You are currently viewing اب کہاں یہ ایماں ہے اور کہاں مسلماں ہے

اب کہاں یہ ایماں ہے اور کہاں مسلماں ہے

میں نے اس بات کو ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ زیادہ تر مسلمان کو صرف نام اور اس کے خد و خال سے پہچانا جاتا ہے۔ آج کل پوری دنیا میں جس طرح سے مسلمانوں کے خلاف ایک خاص سازش کے تحت انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے صرف مسلم نام کا ہونا ہی کافی ہے۔

اگر تھوڑی دیر کے لئے آپ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی مثال لیں تو آپ کو میری بات سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی۔ ہم نے بچپن سے ہندوستانی فلموں میں یہ دیکھا ہے کہ ایک بدنام کردار کو فلموں میں جب دکھایا جاتا ہے تو اس کی شکل پر داڑھی ضرور ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کرتا اور شلوار اور ساتھ میں کاندھے پر ایک خاص قسم کا کپڑا جسے شاید اسلامی لباس مانا جاتا ہے۔کئی فلموں میں مرد یا عورتوں کو غلط طریقے سے کام کروانے کے لئے انہیں برقعہ پہنا دیا جاتا ہے۔ جس سے سے لوگوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ برقعہ کا استعمال دراصل غلط کام کرنے والے ہی استعمال کرتے ہیں۔  کئی ممالک میں اب بھی دیگر مذاہب کے لوگ مسلم ناموں کا استعمال کرتے ہیں۔جس کی ایک وجہ مقامی ثقافت اور روایت ہے۔ مثلاً عراق کے معروف عیسائی لیڈر طارق عزیز جنہیں زیادہ تر لوگ مسلم سمجھتے تھے۔آج بھی بیشتر عرب ممالک میں عیسائیوں کے مسلم نام ہوتے ہیں۔ جس سے ہم اور آپ یہ جان کر خوش ہوجاتے ہیں کہ یہ آدمی یا عورت مسلمان ہیں۔ لیکن جب اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کا صرف نام ہی مسلم ہے بلکہ ان کا مذہب کچھ اور ہے تو جلد ہی ہماری رائے بدل جاتی ہے۔ جس کی ایک وجہ ذاتی طور پر ہمارا رویہّ اور سوچ ہوتا ہے۔

 عام طور پر ایک انسان کی پہچان اس کے نام سے ہی ہوتی ہے۔ پھر اس کے ملک اور مذہب سے اس کی پہچان کی جاتی ہے۔لیکن ہندوستان سمیت کئی ممالک میں جس طرح مسلمانوں کو پریشان یا ہراساں کیا جارہا ہے اس میں سب سے پہلے مسلم نام ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسلمان بیچارے کریں بھی تو کیا کریں۔ نہ تو ان کا کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی ان کی کوئی آواز سننے والا ہے۔  مسجدوں میں امام تو ہیں لیکن انہیں صرف نماز پڑھانے والا سمجھا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے قوم کے حق میں بات کرنے کی ٹھانی بھی ہے تو وہ معصوم مسلمانوں کو صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔اس کے علاوہ ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑی طاقتوں اور سیاسی پارٹیوں نے مسلمان لیڈروں کو اپنا پٹھو بنا رکھا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان یا تو مارے جارہے ہیں یا خوار ہو رہے ہیں۔ جو مسلمان مذہبی طور پر جی رہے ہیں ان میں اس قدر گمراہ کن باتیں پھیلا دی گئی ہیں کہ یہ لوگ آپس میں چھوٹے چھوٹے گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔

