You are currently viewing فن و ثقافت کا شہر ویانا

فن و ثقافت کا شہر ویانا

الحمداللہ آج ہمارا یہ 400واں کالم ہے۔ پچھلے دس برس سے ہر ہفتے کالم لکھنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، اس نے  دس برسوں میں 400 سیڑھیاں طے کر لی ہیں۔ لیکن ہر کالم کو لکھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر کالم کو لکھ کر ہم نے کچھ سیکھا ہے۔ اس کے علاوہ میرے قاری نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی اور نیک مشوروں سے نوازا ہے جس کا میں شکر گزار ہوں۔

 اس حوالے سے میرے مرحوم دوست ڈاکٹر شکیل احمد خان نے ایک کتاب ’لندن کی ڈائری‘ کے نام سے ترتیب دیا تھا۔یہاں یہ بتانا بھی دلچسپ ہے کہ 2014میں کچھ لوگ میری تحریر پر اپنی ذاتی رنجش کی بنا پربلا وجہ کچڑ اچھال کر اخبارات کے مالکان کو میرے خلاف اکسا رہے تھے۔اس وقت میں بہت دل برداشتہ ہوا تھا اور پریشان و مایوس ہو کر طے کیا کہ اب مزید کالم نہیں لکھوں گا۔ لیکن مجھے آج بھی اپنے مرحوم دوست ڈاکٹر شکیل احمد خان کی وہ بات یاد ہے جب اس نے کہا کہ ’فہیم، یہ مٹھی بھر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ تم کالم لکھنا بند کر دو، لیکن تمہیں لکھتے رہنا ہے تا کہ ان کا منہ بند ہوجائے۔‘ خیر کہتے ہیں، وَتعزِ مِن تِشا ءُ وتذِل ّمِن تِشِا ءُ۔یعنی اللہ جسے چاہے عزت بخشے جسے چاہے ذلیل کر دے۔

 پچھلے ہفتے ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ویانا کے سفر کی روداد مزید لکھوں گا کیونکہ پوری بات ایک کالم میں لکھنا کافی دشوار تھا۔ ہوٹل ویانا ڈسٹرکٹ 6میں واقع تھا۔ویانا 23 ڈسٹرکٹ میں پھیلا ہوا ہے۔ آسٹریا کی آزادی کے معاہدے نے آسٹریا کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر دوبارہ قائم کیا۔ اس پر 15 مئی 1955کو ویانا میں، اتحادی قابض طاقتوں (فرانس، برطانیہ، امریکہ اور سوویت یونین) اور آسٹریا کے درمیان اسکولس بیلویڈئیر میں دستخط کیے گئے جو باضابطہ طورپر27 جولائی 1955کو نافذ ہوا۔

ہوٹل آر کوٹل ویمبرگر ایک چار منزلہ ہوٹل ہے جس میں آرائش کی تمام چیزیں مہیا تھیں۔ تاہم آسٹریا کے حکومت کی سختی کی وجہ سے ویکسن سرٹیفیکٹ اور ایف پی پی 4فیس ماسک کے بنا نہ آپ کسی دکان میں داخل ہوسکتے تھے اور نہ ہی آپ کہیں بیٹھ کر کھا پی سکتے تھے۔ اس کے برعکس لندن میں فیس ماسک پہننا اب ضروری نہیں ہے اور ویکسن سرٹیفیکٹ بھی لازمی نہیں رہا ہے۔خیر ہم نے کوٹ کی دونوں جیب کو ان چیزوں سے بھر رکھا تھا تاکہ ہمیں ویانا کی سیر سے محروم نہ ہونے پڑے۔ہوٹل کے پاس سے ہی ہم ٹرام پر سوار ہو کرجسے جرمن زبان میں شاید میٹرلنگ ہاؤس کہتے ہیں کے لیے روانہ ہوگیا۔ خیر میٹرلنگ ہاؤس ایک بڑا گرین ہاؤس ہے جہاں آپ مصنوعی گھر میں تتلیوں کی مختلف اقسام کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک آرٹ نوو عمارتوں میں واقع ہے جہاں 500 آزاد رہنے والی تتلیوں کا گھر ہے۔

یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ ٹرام، بس اور میٹرو ٹرین پر سوار ہونے کے لیے نہ کہیں ٹکٹ مشین میں ٹکٹ ڈال کر داخل ہوا جاتا ہے اور نہ کوئی آپ سے ٹکٹ مانگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سارے فری ہیں بلکہ ٹکٹ تو ہم نے خرید لئے تھے لیکن کہتے ہیں کہ آسٹریا کی حکومت کو اپنے لوگوں کی ایمانداری پر اتنا یقین ہے کہ اس نے ٹکٹ بیرئیر لگانا ضروری نہیں سمجھا ہے۔ شاید یہ باتیں آپ کو کہانی لگتی ہو۔ لیکن یہ سچ ہے جسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ  ہمارے ملک اور وہ ممالک جہاں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے، ایسا کیوں نہیں ہے۔ شاید ہم اس کا جواب جانتے ہیں کیونکہ حقیقت میں ہم عملی طور پر مسلمان ہی نہیں ہیں جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔

