You are currently viewing رام رام

رام رام

 

پچھلے ہفتے دفتر جاتے ہوئے لندن کے معروف ریڈیو اسٹیشن لائیکا سے میں گاڑی میں نغمے سن رہا تھا اور کچھ نئے پرانے گانوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ تاہم پروگرام کے دوران ریڈیو براڈکاسٹر روی شرما کے جئے شری رام اور 22جنوری کو رام مندر کی افتتاح کی خبر سے جہاں خوشی ہوئی وہی حیرانی بھی ہوئی۔

خوشی اس بات کی کہ آخر کار برسوں بعد بے گھر رام کو مندر کی صورت میں ایک گھر مل گیا لیکن افسوس اس بات کا بھی ہوا کہ رام کے گھر کو بنانے کے لئے انتہاپسندوں نے ہر حد کوپار کر دی۔ایک ماہ سے منی ٹرک وسطی ہندوستان کے ضلع یاوتمال کے دیہاتوں میں رام کا پوسٹر لگا کر گھوم رہے ہیں۔ لیکن یہ ٹرک پریشان کسانوں کی کوئی مدد نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ پوسٹروں پر ہندو دیوتا رام کی تصویر کے ساتھ اطراف میں گھوم گھوم کر کسانوں کو اناج عطیہ کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ یہ اناج ایودھیا آنے والے لاکھوں عقیدت مندوں کے لئے اکھٹا کیا جارہا تھا۔ ایودھیا میں گھہما گھہمی کا سبب رام مندر کے افتتاح تھا۔ یعنی  22جنوری کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی رام مندر کا افتتاح کرنے والے ہیں۔رام مندر کا قیام ٹھیک اسی جگہ ہونا تھا جہاں تین دہائی قبل ہندو قوم پرستوں کی قیادت میں ایک ہجوم نے تاریخی مسجد کو ڈھا دیا تھا۔

جو ٹرک غذا کی تلاش میں اطراف میں گھوم رہے ہیں وہ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)کے کارگزار چلا رہے ہیں۔ جو ہندو قوم پرست نیٹ ورک سنگھ پریوار کا ایک حصہ ہے۔ جس کی قیادت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کرتی ہے جس میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھی شامل ہے۔یاوتمال کے سمودھن چوک کا منظر دیکھنے لائق تھا جہاں کارکنان جلدی جلدی سے بڑے بڑے کنٹینر میں اناج کی بوریوں لاد رہے ہیں۔اس موقع پر کارکنان کے علاوہ موجود وی ایچ پی کے بہت سے رضا کار بھی موجود تھے جو کسانوں اور علاقائی لوگوں کوتقریب میں شامل ہونے کی تحریک دے رہے تھے۔

سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی تحریک چل رہی تھی، اس جگہ کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ رام یہاں پیدا ہوئے تھے۔رام مندر کا مسئلہ اتنا سنگین اور پیچیدہ تھا جس کی وجہ سے کئی بار تشدد اور فسادات کی وجہ سے لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ انسی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق تقریباً 2500لوگ، 1990کی دہائی کے اوائل میں رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ کرنے والے بی جے پی کی زیر قیادت مظاہرے کے ارد گرد پھوٹنے والے تشدد کے دوران مارے گئے تھے۔

بہر حال 22جنوری کو رام مندر کا افتتاح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو کرنا ہے اور خبر کے حوالے سے ہندو دھرم کے چار شنکر اچاریوں نے اپنی اپنی ناراضی کا بھی اظہار کیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب رام مندر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تو کیوں مندر کے افتتاح میں اتنی جلد بازی کی جارہی ہے۔ وہیں  دوسری طرف انتظامات کا یہ حال ہے کہ فتتاحی پروگرام کو دنیا بھر کے ساٹھ ممالک میں براہ راست نشر کیا جائے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کرنا نریندر مودی کے لئے فائدہ مند ہوگا کہ اس طریقہ کار سے 2024کے عام انتخاب حالات ساز گار ہوجائیں گے۔

