You are currently viewing مودی کی یقینی جیت،محض پروپگنڈا یا بوکھلاہٹ؟

مودی کی یقینی جیت،محض پروپگنڈا یا بوکھلاہٹ؟

اپریل  19 سے ہندوستان کے عام چناؤ کے لئے ووٹ ڈالنے کا دور شروع ہوچکا ہے۔ جو کہ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ تک چلے گا۔ ہندوستان کے الیکشن کا چرچا دنیا بھر میں دکھائی دے رہا ہے۔

 ظاہر سی بات ہے کہ ہندوستان دنیا بھر میں سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا بھر میں بسے ہندوستانی اپنی پارٹی اور لیڈر کی باتوں کو خوب غور سے سن رہے ہیں اور اس پر اپنے اپنے طور پر بحث بھی کر رہے ہیں۔ جوں جوں وقت قریب آتا جارہا ہے ہندوستانی اور غیر ہندوستانی الیکشن پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ شاید اس کی ایک اہم وجہ نریندر مودی کی یقینی جیت ہے۔

یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ نریندر مودی جیسا متنازعہ وزیر اعظم ہندوستان نے اب تک نہیں دیکھا ہے۔ گجرات فساد میں نریندر مودی پر  الزام لگا تھا کہ ان کے اشارے پر بلوائیوں نے ایک خاص فرقے کے لوگوں کا قتل عام کیا تھا۔ اس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور وہ فساد کو روکنے میں بالکل ناکام تھے۔ اس دردناک واقعہ کے بعد نریندر مودی مسلسل نشانے پر رہے اور اب بھی بیشتر لوگ نریندر مودی کو گجرات فساد کے لئے ملزم مانتے ہیں۔ تاہم جوں جوں وقت گزرا لوگوں نے ان کے جرم کو بھلا کر انہیں اب ایک گرو کے طور پر تسلیم کرتے جارہے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں اور الزامات کے باوجود  نریندر مودی نے ہندوستان کے وزیر اعظم بننے کا جو خواب دیکھا تھا وہ پورا بھی ہوا اور اب تو ان کے حمایتی ایک کامیاب وزیراعظم ماننے لگے ہیں۔ تاہم مودی کے وزیراعظم بننے کے بعدحالات اتنے بدل گئے ہیں کہ مودی اور ان کی ٹیم ایک ڈکٹیٹر کی طرح کسی کے خلاف بھی کارروائی کرتے رہتے ہیں اور پولیس، جانچ ایجنسی سے لے کر عدالت تک کا رویہ مودی کا حمایتی دکھائی دے رہا ہے۔ جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔

 جب سے نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں ہندوستان کی سیاست میں ایک عجیب سی نفرت کی فضا قائم ہو گئی ہے۔ آئے دن اقلیتی طبقہ اور مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے۔ کبھی گائے کے خرید و فروخت میں مسلمانوں کو مارا جارہا ہے تو کبھی محض مسلمان ہونے کی وجہ سے لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑرہا ہے۔حیرانی اس بات کی ہے کہ ان تمام واقعات پر وزیر اعظم نریندر مودی کا کوئی ٹھوس بیان جاری نہیں ہوتا ہے۔ جس سے ہر ذی شعور انسان میں بے چینی پائی جارہی ہے۔بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ نریندر مودی 2014کے الیکشن کی جیت کے بعدنشے میں اس قدر چور ہیں کہ انہوں نے ان واقعات پر نہ کوئی افسوس جتایا اور نہ ہی اس پر کاروائی کرنا ضروری سمجھا۔ نریندر مودی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان ہر مذہب، زبان، نسل، ذات، غریب اور امیر لوگوں کا ملک ہے اور جن کے مسائل محض جملے بازی سے حل نہیں کئے جا سکتے ہیں۔

نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو جتنی بھی آسائش اور دولت نصیب ہوئی ہے، وہ یا تو زیادہ تر ان کاروباریوں کی مرہونِ منت ہے جو ایسے موقعے پر ان سیاستدانوں کی خدمت کر کے اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ان میں چند اہم نام امبانی، اڈانی وغیرہ کے ہیں جو مودی کے کافی قریبی مانے جاتے ہیں اور جن کی دولت سے ہندوستانی میڈیا مودی کی دن رات راگ الاپتا رہتاہے۔

نریندر مودی نے اب تک جتنے بھی الیکشن جلسے کئے ہیں اس میں انہوں نے لوگوں کو بھڑکانے یا ان کو اصل مدعا سے ہٹانے کے لئے عجیب و غریب باتیں کی ہیں۔ مثال کے طور پر ہر وقت پاکستان پر حملے کی بات،رام مندر کی تعمیر کا دعویٰ، ہرہندوستانی کے اکاونٹ میں پندرہ لاکھ روپے دینے کا وعدہ وغیرہ۔ لیکن وہیں مودی، پی ایم فنڈکا حساب کتاب دینے سے گریز کر رہے ہیں، ایس بی آئی بونڈ میں گھپلا بازی پر بھی چپی سادھی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں مودی کی ایک متنازعہ بات پر پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی ہے۔انہوں نے یہ نفرت انگیز تقریر راجستھان میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب میں کی۔جہاں انہوں نے مسلمانوں کو درانداز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آگئی تو وہ بھارت  میں دراندازوں میں کی حوصلہ افزائی کرے گی جو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ جس سے کہیں نہ کہیں مودی کی بوکھلاہٹ ظاہر ہورہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے آر ایس ایس پہلے سے ہی مسلمانوں کی آبادی سے خوف زدہ ہے اور کہیں نہ کہیں مودی کو بھی ڈر ہے کہ اگر مسلمانوں کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو ان کا ہندو راشٹرا بنانے کا خواب کہیں خواب ہی نہ رہ جائے۔

