You are currently viewing لندن کے پاکستانی سفارت خانے میں ایک ادبی تقریب

لندن کے پاکستانی سفارت خانے میں ایک ادبی تقریب

 

چند مہینے قبل پاکستان کے شہر لاہور سے پنجاب یونیورسیٹی کے ڈائریکٹر جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران کا پیغام آیا کہ وہ اکتوبر کی 25تاریخ کو لندن ایک کانفرنس میں تشریف لارہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ سفر کے پہلے پانچ دن وہ میرے ساتھ بتائیں۔میں نے فوراً  ڈاکٹر کامران  سے رابطہ کیا اور پروگرام کی تفصیل معلوم کر لی۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران سے میری پہلی ملاقات 2015میں  استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سو سالہ جشن میں ہوئی تھی۔ تاہم ڈاکٹر محمد کامران دنیا بھر سے تشریف لائے پروفیسر میں یوں الجھے رہے کہ انہیں ہم ناچیز سے حال چال پوچھنے کا بھی موقع نہ مل پایا۔یوں بھی میرا تعلق کسی یونیورسٹی سے تو تھا نہیں ویسے بھی مجھے کو ن گھاس ڈالتا۔لیکن جب 2021میں دوبارہ استنبول یونیورسٹی کانفرنس میں جانے کا موقع  ملا تو وہیں پروفیسر ڈاکٹر کامران سے خوب ملاقات اور بات چیت بھی ہوئی۔شعر و شاعری کا تو انہیں خوب شوق ہے اور گفتگو بھی بڑی روانی سے کرتے ہیں۔

جس دن پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران لاہور سے لندن تشریف لانے والے تھے اس دن میرا دفتر جانا ضروری تھا۔ تاہم شام چار بجے کی فلائٹ ہونے کی وجہ سے ہم نے اپنے مینیجر کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ آج ہم ائیر پورٹ جارہے ہیں  تو ہمیں ایک گھنٹہ قبل دفتر سے نکلنا ہوگا۔منیجر نے نرمی برتتے ہوئے اجازت دے دی اور ہم اپنی گاڑی میں بیٹھ کر لندن کے پانچویں سب سے بڑے ائیر پورٹ ہیتھرو چل دئیے۔  جی تو چاہ رہا تھا کہ گاڑی تیز بھگاؤں لیکن لندن مئیر صادق خان کی ایما پر اب تو لندن بھر میں بیس میل کی رفتار سے ہی گاڑی چلانے کی اجازت ہے جس سے کافی لوگ ناراض بھی ہیں۔لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بیس میل کی رفتار سے گاڑی چلانے سے حادثے کم اور ماحول آلودہ نہیں ہوتا ہے۔خیر مرتا کیا نہ کرتا۔ میں بھی بیس میل کی رفتار سے گاڑی یوں سمجھ لیجئے چلا نہیں رہا تھا بل کہ  گھسیٹ رہا تھا۔

ذہن میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ پتہ نہیں کب پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران باہر نکلے ہوں گے یا امیگریشن کی لائن میں کھڑے بیچارے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ لگ بھگ چالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم ہیتھرو ائیر پورٹ کے احاطے میں پہنچ چکے تھے۔ لیکن کافی دنوں کے بعد ہیتھرو ائیر پورٹ بذریعہ اپنی گاڑی جانے کی وجہ سے میں بھی ٹرمنل چار کی بجائے ٹرمنل تین پہنچ گیا۔اُس وقت خود پر کافی غصہ بھی آیا لیکن غلطی سڑک کی مرمت کرنے والوں کا تھا جنہوں نے ڈائیورشن کا سائن لگا رکھا تھا۔جس کی وجہ سے ہم بھٹک کر کسی اور طرف نکل گئے۔

خیر کسی طرح ہیتھروائیر پورٹ کے ٹرمینل فور پر پہنچا اور فوراً گاڑی پارک کر کے پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران کو ڈھونڈنے نکلا۔ ارائیول کے پاس لوگ اپنے رشتے داروں اور دوستوں کا گرمجوشی سے استقبال کر رہے تھے۔ کسی کی آنکھیں نم تھیں تو کوئی مارے خوشی کے چلا رہا تھا۔لگ بھگ پندرہ منٹ کھڑا رہا تو پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران کا پیغام آیا جس میں انہوں نے امیگریشن سے فارغ ہو کر باہر انتظار کرنے کا فوٹو لگایا۔ لیجئے صاحب جہاں کھڑا میں ڈاکٹر کامران کا انتظار کر رہا تھا اس سے چند قدم فاصلے پر ڈاکٹر کامران اپنے سامان پر براجمان ہو کر بیٹھے  باہر نکلتے ہوئے مسافروں کو دیکھ رہے تھے۔

