You are currently viewing بھارت کا چندریان3 کامیابی سے چاند پر اترا

بھارت کا چندریان3 کامیابی سے چاند پر اترا

بچپن میں م نے یہ لوری اکثر بڑے بوڑھوں سے سنا کرتے تھے۔ سچ پوچھئے تو آج بھی اس لوری کو سن کر بچپن تو یاد آتا ہی لیکن اس کے بول اب بھی اتنے ہی پیارے لگتے ہیں جتنے برسوں پہلے لگتے تھے۔ چندا ماما دور کے۔ پوا پکائے گوڑ(گُڑ) کے۔

بچوں کا امریکی ٹی وی سیریل ’بئیر ان دی بِگ بلو ہاؤس‘ میں چاند کو بارہا دِکھایا گیا جس میں بئیر (ریچھ) اپنے مرکزی کردار میں چاند سے محبت اور گانے کو ہمیشہ ترجیح دیتاہے۔ اس کے علاوہ چاند کو دیکھنا اور اس کی سادگی اور خوبصورتی سے محظوظ ہونا ہر بچے کا قلبی لگاؤ ہوتا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ چاندکی مثال کو ہر عمر کے لوگ اپنے اپنے طور پر استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جوانی میں محبوب کی مثال چاند سے دینا ایک اہم تعریفی کلام ہوتا ہے۔ تو کہیں چاند بذاتِ خود ہر کسی کے لئے اس کا پسندیدہ دوست بن جاتا ہے۔

اردو شاعری کے علاوہ دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی چاند سے شعرا اور ادیب گریز نہ کر سکے ہیں۔ ہم سب کو ہندوستانی فلم ’چودھویں کا چاند‘ یاد ہے جس میں ایک گانے کو محبوب کی تعریف میں گاتے ہوئے چاند سے مشابہت دی جاتی ہے۔ ’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو۔ جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو‘۔ حالانکہ اس گانے کو فلمائے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا ہے لیکن یہ گانا آج بھی ہر کوئی اسی خوبصورت چاند کی طرح گنگناتا ہے جو ہر ماہ اپنی خوبصورتی کے لئے نمودار ہوتا ہے اور ہم سب اس کا دیدار کرتے ہیں۔

جوں جوں زمانہ ترقی کرتا گیا اور سائنس نے انسان کی زندگی کو آرائش اور اپنے ارد گرد کی چیزوں کو مزید جاننے کی صلاحیت پیدا کی تو انسان کی جستجو اور تشنگی نے اسے ایک دن چاند پر بھی پہنچا دیا۔ 1969میں امریکہ نے اپولو 11 نامی خلائی جہاز کے ذریعہ پہلی بار کچھ انسانوں کو چاند پر بھیجا تھا۔تاہم 1969 سے 1972 تک امریکہ 6لوگوں کو چاند پر بھیج چکا ہے۔آپ کو نیل آرم اسٹرونگ کا نام تو یاد ہی ہوگا جس نے سب سے سے پہلے چاند پر قدم رکھا تھا۔نیل آرم اسٹرونگ کا یہ مشہور جملہ One Giant Leap For Mankind ’انسانیت کے لئے ایک عظیم جست‘ کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔لیکن وہیں یہ ساراماجرا ایک من گھڑت کہانی بھی کہی جاتی ہے۔جس پر کئی دستاویزی فلمیں بنا کر امریکہ کو چاند پر جانے کی دعویٰ کو جھوٹا کہا جاتا ہے۔

 تاہم 1959میں سویت یونین نے سب سے پہلے چاند پر اپنا خلائی جہاز لونا 2 بھیجا تھا۔ چین بھی اپنا ایک خلائی جہاز چاند پر بھیج چکا ہے۔ اس کے علاوہ چاند پر پہنچنے کے لئے کئی مزید ممالک کوشش کر رہے ہیں۔ جس میں اب تک روس، امریکہ اور چین کو ہی کامیابی مل پائی ہے۔ اسرائیل نے بھی پچھلے سال چاند پر پہنچنے کی ایک ناکام کوشش کی تھی۔لیکن 23اگست کو ہندوستان بھی روس، امریکہ اور چین کے ساتھ چاند پر پہنچنے والا چوتھا ملک بن گیا ہے۔تاہم ہندوستان نے بھی 2008میں چندریان 1چاند پر بھیجا تھا۔ جس کا مقصد تھا کہ ریڈار کے ذریعہ پانی کا پتہ لگایا جائے۔ اس کے بعد ہندوستان نے 2019 میں چندریان 2کو چاند پر بھیجا۔ جس کی خبر دنیا بھر کے اخباروں میں پڑھا گیا اور ٹیلی ویژن پر بھی دکھائی گئی۔ہم بھی اس خبر سے لطف اندوز ہوئے تھے لیکن چندریان 2 چند غلطیوں کی وجہ سے چاند کی سطح پر حادثے کا شکار ہوگیا۔جس سے ہمیں کافی مایوسی ہوئی۔لیکن داد دینی ہوگی بھارتی وزیراعظم مودی کو جنہوں نے فوراً قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھائیو اور بہنو، ہمیں اپنے سائنسدانوں پر فخر ہے جو چندریان 2کو چاند پر اتارتے اتارتے رہ گئے۔