نریندر مودی ہر اس انسان کو ملک کا دشمن یا اسے کسی  بے ایمانی کے الزام میں پھنسا رہے ہیں جو یا تو ان سے سوال کرتا ہے یا ان کی پالیسی پر نکتہ چینی کرتا ہے۔غیر بی جے پی صوبے میں جانچ ایجنسی ای ڈی رات دن چھاپہ مار رہی ہے۔ جس کی مثال دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری ہے۔ جو کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے جب کسی وزیراعلیٰ کو جیل میں ڈال دیا گیا ہو۔اس کے علاوہ بنگال، جھاڑ کھنڈ سمیت کئی ریاستوں میں مودی اینڈ ٹیم سیاستدانوں کو ڈرا دھمکا کر یا تو ان کوپارٹی چھوڑ نے پر مجبور کر رہے ہیں یا انہیں بی جے پی میں شامل کروارہے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو تو جیل میں ڈال رکھا ہے جہاں انہیں ضمانت ہی نہیں مل رہی ہے۔ ملک کی اقتصادی سست رفتاری، مذہبی جنون، کشمیر کے بگڑتے حالات، گنگا ندی کی بڑھتی ہوئی گندگی، عورتوں کی بے حرمتی وغیرہ ایسی افسوس ناک باتیں ہیں جس سے نریندر مودی دامن نہیں بچا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک جتنے بھی الیکشن ریلی ہوئی ہیں وہاں نریندر مودی اپنے آٹھ برسوں کے کارنامے کو نہ بتا کر متنازعہ بیان دے کر تفریق کی فضا تیار کرہے ہیں اورمذہبی تناؤ کے ذریعہ مسلمانوں کو سیدھا سیدھا نشانہ بنا رہے ہیں۔جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔

افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ہندوستانی میڈیا بھی اپنی آن و شان کھو چکا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ ہندوستانی میڈیا کی جیب نریندر مودی کے کاروباری دوست بھر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ ہندوستانی میڈیا کا مذاق بنا رہے ہیں تو بہت سارے لوگ گودی میڈیا کی ہر بات پر مودی مودی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ جو کہ ایک تشوش ناک بات ہے۔اس کے علاوہ نریندر مودی کے جملے بازی سے بھی لوگ کافی محظوظ ہورہے ہیں۔ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ بی جے پی سوشل میڈیا سیل اپنے جھوٹے پروپگنڈے سے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے سہارے نریندر مودی کی متنازعہ بات سے ہندوستانی عوام کو جھانسہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

 پچھلے کئی سال سے ہندوستان میں ایسی باتیں یا واقعات رونما ہوئے جس پر پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ میڈیا بک چکا ہے، منی پور جل رہا ہے، کسانوں کو اپنے حقوق مانگنے پر ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس سے ڈرایاجارہا ہے، پہلوانوں کو عصمت دری کے خلاف احتجاج کرنے پر مارا پیٹا گیا، وزیراعلیٰ اروند کیجریوال اور ہیمنت سورین جیسے اپوزیشن لیڈروں کو بغیر کسی ثبوت کے جیل بھیج دیا گیا، سپریم کورٹ کے ججز دباؤ میں ہیں، جانچ ایجنسی ای ڈی اور سی بی آئی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں، عصمت دری کے مجرموں کو ہار پہنا یا جارہا، اور ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹالہ انتخابی بونڈ اسکینڈل کوعوام سے چھپایا جا رہا ہے۔جس سے ہر ذی شعور ہندوستانی کو تشویش ہے کہ اگر ہندوستان میں مکمل طور پر آمریت ہوجائے گا توعام لوگوں کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجائے گی۔جس کے بعدسوشل میڈیا پر مکمل حکومت کا کنٹرول ہوگا، کسی بھی معاملے پر دوبارہ احتجاج ہونے نہیں دیا جائے گا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مزید ہراساں کیا جائے گا اور ان پر مختلف پابندیاں عائد کر دی جائے گی۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہندوستانی عوام کا ایک بڑا طبقہ نریندر مودی کی باتوں میں ایسا بہکا ہواہے کہ وہ مودی کی ہر بات کو سچ مان کر ہر الیکشن میں انہیں ووٹ دیتے جارہے ہیں۔ مودی بھی جانتے ہیں کہ ہندوستانی عوام ان کے جھانسے میں آسانی سے آجاتے ہیں اور وہ انہیں ’الّو‘بنا کراس طرح پچھلے دو الیکشن آسانی سے جیت چکے ہیں۔اور اس بار بھی دیکھا جارہا ہے کہ تیسری بار وزیراعظم بننے کہ لئے نریندر مودی ہر حدکو پار کررہے ہیں۔

 نریندر مودی جس طرح سے مذہبی بھڑکاؤ تقاریر سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پھیلا رہے ہیں، اس سے کہیں نہ کہیں اس بات کا اندیشہ ہورہاہے کہ وہ اپنی ناکام پالیسیوں سے بوکھلا گئے ہیں اور انہیں ڈر لگا ہوا ہے کہ کہیں اس بار ان کا جیتنا آسان نہ ہو۔ تاہم مذہبی جنون اور نفرتوں کے سہارے کافی لوگ مودی کی باتوں سے متاثر بھی ہیں۔ جن کی وجہ سے شاید مودی ایک بار پھر اپنی پارٹی کو جتانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔آخر میں اپنے شعر سے بات ختم کرتا ہوں:

فضا میں جس نے بھی زہر گھولا ہے اس سے کہہ دو

خلاف  اس  کے اٹھیں  گے  ہم، احتجاج  ہوگا

Leave a Reply