You are currently viewing !کیااردو پڑھنے کی زبان ہے یا پڑھانے کی زبان ہے

!کیااردو پڑھنے کی زبان ہے یا پڑھانے کی زبان ہے

ایک عرصے سے ذہن اس بات میں الجھا ہوا ہے کہ کیا اردو پڑھنے کی زبان ہے یا پڑھانے کی زبان ہے۔کبھی رات اسی سوال کے اضطراب میں گز رتی ہے تو کبھی اس موضوع پر لوگوں سے بحث و مباحثہ میں صرف ہو جا تا ہے۔

 تاہم خاطر خواہ نتیجہ اب تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔جب کبھی کسی سے میں یہ سوال کرتا تو زیادہ تر لوگ یا تو خاموشی اختیار کر لیتے یا پھر آئندہ بات ہوگی،کہہ کر بات ٹال دیتے۔ گویامیری حالت ایسی ہوگئی ہے کہ جیسے میں کسی سوچ میں مبتلا تنہاکھڑا کسی کا انتطار کررہا ہوں کہ کہیں سے کوئی حل کی صورت نمودار ہو جائے۔لیکن جناب جواب کیسے ملے۔ جب ہماری ایمانداری اور عقل گھاس چرنے چلی گئی ہو۔اکثر ایسا محسوس ہو تا ہے کہ کوئی غبی طالب علم اپنے مُمتحن کے خوف سے بنا جواب دیے،سر جھکائے راہ فرار اختیار کر لے۔ظاہر ہے کہ اردو زبان کے ماہرین ِ رموز کا خو ف ان کی زبان بند کر دیتا ہے یعنی شہر کی ادبی و ثقافتی محفلوں میں سے شرکت کے لیے نہ بلایا جا نا یا اخبارات اور رسائل و جرائد میں اس موضوع پر ان کے مضامین کی اشاعت سے گریز کرنا ان کے اسی خوف کی غمازی کرتا ہے۔

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مجھے اردو زبان وراثت میں نصیب ہوئی ہے۔ چنانچہ اردو  بولنا اور پڑھنا نہ صرف میرے لیے باعثِ افتخار ہے بل کہ قومی فریضہ بھی ہے۔اب میں مغلیہ دور کی بات بھی نہیں کر رہا بلکہ ساٹھ کی دہائی کی جانب توجہ مر کوز کر رہاہوں جب ہمارے اکابرین اردو بولنا اور پڑھنا ضروری اور قابلِ فخر محسوس کرتے تھے۔ اسی جذبے اور جوش نے میرے والدِ بزرگوارکو بھی مجبور کیاکہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم کسی اردو میڈیم اسکول میں کرائیں۔میری ابتدائی تعلیم خضر پور پرائمری اسکول سے شروع ہوئی۔ جہاں ہم نے اردو زبان میں تمام سبجیکٹ کو پڑھا۔ مجھے آج بھی” چڑیا” پر رٹائی گئی ایک نظم یاد ہے:

 وہ دیکھوں وہ چڑیا آئی۔چونچ میں اپنے دانہ لائی

 بچہ چی چی بول رہا ہے۔ اڑنے کو پر تول رہا ہے

 لیکن وہ ماں باپ کی ڈر سے۔ جاتا نہیں ہے باہرگھر سے

تم بھی ماں باپ کاکہنا مانو۔ بستہ لو اسکول سدھارو

 علم وہنرسے کام جو لو گے۔ دیش کا اونچا نام کرو گے

اس کے بعد مولانا محمدعلی ہائی مدرسے سے دو سال پڑھائی کی اور پھر کلکتہ کے معروف محمد جان ہائی اسکول میں ساتویں کلاس  میں داخلہ لے لیا۔جہاں تمام سبجیکٹ اردو زبان میں پڑھائے جاتے تھے اور میں اس موضوع بحث کے تناظر میں اپنے شفیق اور ماہر اساتذہ کرام کو کس طرح فرا موش کر سکتاہوں جنہوں نے اپنی صلاحیت اور قابلت سے مجھ میں آج لکھنے پڑھنے کا ایساشعور پیدا کیا کہ میں فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھ میں لکھنے اور پڑھنے کی جوصلاحیت موجود ہے وہ انہیں اساتذہ کرام کی رہینِ منت ہے۔

لیکن جب میں اپنے کالج کی طالبِ علمی کے ایام یاد کرتا ہوں تو عجیب کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ ایسا کیا مرحلہ پیش آیا کہ میں کالج کے چند پروفیسر کے طریقہ کار اور ان کے درس و تدریس کے انداز نے مجھے اس سوال کوپوچھنے پر مجبور کر دیا’کیا اردو پڑھنے کی زبان ہے یا پڑھانے کی زبان ہے؟‘۔

