You are currently viewing برلن کا ادبی اور ثقافتی سفر

برلن کا ادبی اور ثقافتی سفر

3
مئی کوایمسٹرڈیم میں چار روز قیام کے بعد معروف ادیب، شاعر اور سماجی کارکن محمد حسن اور ان کی بیگم اور بیٹے کے ہمراہ بذریعہ ٹرین صبح پانچ بجے سنٹرال اسٹیشن سے برلن کے لئے روانہ ہوئے۔رات کی سیاہی  میں  ایمسٹرڈیم کو ابھی سویا ہؤا تھا۔مگرچڑیوں کی چہچہاہٹ نے لوگوں کو جگانا شروع کر دیا تھا۔

 سنٹرال اسٹیشن کی خاموشی سے ایسا محسوس ہوا کہ اسٹیشن اب بھی نیند کے آغوش میں ہے۔تاہم دھیرے دھیرے مسافروں کی آمد اور دکانوں کے کھلنے سے ہماہمی شروع ہوچکی تھی۔ہم پلیٹ فارم 12 پر پہنچ کر ٹرین کا انتظار کر رہے تھے مگر ٹرین اب تک پلیٹ فارم پر نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ تبھی محمد حسن صاحب کو پتہ چلا کہ ٹرین پلیٹ فارم کے سامنے حصے پر کھڑی ہے۔وقت کی کمی کے باعث ہم اپنا ہلکا پھلکا سامان اٹھائے تیزقدموں سے ٹرین پکڑنے کے لئے چلنے لگے اور تھوڑی دیر میں ہم ٹرین پر سوار ہوگئے۔ٹرین کافی صاف ستھری تھی ور اس میں ناشتہ، چائے بھی بیچنے کا انتظام تھا۔سات گھنٹے کے سفر کے بعد ہم برلن کے  اسٹیشن ہاؤکٹ بان ہوف پہنچ گئے۔

اسٹیشن مسافروں سے بھرا ہوا تھا اور ہر کوئی سامان اٹھائے ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر بھاگتے ہوئے دکھائی دے رہاتھا۔مجھے جرمن زبان کے تلفظ میں کافی دشواری ہورہی تھی اس لئے میں نے محمد حسن صاحب اور ان کے ذہین بیٹے ارباب کو ٹکٹ خریدنے کی ذمہ داری سونپ دی۔تھوڑی دیر قطار میں کھڑے رہنے کے بعد ایک اسٹاف نے ہمیں انگریزی میں مخاطب ہو کر مشین کے ذریعہ ٹکٹ خریدنے میں مدد کی۔ اس اسٹاف کے مشورے پر ہم نے چوبیس گھنٹے کا ایک ٹکٹ لیا جس پر پانچ لوگ ایک ساتھ سفر کر سکتے تھے۔ جس کے لئے ہمیں تیس یورو ادا کرنے پڑے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جرمنی اسٹیشن پر داخلے اور باہر نکلنے کے لئے کوئی ٹکٹ بیرئیر نہیں ہوتا ہے۔تاہم ٹکٹ چیک کرنے والا عملہ گھومتا رہتا ہے۔

ٹکٹ لے کر ہم برلن کے پلیٹ فارم 9پر پہنچ کر اپنے ہوٹل جانے کے لئے ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ابھی ہم ادھر اُدھر تانک جھانک میں لگے تھے کہ اچانک ہماری ٹرین پلیٹ فارم پر تیزی سے آ پہنچی۔ ہم چاروں ٹرین پر سوار ہو کر ہوٹل کے قریب اسٹیشن شارلوٹن برگ پہنچنے کا انتظار کرنے لگے۔ میں ٹرین پر لکھے مختلف اسٹیشن کا جرمن نام بمشکل پڑھ پا رہا تھا۔ سچ پوچھیے تو میں جرمن زبان کے غلط تلفظ سے کیا کیا بکے جارہا تھا،میری اردو نما جرمن پر محمد حسن صاحب اور ان کی بیگم اور بیٹے ہنس ہنس کر مزہ لے رہے تھے۔

اسٹیشن سے تھوڑی دور پر ہمارا ہوٹل تھا۔ ہوٹل کے قریب ترکی نژاد  کافی لوگ گھومتے پھرتے دکھائی دیے۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد ہم معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، ترقی پسند تحریک کے اہم رکن اور دانشور  عارف نقوی کی دعوت پر الکزا نڈر  پلاتز نکل پڑے۔ 2018  میں جب برلن جانے کا اتفاق ہوا تو میری ملاقات عارف نقوی صاحب سے ہوئی تھی۔یوں تو عارف نقوی  سے میرا غائبانہ تعارف ایک عرصے سے تھا اور ان کی تحریروں اور شاعری سے میں اچھی طرح واقف تھا۔عارف نقوی نے یورپ اور خاص کر جرمنی میں اردو زبان کی بے پناہ خدمت کی ہے جس کا اعتراف نئی نسل کے لکھنے پڑھنے والوں نے بھی کیا ہے۔ عارف نقوی پچھلے باسٹھ برس سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ میری ان سے براہ راست ملاقات جرمنی اور لندن میں کئی بار ہوئی۔ مجھے ا یہ  اعتراف کرتے ہوئے فخر محسوس ہورہا ہے کہ جناب عارف نقوی سے ہم نے کافی کچھ سیکھا ہے۔حال ہی میں ان کی انگریزی کتاب” سیکِسٹی ائیر اِن جرمنی” کو مطالعہ کرنے کا موقع ملا جو نایاب اور دلچسپ واقعات پر مبنی ہے۔

