڑک پر آکر مظاہرہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس سے دلی کا شاہین باغ اور جامعہ ملیہ یونورسٹی کے طلبہ بھی نہ بچ سکے تھیں۔ جن پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹ بڑا تھا اور پولیس سے لے کر انتہاپسند ہندوؤں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کتنے معصوموں کی آواز کو کچلنے کی کوشش کی تھی اور ہر بار کی طرح اس بار بھی معاملے کو ہندو مسلم رنگ دے کر بات کو اصل مدعے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ جس میں وہ کامیاب بھی ہوگئے اور مسلمان ان باتوں سے غافل ہو کر کسی اور معاملے میں الجھ کر بے یارو مددگار اب بھی بھٹک رہے ہیں۔

پریتی پٹیل کے والدین کینیا سے برطانیہ آئے ہوئے ایسے گجراتی پناہ گزین تھے جو افریقہ میں لگی نسلی بھید بھاؤ آگ کے شکار تھے۔ انہیں برطانیہ میں انسانی حقوق کی بنا پر پناہ مل گئی اور ان کی بیٹی برطانوی حکومت کی ہوم سیکرٹری بھی بن گئیں۔ لیکن پریتی پٹیل شاید بھول گئی کہ ان کے والدین کی طرح نہ جانے کتنے پناہ گزین ایسے بھی ہیں جو بحالتِ مجبوری اپنا ملک چھوڑ کر کسی اور ملک میں پناہ لیتے ہیں جیسا کہ ان کے والدین نے کیا تھا۔ تاہم پریتی پٹیل کا رویہ اور ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ کا رویہ کہیں نہ کہیں یکساں دکھائی دیتا ہے اور دونوں کی پالیسی کے شکار بھی مسلمان ہیں۔ خواہ وہ برطانیہ یا ہندوستان کے ہوں۔ میں دونوں وزیروں سے مذہبی نفرت بھلا کر انسانیت کی خاطر کام کرنے کی تلقین کروں گا۔ شاید اقبال نے سچ کہا تھا ’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘۔

Leave a Reply