یہاں یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ انڈین اسپیس وزیراعظم مودی کے دور کا کارنامہ نہیں ہے بل کہ  1969میں انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کی بنیاد رکھی گئی تھی، اس کا بنیادی ہدف کافی آسان تھا۔ طوفانوں کی پیشن گوئی، سیلاب کو کم کرنے اور ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن کو تقویت دینے کے لیے سیٹالئٹس کو ڈیزائین دینا اور لانچ کرنا اس کا مقصد تھا۔اس سنگ میل مشن کے پیچھے سیکروں سائنسدانوں کی برسوں کی محنت ہے۔

چندریان 3دراصل 2008میں ملک کے پہلے چاند مشن چندریان 1کے پندرہ سال بعد آیا ہے۔ جس نے خشک چاند کی سطح پر پانی کے مالیکیولیز کی موجودگی کا پتہ لگایا اور یہ ثابت کیا کہ چاند دن کے وقت ماحول رکھتا ہے۔اس مشن کے بڑے اہداف میں سے ایک، پانی پر مبنی برف کی تلاش ہے جو سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں چاند پر انسانوں کی رہائش میں مدد گار ہو سکتی ہے۔ اس کھوج سے ایک مسئلے کا حل ہوسکتا ہے کہ دنیا کا سب گنجان آبادی والا ملک ہندوستان کی آدھی آبادی چاند پر جا کر بس سکتی ہے۔اور وزیراعظم مودی بھی چاند پر اپنے من کی بات سے لبھاتے رہیں گے۔

ناسا کے مطابق چاند کا جنوبی قطب، سائنس اور انجانی باتوں سے بھرا ہواہے۔ ایسے گہرے گڑھے ہیں جو اربوں سالوں سے سورج کی روشنی سے محفوظ رہے ہیں۔ جہاں درجہ حرارت 248 سنٹی گریڈکی حیران کن حد تک کر سکتا ہے۔ پانی ایک اہم وجہ ہے جس کی وجہ سے سائنسدان قمری جنوبی قطب کے ارد گرد کے علاقے کو تلاش کرنا چاہتے ہیں۔سائنس دانوں کا خیال ہے کہ منجمد پانی لاکھوں سالوں میں سرد قطبی خطوں جمع ہوسکتا ہے اور سائنسدانوں کو ہمارے نظام شمسی میں پانی تاریخ کا تجزیہ کرنے اور اسے سمجھنے کے لیے ایک منفرد نمونہ فراہم کرسکتا ہے۔

ان تمام باتوں کے علاوہ میں اب بھی زمین سے جڑے مسائل سے دھیان نہیں ہٹا پارہا ہوں۔ ہندوستان کے غریب عوام کے مسائل جو آزادی کے ستر برس بعد بھی حل نہیں ہو پائے۔ مذہبی نفرتوں کے مسائل جو ہندوستان کی یکجہتی کو پامال کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بدعنوانی کے مسائل جنہوں نے ملک میں بدعنوانی کو جائز بنا دیا ہے۔ سیاست کا گرتا ہوا معیار جس کے ذریعہ جرائم پیشہ لوگ اپنا الّو سیدھا کر رہے ہیں۔ جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازش جس میں اپنی اور پارٹی کی من مانی کے ذریعہ شگاف ڈالا جارہا ہے۔اور اس طرح نہ جانے کتنے مسئلے مسائل ہیں جس کا نہ کوئی پرسانِ حال ہے اور نہ کوئی سننا والا۔

میں کسی بھی ملک کی ترقی اور کامیابی کے لئے فخر محسوس کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی مجھے اس بات سے بھی تکلیف ہوتی ہے جب اس ترقی اور کامیابی کے پیچھے جن لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے کیا انہیں ان کا حق اور صلہ ملتا ہے۔ کیا ملک کے مسائل کو بالائے طاق رکھ کر چاند پر اترنے کی کوشش کو سراہنا درست ہے۔ شاید قومیت کے جذبے اور سیاستدانوں کے جھوٹے پروپگنڈے سے معصوم عوام اسے درست مانیں گے۔ لیکن میں اسے محض ایک کھوکھلاپروپگنڈہ سمجھوں گا۔ جس سے فائدہ شاید مٹھی بھر لوگوں کو ہی پہنچ پائے گا۔تاہم ہم ہندوستانی سائنسدانوں کوسلام کرتے ہیں جن کی رات دن کی محنت نے اس مشن کو کامیاب کیا۔

ٹیکس ادا کرنے والے کروڑوں  ڈالر کی لاگت سے بنا ہوا راکٹ چندریان 3 چاند پر پہنچ گیاجو کہ ایک فخریہ بات ہے۔ لیکن ہمیں زمین پر آبادکروڑوں انسانوں کے مسائل کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔جو شاید کبھی بھی چاند پر نہ جاسکیں کیونکہ ان کے مسائل زمین سے جڑے ہیں۔لوگوں کو کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں چاند پر پہنچنے کا خواب دکھا کرہمیں ہمارے مسائل سے الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہمارے قدم زمین پر ہی رہیں گے۔

Leave a Reply