مجھے اس بات کا احساس ہے کہ بہت سارے مسلم ہندوستان کی کٹر پسند ہندو جماعت آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے حامی اور ممبر ہیں۔ان لوگوں نے فخریہ آر ایس ایس کے حق میں  بیانات بھی دئیے ہیں۔ مجھے اس بات سے کوئی بحث نہیں ہے کہ یہ برائے نام مسلمان کیوں اور کس بنا پر آر ایس ایس جیسی ہندو جماعت کی حمایت کر رہے ہیں۔ بلکہ میں اس مضمون کو پڑھ کرمطمئن ہوا کہ یہ برائے نام مسلمان کس لئے آر ایس ایس جیسی جماعت کی حمایت کر رہے ہیں۔لیکن حیرانی اس بات سے ہوئی کہ جو آر ایس ایس مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ زہر اگلتی ہے تو پھر یہ لوگ اس کے کیوں بھجن گا رہے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں اور کیوں کٹر پسند ہندو جماعتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیوں یہ لوگ بھجن گانا پسند کرتے ہیں تو کوئی گائے کی ذبیحہ پر پابندی کی حمایت میں ہے۔ یہاں یہ بھی حیرانی کی بات ہے کہ یہ تمام لوگ اپنے مذہب پر پورا یقین بھی رکھتے ہیں اوررام مندر کی تعمیر کی حمایت بھی کررہے ہیں۔ کچھ لوگ ہندو لیڈروں کی تقریروں سے متا ثر ہو کر ان جماعتوں میں شامل ہوئے ہیں تو کچھ لوگ ان کے اصولوں کی تعریف کر رہے ہیں۔

34 سالہ گلریز شیخ چند سال قبل آر ایس ایس میں شامل ہوئے تھے۔ یہ ایک ڈاکٹر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد اور دو بھائی جنرل سرجن ہیں۔ ان کی بیوی ایک جنرل طبیب ہیں اور ان کی بہن ایک گائنا کولوجسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بابری مسجد کو آر ایس ایس والوں نے توڑا ہے۔ کیا یہ کورٹ میں ثابت ہوا ہے۔ جب مسجد گرائی گئی تو میں وہاں موجود نہیں تھا۔ اب ہمیں ان باتوں کو بھلا کر حال میں جینا چاہئے۔شیخ کا یہ بھی کہنا ہے کہ رام مندر بنانے کی اجازت دینی چاہئے۔ گلریزشیخ کو آر ایس ایس سے متعارف کرانے میں ان کے والد کا ہاتھ ہے جو کہ ونواسی کلیان آشرم کے ممبر ہیں جو کہ آر ایس ایس پریوار کا ایک بازو ہے۔ گلریز شیخ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے آبا ؤاجداد ہندو تھے۔ گلریزشیخ اجین کے راشٹریہ مسلم منچ کے ضلع صدر بھی ہیں۔

لکھنؤ کی شبانہ اعظمی بھی آر ایس ایس کی ممبر ہیں۔ یہ پیشہ سے عربی زبان کی استاد ہیں۔ شبانہ کو سنگھ پریوار میں شامل ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ تاہم شبانہ کے گھر والوں کو شبانہ کے اس فیصلے سے کافی ناراضگی ہے اور جس کے لئے شبانہ کو کافی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ شبانہ کا کہنا ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے مذہب اور اپنے رسول کی زندگی کو جاننا چاہئے۔ شبانہ کو اتفاق سے ہندو لیڈر ماہی راج دھیرج سنگھ کی تقریر کو سننے کا موقعہ ملا۔ جس میں انہوں نے حضرت محمد ﷺ کی زندگی اور اس وقت کی باتوں کا ذکر کیا جسے شبانہ نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ شبانہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک مذہبی عورت ہیں اور وہ ہندو لیڈر کی باتوں کو سن کر کافی متاثر ہوئی جس کی وجہ سے انہوں نے آر ایس ایس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔

38 سالہ فیض خان جن کا تعلق رائے پور سے ہے اور آر ایس ایس کے ممبر ہیں۔ انہوں نے گؤ رکھشا پراکوشت کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ پورے ملک میں پیدل چل کر لوگوں کو گائے رکھشا کا پیغام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ یہ روزانہ گؤ گاتھا کرتے ہیں مطلب گائے پر بھجن گاتے ہیں۔ فیض خان پیشے سے پولیٹکل سائنس کے لیکچرر تھے۔لیکن آج کل انہوں نے اپنے پیشے سے استعفیٰ دے کر اپنا پورا وقت آر ایس ایس کی مہم میں لگا دیا ہے۔ فیض خان آج بھی رمضان میں روزہ پابندی سے رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رام مندر کو جلد تعمیر ہونی چاہئے کیوں کہ رام تمام ہندوستانیوں کے بھگوان ہیں اور تمام ہندوستانیوں کے آباؤ اجداد ہندو تھے۔