ہندو انتہا پسندوں نے منظم سازش کے تحت  1992  میں بابری مسجد کو نشانہ بنا کر شہید کر دیا اور ہزاروں مسلمانوں کی جان بھی لے لی گئی۔تب سے اب تک ہندوستان سمیت دنیا بھر کے ہندؤں میں مسلمانوں کے خلاف ایک ایسی نفرت بھر دی گئی ہے جو کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ آئے دن ایسی ایسی خبریں سننے کو آتی ہیں کہ کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔کبھی مسلمان لڑکیوں کا ہندو لڑکوں سے گھر واپسی کے نام پررشتہ قائم کرنے کی خبر، تو کبھی گائے کے نام پر مسلمانوں کا قتل و عام تو کبھی ہندو راشٹر کی بات، تو کبھی پاکستان سے غیر مسلم کو لاکر ہندوستان میں بسانے کی بات۔ان باتوں کے علاوہ ایک سیاسی جماعت اپنے مفاد کے لئے خوامخواہ ان باتوں کو اجاگر کر کے جہاں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت اور تعصب کو پھیلا رہی ہے تو وہیں مسلمانوں میں بھی ان کے رویے اور رجحان سے کافی بے چینی پائی جارہی ہے۔

عام طور پر  پچھلے کچھ برسوں سے ہندوستان کی پُر امن فضا میں کشیدگی کا احساس ہورہا ہے۔ خاص کر بابری مسجد کو جس طرح شہید کیا گیا اور ہندو کارسیوکوں کے جارحانہ رویّے سے ہندوستان کے زیادہ تر ریاستوں میں کشیدگی پائی جارہی ہے۔ہندو دھرم کے نام نہاد ٹھیکے داروں کا دعوٰی تھا کہ وہ رام مندر وہیں بنائے گے جہاں بابری مسجد تھی۔رام مندر کی تعمیر کرنے کے آڑ میں بی جے پی ہندوئں کے جذبات کو بھڑکا کر زیادہ تر ریاستوں میں اپنی حکومت بنا چکی ہے اورجس کے نتیجے میں 2014کے عام چناؤ میں بی جے پی کو بھاری اکثریت سے کامیابی بھی ملی تھی اور اسی کامیابی کے تناظر میں ہندو راشٹر بنانے کی مہم کو تیز کر دیا گیا تھا۔

تاہم’ہندوراشٹر‘ بنانے کا خواب بی جے پی کے سیاستداں برسوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں اس سلسلے میں کافی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔کیونکہ ہندوستان مختلف مذاہب، ثقافت، زبان اور ماحول کا ملک ہے۔رام کے اس دیش کو رحیم،بدھ، جین، گرونانک، اور کئی ایسے سادھو،سنت، پیر اور پیغمبروں نے اپنایا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور حصّے میں نہیں پائی جاتی ہے۔ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگ برسوں سے آپس میں بھائی چارے اور امن و سکون سے جی رہے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے لیڈروں نے ہر سال رام نومی کے تہوار کے موقعے پر اپنے ناپاک ارادے اور سماج دشمن کی حوصلہ افزائی کر کے ایک خاص فرقے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔تاہم حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہر سال یہ لوگ اپنے ناپاک اردوں میں جلسہ و جلوس کے ذریعے ہنگامہ کرتے ہیں اور کسی معصوم کی جان لے کر اس کا جشن مناتے ہیں۔لیکن کچھ ریاستوں میں حکومت اور انتظامیہ کا رویہ جانب دارانہ ہوتا ہے اور اقلیت متاثر ہوتی ہے۔

سوشل میڈیاسے یہ بھی پتہ چلا کہ کئی مسلم خواتین ان دنوں ہندوستان میں ہندوؤں کی عشق میں گرفتار ہوکر شادی رچا رہی ہیں۔ یہ اس بات کا اندیشہ بھی جگاتی ہے کہ ہندوستان میں مسلم خواتین کو ہندو مذہب کی طرف راغب کرنے کا کہیں آر ایس ایس کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہ ہو۔ جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ وہیں حجاب پہنی لڑکیوں کو بھجن پڑھتے ہوئے بھی سوشل میڈیا پر دیکھا جارہا ہے جو کہ محض ایک پروپگنڈہ لگتا ہے۔تاہم یہ باتیں کافی تکلیف دہ اور تشویش ناک بھی ہیں۔آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسندوں کے جارحانہ رویے سے اقلیت فرقے میں عدم تحفظ کا احساس نمایاں ہے۔گرچہ اقلیت فرقے کو بار بار اکسانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے لیکن اقلیت فرقے کے لوگ گنگا جمنی تہذیب کو بچائے رکھنے کے لئے جس ضبط و تحمل کا ثبوت پیش کر رہے ہیں وہ وقت کی ضرورت ہی نہیں قابلِ ستائش بھی ہے۔

 

 

Leave a Reply