You are currently viewing ہیومن رائٹس آرٹیکل 9: مرضی کا مذہبی لباس پہننے کا حق

ہیومن رائٹس آرٹیکل 9: مرضی کا مذہبی لباس پہننے کا حق

ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے،ہمیں مرد اور عورت کپڑے میں ملبوس ہی اچھے اور تہذیب یافتہ لگے ہیں۔ بطور مسلمان ہم نے بچپن سے ہی خواتین میں پردے کے رواج اور اس کے استعمال سے خود میں اور خواتین میں حیا اور خوشی پائی ہے۔

اماں تو کبھی بنا برقع باہر جاتی ہی نہیں تھیں اور ہم بھی ہمیشہ سلیقے سے ہی کپڑا پہن کر نکلا کرتے تھے۔بہنوں پر سختی تو نہیں تھی لیکن انہیں ہم نے کبھی بنا ڈوپٹہ سر ڈھانکے باہر جاتے نہیں دیکھا تھا۔ گویا اسی طرح ہمارے جان پہچان کے لوگوں سے لے کر زیادہ تر خاندان کی خواتین میں ہمیشہ یہ رواج پایا جاتا رہا۔تاہم یہ بات بھی دیکھنے میں آیا کہ جوں جوں وقت گزرا اور مغربی ثقافت کا اثر جب مشرقی تہذیب اور ثقافت پر پڑنے لگا تو بہت ساری لڑکیوں نے ڈوپٹہ پہننا ضروری نہیں سمجھا جس سے بڑے بزرگوں نے اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔

ویسے ہندوستان سمیت کئی ممالک میں اب بھی ہندو، عیسائی یہودی، سکھ، بودھ، جین اور دیگر مذاہب میں سر تا پاؤں کو ڈھکنے کے لیے اپنے مذہبی عقیدے کے تحت کپڑا پہننالازمی سمجھا جاتا ہے۔اگر صرف ہندوستان کی مثال دوں تو اس کا رواج آج بھی کئی ریاستوں میں عام ہے جیسے راجھستان، یوپی اور بہار وغیرہ کی ہندو عورتوں میں سر یا چہرے کو چھپانایعنی ساڑی کے آنچل سے سر چھپانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ عیسائی مذہب کی نن آج بھی سر تا پیر ساڑی پہنتی ہیں جس سے ان کاجسم اور سر پورا ڈھکا ہوتا ہے۔اورہم مدر ٹریسا کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ انسانیت کی دیوی جس نے مغربی آرائش اور لباس کو ترک کر کے اپنی پوری عمر کلکتے کی گلیوں اور سڑکوں پر لاچار اور بے حال لوگوں کی دیکھ بھال میں اپنی زندگی صرف کر دی۔

مدر ٹریسا سے میری ملاقات 1985میں این سی سی(نیشنل کیڈٹ کورپ) کی ایک تقریب میں ہوئی تھی۔ سفید ساڑی میں ملبوس، سر پورا ڈھکا ہوا اور آپ صرف ان کی شکل دیکھ سکتے تھے۔ یہی مدر ٹریسا کا لباس تھا جس پرہمیں نہ کبھی اعتراض ہوا اور نہ پریشانی ہوئی۔ویسے مجھے آج تک کسی مذہب اور عقیدے کے لوگوں کے لباس سے نہ تو کوئی تکلیف ہے اور نہ پریشانی ہے۔اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا مجھے عورت بنا لباس کی اچھی لگتی ہے یا کپڑے میں ملبوس تو میرا جواب تو یہی ہوگا کہ عورت ہو یا مرد مجھے دونوں لباس میں ملبوس ہی اچھے لگتے ہیں۔  تاہم مغربی ممالک نے عورتوں کو اتنا با اختیار کیا ہے کہ اب مغربی ممالک میں عورت جیسا بھی لباس پہنے اسے وہ اپنا حق سمجھتی ہے۔اس میں کوئی خرابی بھی نہیں ہے۔اس کے علاوہ فیشن ڈیزائن اور سماج میں با اختیار اور مساوات نے عورتوں کو اپنی مرضی کے لباس پہننے اور پسند کرنے کا پورا اختیار دے رکھا ہے۔ جو ایک حد تک تو بہت درست ہے کیونکہ اس سے عورتوں کو سماج میں برابری کا درجہ ملتا ہے جو کہ اس کا انسانی حق بھی ہے۔