عارف نقوی نے ہمیں الکزا نڈر پلاتز پہنچ کر ٹی وی ٹاور کے پاس انتظار کرنے کو کہا۔ہم الکزا نڈر پلاتزپہنچ کر ٹی وی ٹاور کے قریب  عارف نقوی کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر بعد عارف نقوی بھی الکزا نڈر پلاتز پہنچ گئے اور ہم سب مل جل کر عارف نقوی کے ساتھ ٹرین پر سوار ہو کر ایک ہندوستانی ریسٹورنٹ پہنچے۔ جہاں پاکبان انٹرنیشنل کے چئیر مین ظہوراحمد اور عامرعزیز  سے بھی ملاقات ہوئی۔ لذیذ کھانوں کے ساتھ ساتھ عارف نقوی کے ساتھ گپ شپ نے یوں محظوظ کیا کہ ہمیں وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔ اس موقع پر ہم نے اپنے افسانے کا دوسرا مجموعہ جناب عارف نقوی کو” فہیم اختر کے افسانے” بطور تحفہ پیش کیا اور آئندہ ملنے کا وعدہ کرتے ہوئے ہم سب واپس ہوٹل لوٹ آئے۔

گھومنے پھرنے کا سلسہ جاری رہا اور دوسرے روزمحمد حسن اور ان کی بیگم اور بیٹے کے ہمراہ ہم برانڈن برگ گیٹ، ریستیگ بلڈنگ، دی کیسر ولہیم میموریل چرچ، برلن وال اور چیک پوائینٹ چارلی دیکھنے بھی گئے۔ چارلی پوائینٹ پر سیّاحوں کا ہجوم تصویریں اتروانے میں مصروف تھا جو شاید ان دنوں کو یاد کر رہے تھے جب مشرقی جرمنی والوں کو مغربی جرمنی آنے کے لئے پاس رکھنے کی ضرورت پڑتی تھی۔یہاں ایک دلچسپ واقعہ میں آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہتاہوں۔ جب ہم اس علاقے میں جانے کے لئے بس پر سوار ہوئے تو ہمیں وہاں پہنچنے کے لئے بس ڈرائیور سے معلومات حاصل کرنی تھی۔ جرمن لیڈی بس ڈرائیور پہلے تو انگریزی میں کچھ معلومات فراہم کیں پھر انہوں نے جب بنگالی زبان میں بات کرنی شروع کی تو ہمارے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ دراصل جرمن لیڈی کی شادی کافی عرصے پہلے ایک بنگلہ دیشی شخص سے ہوئی تھی اور انہوں نے بنگلہ دیش کا سفر بھی کیا تھا۔ دوران سفر جرمن لیڈی ڈرائیورنے ایک بنگالی گانا بھی گایا اور ہم سب کچھ پل کے لئے جرمن لیڈی کی گفتگو سے خوب محظوظ ہوئے۔

میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ زبان سیکھنے کے لئے گھر کا ماحول، تعلیم یا صحبت ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کوئی زبان بولنا یا سیکھنا چاہے تو وہ ا س  کی پسند اور شوق ہوتاہے۔اگر میں خود کی مثال دوں تو میں نے بنگلہ زبان بائیس سال کی عمر میں سیکھی جب میں کلکتہ یونیورسٹی میں اردو ادب کا طالب علم تھا۔ایسی کئی مثالیں ہیں مثلاً برطانیہ کے رالف راسل، ڈیوڈ میتھوز اور بی بی سی کے مارک ٹولی جیسے معروف ادیبوں کا بھی نام لیا جاسکتا ہے جن کی زبانیں انگریزی ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اردو زبان میں مہارت حاصل کی۔

5مئی کو پاکبان انٹرنیشنل کے چئیر مین ظہور احمدنے ویڈنگ علاقے میں واقع آشیانہ ریسٹورنٹ میں ایمسٹرڈیم سے تشریف لائے معروف ادیب اور شاعر محمد حسن  اور میرے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا ہتمام کیا تھا۔ جس میں جرمنی کے کئی ادیبوں اور صحافیوں نے شرکت کی تھی۔ ظہور احمد نے ہم سب کا تعارف کرایا اور  عارف نقوی کی صدارت میں ہم سبھی نے اپنی نظمیں اور غزلیں پیش کیں۔اس کے بعد ظہور احمد نے ایک عشائیہ کا بھی اہتمام کیا تھا جس سے ہم سب کافی محظوظ ہوئے۔

میں اردو کی خدمت اور اس کی بقا کے لئے کام کرنے والے جرمنی کے تمام دوستوں کے ساتھ جناب عارف نقوی اور ظہوراحمد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جنہوں نے جرمنی میں اردو زبان کو اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ میں برلن کے اس یاد گار سفر کو کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔

6مئی کو دس بجے صبح معروف صحافی جناب مطیع اللہ کی دعوت پر ہم ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ جہاں انہوں نے ہماری تواضع پنجابی ناشتے سے کی۔ تھوڑی دیر  مطیع اللہ کے ساتھ وقت گزار کر ہم بذریعہ ٹرین برلن کے برادن بورگ ائیر پورٹ پہنچ گئے اورشام پانچ بجے جہاز پر سوار ہوکر ایمسٹرڈیم اور برلن کی خوبصورت اور یادگار سفر کی یادوں کے ساتھ واپس لندن لوٹ آئے۔

Leave a Reply