 چنانچہ اب مثلاًعرض کروں کہ جب میں نے کلکتے کے معروف مولانا آزاد کالج سے اردو پڑھنے کا ارادہ کیا تو چند پروفیسر حضرات نے اردو زبان کے درس و تدریس کے سلسلے میں ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی ان کے ہاتھ میں ایک ڈائری ہوتی تھی اور وہ مسلسل تقریباً ایک گھنٹے ا تک پنی ڈائری دیکھ دیکھ کے پڑھا تے رہتے اور اس طرح اپنے تبحرِ علمی کا مظا ہرہ کرتے رہتے۔لیکن زیادہ تر طلبا ان کی باتوں کو اپنے نوٹس میں قلم بند کر نے میں مصروف رہتے۔مجھے پروفیسر حضرات کے اس طریقہ کار سے سخت مایوسی ہوئی لیکن ہم اکثر طالبِ علم شاگرد اردو کو سینے سے لگائے خود ہی زبان کو سیکھنے کی کوشش میں لگے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم امتحان میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے سے محروم رہے اور دیگر طلبا کے سامنے سر خم کئے ان کی کھوکھلی لیاقت اور صلاحیت کو بحالتِ مجبوری تسلیم کرتے رہے۔

خیر اس کے بعد کلکتہ یونیورسٹی پہنچ گئے۔جہاں سے اردو زبان و ادب میں ایم اے کرنے کا ارادہ کیا۔ یہاں بھی مولانا آزاد کالج کی روایت برقرار رکھی گئی یعنی چند پروفیسر حضرات اپنی خاص ڈائری کو لے کر کلاس میں آتے اور طلبا پروفیسر صاحب کی بات کو دھڑا دھڑ نقالی کرتے۔ گویا یہاں بھی میں اردو زبان سیکھنے کی بجائے کلاس کے نقالی والے ماحول میں گھٹ گھٹ کر وقت گزارنے پر ممجبور تھا لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔ ابتدا میں تو میں کلاس میں بیٹھ کر پروفیسر کی ڈائری میں لکھے جملوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو پھر کلاس کبھی کبھی ہی جایا کرتا تاکہ حاضری لگ جائے۔تاہم خود سے اردو کتابوں کی ورق گردانی کر کے اردو سیکھنے میں متواترکوشاں رہا اور اوراردو کو سینے سے لگائے رکھا۔

جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پروفیسر کی ڈائری سے نقالی کرنے والے زیادہ تر طلبا اعلیٰ نمبر سے امتحان پاس کر گئے اور ہم سیکنڈ کلاس سے امتحان پاس کر کے منہ دیکھتے رہ گئے۔بل کہ یوں کہیے کہ چند پروفیسر کی ڈائری کو نقل کرنے والے دوست اب تو کالج میں پڑھا بھی رہے ہیں جس پر مجھے فخربھی ہے۔فخر اس بات سے نہیں کہ وہ پروفیسر کی ڈائری کی نقالی کرتے تھے بلکہ ہمارے دوست ہیں اور کالج میں پروفیسر بن گئے۔ اردو میں مضامین لکھنا اور شعر کہنا میرا شوق ہی نہیں بلکہ ایک جنون تھا۔ تاہم طالب علمی کے زمانے میں حوصلہ افزائی کی کمی اور اثر و رسوخ کی قلت کے سبب نہ میرے مضامین شائع ہو سکے اور نہ ہی میں اپنی پہچان بنا پایا۔ہاں اتنا ضرور ہوا کہ جب میں نے کلکتہ یونیورسٹی کے وال میگیزین کا آغاز کیا  تو اس پر میری ہی پہلی نظم نوشتہ تھی۔ جو میرے لیے آج تک باعثِ امتیاز ہے۔

لندن آنے کے بعد 2000میں میری ملاقات رفعت شمیم، باسط کانپوری، ساقی فاروقی، فاروق حیدر، جتیندر بلّو، ساحر شیوی، مقصود الٰہی شیخ، ڈیوڈ میتھوزجیسے نامور ادیب اور شعرا سے ہوئی جن کی علمی صحبت میں مجھے اردو زبان سیکھنے اور لکھنے پڑھنے کا مزیدموقعہ ملا جس کی بدولت آج میرے لکھنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔تاہم آج بھی میں اس بات سے الجھا ہوا ہوں کہ کیا اردو پڑھنے کی زبان ہے یا پڑھانے کی زبان ہے۔

 مجھے یوں محسوس ہو تا ہے کہ اردو وہ زبان ہے جو اپنی لطافت، شیرینی اور رُموز و ہنر سے قاری کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے اور پھر وہ اردو کے گیسوئے عشق کے دام میں مستقل گرفتار رہتا ہے۔

Leave a Reply