ڈاکٹر محمد کامران بڑے ہی تپاک سے گلے ملے اور لاہور سے لندن کے سفر کی پوری داستان سنانے لگے۔ گاڑی میں سامان ڈالا اور پروفیسر کامران سے گپ شپ کرتے ہوئے ہم گھر کی طرف چل دئیے۔لندن میں شام کے پانچ بج چکے تھے اور سڑکیں گاڑیوں کی بھیڑ بھاڑ سے اور بھی آہستہ چل رہی تھی۔خیر لگ بھگ چالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم اپنے گھر پہنچ گئے۔ گھر پر بیگم ہما سید نے ہمارا استقبال کیا اور فوراً ہی ہم مرغ کے سالن، دال اور چاول کی ڈنر کا لطف لینے لگے۔

دوسرے دن ہم پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران کو لے کر ویمبلڈن بذریعہ بس پہنچے اور وہاں سے ڈسٹرک لائن لے کر ساؤتھ کینجنگٹن پہنچ گئے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران نے دورانِ سفر بتایا کہ لندن یہ ان کا ساتواں سفر ہے اور انہیں لندن کافی پسند ہے۔ ساؤتھ کینجنگٹن پہنچ کر بھیڑ بھاڑ کو چیرتے ہوئے ہم دونوں باہر نکلے اور پاس ہی معروف ہیرڈس کی عمارت میں داخل ہوگئے۔ہیروڈ سپر اسٹور کو ایک قطری نے خرید رکھا ہے اور یہاں اب بھی دنیا کا مہنگے سے مہنگا سامان بکتاہے۔ ہم لوگوں نے جیب خالی ہونے کی وجہ سے زیادہ تر سامان کا نظارہ ہی کرنا غنیمت سمجھا۔ مثال کے طور پر جوتوں کے سیکشن میں ایک جوتا ہزار پونڈ سے بھی مہنگاتھا۔ اب آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہیروڈس کیوں اب تک لندن اور دنیا کا مقبول اور قیمتی سپر اسٹور ہے۔

کئی گھنٹے بعد ہم اور پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران قریب ہی ایک قطری کرک چائے میں چائے پینے کے لئے چلے گئے۔ جہاں ہم دونوں نے ایک قیمے کا رول اور کرک چائے پی۔مجھے کرک چائے کے کڑک ہونے کا احساس اس کی قیمت ادا کرنے سے ہوئی۔کڑک چائے پی کر ہم دونوں تھوڑی دیر میں واپس ویمبلڈن آ گئے جہاں سے ہم بس پر سوار ہو کر گھر واپس آگئے۔30اکتوبر کی شام چھ بجے پاکستانی ہائی کمیشن میں ادارہ زبان و ادبیات اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور اور اردو مرکز، لندن کے اشتراک سے ایک ادبی شام کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں مجھ ناچیز کو “برطانیہ میں اردو کے فروغ کے لیے کوششوں کا اعتراف” کرتے ہوئے ایک شیلڈ پیش کی گئی۔ اس موقع پر اردو مرکز کے صدر ڈاکٹر جاید شیخ بہ عنوان” قصہ ایک صاحب طرز مریض کا” پڑھ کر سنایا جسے حاضرین محفل نے خوب پسند کیا۔ پروگرام کے آخر میں مدعو شعرا نے اپنے اپنے کلام پیش کئے۔

پاکستانی ہائی کمیشن محمد علی جناح کی تصاویر سے بھری پڑی تھی اوران تصویروں کو دیکھ کر نہ جانے کیوں میں اس الجھن میں پڑا تھا کہ جناح صاحب یا تومیری موجودگی سے حیران ہیں یا کافی خوش ہیں۔ظاہر سی بات ہے ایک ہندوستانی کو پاکستانی ہائی کمیشن میں جو عزت بخشی گئی، وہ قابل ذکر ہے۔ تقریب میں سابق کرکٹر آصف اقبال سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے ہندوستانی حیدرآباد چھوڑنے کا غم بیان کیا۔ آج کل آصف اقبال لندن میں رہائش پزیر ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور سے تشریف لائے پروفیسر سعادت سعید سے بھی ملاقات ہوئی۔

پروفیسر داکٹر محمد کامران سے پانچ دن کی ملاقات اور ان کا ساتھ یوں گزر گیا جس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا۔ڈاکٹر کامران آئے اوراردو مرکز لندن کے ساتھ مل برطانیہ میں بسے اردو خدمت گاروں کو ان کی اردو خدمات کے لئے جو شیلڈ پیش کیا وہ قابلِ ستائش ہے۔جس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ اب ڈاکٹر محمد کامران واپس لاہور چلے بھی گئے تاہم انہوں نے اس سفر میں اپنی محبتوں اور اخلاق کا ایک عمدہ نمونہ لندن والوں کے لئے چھوڑا ہے جو کہ ہمیشہ یاد رہے گا۔

Leave a Reply