ویانا کی سب سے مشہور نیش مارکٹ ہے جودریائے وائن کے اوپر وینزیل میں واقع ہے۔یہ تقریباً 1.5کلو میٹر لمبا ہے۔ یہ مارکٹ16 ویں صدی سے قائم ہے۔ یہاں پھل اور سبزیاں بکتی ہیں اس کے علاوہ جڑی، بوٹیاں پنیر، رولز، گوشت اور مچھلیاں وغیرہ بھی بکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں چھوٹے چھوٹے ریستوراں بھی ہیں جو شیش کباب روایتی وینز کھانا جیسے کیزر شرما رن یا پالا ٹشینکن بکتے ہیں۔ ہم نے بھی کچھ فلافل کھائے اور کچھ پنیر کی خریداری بھی کی۔ یوں تو ہم نے کلکتہ کی کافی ہاؤس کا نام سن رکھا تھا اور سچ پوچھئے تو اپنے طالب علمی کے زمانے میں کبھی کبھار کافی پینے بھی چلا جاتا تھا۔ میں نے سوچا کیوں نہ ویانا کے دانشوروں کے کافی ہاؤس کیفے اسپرل بھی دیکھ لیا جائے۔

 کیفے اسپرل ویانا کے ماریا ہیلف 6ڈسٹرکٹ میں گمپینڈوف اسٹراس میں واقع ہے۔ جیکب روناچر نے 1880میں کیفے رونا چر کے نام سے کیفے کی بنیاد رکھی۔ کیفے اسپرل میں لکڑی کے فرش، ماربل ٹیبل، کرسٹل فانوس اور بلئیرڈ ٹیبل ہیں۔ یہاں یہ بھی بتا تا چلوں کہ تین بلئیرڈ ٹیبل میں سے دو بلئیرڈ ٹیبل پر اخبارات اور کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ اور ایک بلئیرڈ ٹیبل جس پر چند بال بکھرے ہوئے تھے جو شاید کسی کھلاڑی کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ ایک ٹھوکر مارے۔کیفے اسپرل مصنفین، فنکاروں، معماروں،موسیقاروں اور اداکاروں سے بھرا ہوا تھا لیکن آپ کو نہ کسی کی زور سے بات کرنے کی آواز سنائی دے گی اور نہ آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کسی بھیڑ بھاڑ میں بیٹھے ہیں۔

ویانا کا بیلویڈر دنیا بھر کے معروف میوزم میں سے ایک ہے۔اس کے مشہور آرٹ کلیکشن میں قرون وسطی سے لے کر آج تک کے کام شامل ہیں۔ اس میں بادشاہ کی طرز رہائش اور کھانے پینے کے کمروں کو سیاحوں کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بادشاہ کس طرح اپنی زندگی گزارتے تھے۔ بیلویڈر محل کا باغ توجہ کا مرکز ہے جو کافی وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔18ویں صدی سے 1918تک، ’شو نبرن ہ‘یمسبرگ کے بادشاہوں کی رہائش گاہ تھی۔اسے آرکیٹیکس جوہان برن ہارڈفشر وون ایر لاچ اور نکولس پیکاسی نے ڈیزائن کیا تھا اور یہ آرائشی فن کی شاندار مثالوں سے بھرا ہے۔ 1683میں ترکی کے آخری حملے کے دوران مکمل تباہی کے بعد اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔(دلچسپ بات یہ ہے کہ آج آسٹریا میں ترک، جسے ترک آسٹریا اور آسٹریا کے ترک بھی کہا جاتا ہے وہ ملک میں سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہے)۔ اس طرح یہ ہیمسبرگ سلطنت کے عروج اور شان کی نمائندگی کرتا ہے۔

ان کی عمارتوں کے ساتھ وسیع باغات اور مجسمے محل کے شاہی طول و عرض اور افعال کی گواہی دیتے ہیں۔1441کمروں پر مشتمل محل ملک کی سب سے اہم تعمیراتی، ثقافتی اور تاریخی یادگاروں میں سے ایک ہے۔محل اور اس کے وسیع باغات کی تاریخ 300سال پر محیط ہے، جو یکے بعد دیگر ے ہیسبرگ بادشاہوں کے بدلتے ذوق، دلچسپیوں اور خواہشات کی عکاسی کرتی ہے۔

ویانا کے سٹی سینٹر میں واقع سینٹ اسٹیفن کیتھیڈرل جسے عام طور پر اس کے جرمن لقب سے جانا جاتا ہے۔کیتھیڈرل کی موجودہ رومنسک اور گوتھک شکل، جو آج سٹیفا نسپلاٹز میں نظر آتی ہے، بڑے پیمانے پر ڈیوک روڈولف چہارم   شروع کی تھی اور یہ پہلے کہ دو گرجا گھروں کے کھنڈرات پر کھڑا ہے۔ پہلا پیرش چرچ جو 1147میں بنایا گیا تھا۔ سینٹ اسٹیفن کیتھیڈرل نے ہیبسبرگ اور آسٹریا کی تاریخ میں بہت سے اہم واقعات کی گواہی دی ہے اور اپنی کثیر رنگی ٹائل کی چھت کے ساتھ، شہر کی سب سے زیادہ پہچانی جانے والی علامتوں میں سے ایک بن گئی ہے۔

آج ہم نے مختصر طور پر آپ کو ویانا شہر کا تاریخی پس منظر پیش کیا جس کا مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی ویانا پسند آیا ہوگا۔ان شاء اللہ زندگی رہی تو ہم دنیا کے اور بھی ملکوں اور شہروں کا سیر کرتے رہیں گے۔

Leave a Reply