اگست 2023فرانسیسی صدر میکرون نے سرکاری اسکولوں میں عبایا پہننے پر پابندی لگا دی۔عبایا ایک ڈھیلا ڈھالا پوری لمبائی والا لباس ہے جسے عالمی سطح پر مسلم خواتین اور لڑکیاں پہنتی ہیں۔ فرانس کی دیگر سیاسی جماعتوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ تاہم یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرانس نے 2004میں اس بنیاد پر مسلم خواتین کو سر پر اسکارف پہننے پر پابندی عائد کی تھی کہ یہ ایک مذہبی علامت ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مسلم خواتین کا سر پر اسکارف پہننا فرانسیسی سیکولرازم کی سخت خلاف ورزی کرتا ہے۔ عبایا زیادہ تر عرب ممالک میں پہنا جاتا ہے جو یورپ میں بھی دن بدن مقبول ہورہاہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اخلاقی اور روحانی جہت کے پسِ منظر میں مغرب میں جنسی انقلاب نے ہمیشہ مذہبی لوگوں کو نشانہ بنایا یا پریشان کیا ہے۔تمام مذاہب عیسائی، ہندو، یہودی، مسلمان وغیرہ سبھی پر گاہے بگاہے کچھ نہ کچھ الزامات لگتے رہے ہیں اور ان کے ساتھ برا سلوک بھی کیا گیا ہے۔ تاہم مغرب میں اب بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ معاشرے کی بہت سی خرابیاں جنسی انقلاب سے جنم لیتی ہیں۔اس کے علاوہ مغربی ممالک میں مذہب کو ایک خطرہ بھی مانا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گاہے بگاہے کبھی عبایا تو کبھی حجاب تو کبھی کچھ اور ایسی باتوں پر بحث یا پابندی عائد ہورہی ہیں، جس سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔

عبایا پر پابندی لگانے کا فرانسیسی صدر میکرون کا فیصلہ ایک سیکولر ذہن کا  مخصوص ردعمل ہے جو ظاہرہے شکل، جسم، چہرے اور کپڑوں پر مرکوز ہے۔ یہ ایک سطحی نظریہ ہے جو ایک صدر کا ہے۔ آج کے نوجوانوں کو صرف شائستگی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ شرافت کے بارے میں بھی انہیں سکھایا جائے، نہ کہ انہیں بے حیائی کے بارے میں کچھ بھی نہ کہا جائے۔عفت اور پاکیزہ زندگی کا فقدان نوجوانوں میں اس قدر بدحالی کا باعث بن رہا ہے کہ بقول ٹائم میگزین 30 اگست کے خبر کے مطابق 25%نو عمر لڑکیوں نے خود کشی کا منصوبہ بنایا ہے۔جو کہ تشویشناک بات ہے۔فرانسیسی مسلم رہنما اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ عبایا کوئی مذہبی لباس نہیں ہے۔ جو مجھے ذاتی طور پر بہت عجیب لگتا ہے۔ تاہم حیا، عفت، شائستگی اور پاکیزہ زندگی اہم اسلامی ثقافتی اقدار ہیں۔ اسے یوں آسانی سے نہیں لینا چاہیے۔ تو کیا عبایا پر پابندی مسلمان والدین کو متحد کر دے گی اور انہیں زیادہ باعمل مسلمان بننے کی طرف لے جائے گی؟میرا سمجھناہے کہ فرانس میں مسلم رہنماؤں کو متحد اور مضبوط ہو کر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ انہیں متحد ہو کر اسلامی تعلیمات کی حکمت پر معذرت خواہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔

اعتماد سازی، بین الثقافتی ہم آہنگی اور کمیونٹی ہم آہنگی پر امن کمیونٹیز کی تعمیر  اس لئے اہم ہے جہاں مختلف نسلیں، ثقافتیں اور مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں،تو وہیں انہیں اس ہم آہنگی کو قائم رکھنے کے لئے کافی محنت بھی کرنی ہوتی ہے۔جسے لوگ خود سے یا سول سوسائٹی سے حاصل نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لیے قانون کی عملداری کی ضرورت ہے۔درحقیقت، حکومتوں کو امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے مثبت اقدامات کے ذریعے، قانون سازی کے ذریعے،اور کمیونٹی میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری بھی کرنی ہوگی۔تاہم بدقسمتی سے فرانس میں ہم نے بارہا حکومت کو مسلمانوں کو نشانہ بناتے دیکھا ہے جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔

 ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 9آپ کے عقائد کو ظاہر کرنے اورآپ کے حق کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، آپ کو اپنا مذہبی لباس پہننے کا حق ہے۔تاہم چند سیاستدان عبایا یا حجاب جیسی باتوں پر ایک خاص فرقے کو نشانہ بنا کر اپنی دکان چمکا رہے ہیں جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔ لیکن اب بھی ذی شعور لوگوں کا ماننا ہے کہ مذہب کی آزادی ہونی چاہئے اور ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے طور پر اپنی مذہبی زندگی گزارنے کا کا حق ملنا چاہئے۔

 

Leave a Reply