36 سالہ ذاکر حسین کی بھی کہانی کچھ اسی طرح سے ہے۔ ان کی والدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق کونسلر تھیں اور سنگھ کے لیڈروں سے ان کی بڑی قربت تھی۔ ذاکر حسین نے آر ایس یس کے دو سال کا نظریاتی کورس کیا ہے۔ذاکر حسین اب بھی پابندی سے نماز پڑھتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر جلد ہونی چاہئے کیونکہ رام کی جگہ رام مندر میں ہے۔ذاکر حسین نے کہا کہ مسلمانوں کو سبزی کھانا چاہئے اور جانوروں کو مارنا بند کرنا چاہئے کیونکہ اس سے ہندو مذہب کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

56 سالہ محمد افضل جو دلی میں رہتے ہیں اور پیشے سے ایک کاروباری ہیں۔ ان کی بیوی شبانہ افضل راشٹر سیوک سمیتی کی ممبر ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں محمد افضل کا رحجان آر ایس ایس کی طرف اس وقت بڑھنے لگا جب انہوں نے اپنے ایک استاد سے قوم پرستی کی بات سنی تھی۔ اس کے بعدبھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈرسکندر بخت کی تقریر سے متاثر ہو کر محمد افضل 1978میں جن سنگھ میں شامل ہوئے۔محمد افضل بھی پابندی سے نماز پڑھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ہندو راشٹر کے نام سے خوف زدہ نہیں ہوناچاہئے۔ محمد افضل بھی رام مندر کی تعمیر کے حق میں ہے۔

55 سالہ عنایت قریشی کا بھی یہی کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئے۔ یہ پیشے سے ایک کسان ہیں اور آر ایس ایس کے ممبر ہیں۔ عنایت قریشی بھی نماز کے پابند ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں آر ایس ایس کا ممبر بننا کوئی گناہ نہیں ہے۔ان تمام لوگوں کی باتیں سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ لوگ جہاں اپنے مذہب کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں تو وہیں قوم پرستی  کا  راگ بھی الاپ رہے ہیں۔ جس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ تو پھر آر ایس ایس کے موہن بھاگوت، یوگی، پروین توگڑیا اور اوما بھارتی کون سی جماعت اور ہندوراشٹر کی باتیں کر رہے ہیں۔ جن کی تقاریر کو سننے کے بعد انسان خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان کی تقاریر میں مسلمانوں کے خلاف سوائے زہر اگلنے کہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔

اگر یہ برائے نام مسلمان آر ایس ایس کی باتوں کی اتنی پذیرائی کر رہے ہیں تو پھرکن لوگوں نے بابری مسجد پر حملہ کیا تھا۔ محترمہ شبانہ

 نے تویہ کہہ کر حد ہی کر دی کہانہوں نے ایک ہندو لیڈر کو حضرت محمد ﷺکی زندگی کے بارے میں بولتے ہوئے سنا تو وہ کافی متاثر ہوئی۔ تو کیا شبانہ کو پتہ نہیں کہ ہندوستان میں اگرمسلمان ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان بنے تو اس کی ایک وجہ تو یہی ہوگی کہ اسلام مذہب کا خوبصور ت پیغام اور حضرت محمد ﷺ کی زندگی ہی اس کا سبب ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور دنیا بھر میں مسلمان اپنی مفاد پرستی اور اعلیٰ عہدے کی خاطر مذہب کے خلاف اوٹ پٹانگ بیان دے کر اور اپنے طور پر تشریح کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔جس کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان کے شیدائی اسے اس کی اپنی پسند یا اس کا حق بتاتے ہیں۔ جو کہ ایک قابلِ مذمت اور شرمناک بات ہے۔

آج کا یہ مضمون اس معنوں میں اہم ہے کہ اس سے ان برائے نام مسلمانوں کے بارے میں علم ہورہا ہے جو آر ایس ایس اور دیگر ایسے آرگنائزیشن کے ممبران ہیں جن کے ذریعہ مسلمانوں کو بدنام اور بھٹکانے کے لیے شازش کی جارہی ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں آر ایس ایس اپنے ناپاک ارادوں کے لئے ان مسلمانوں کو استعمال کررہا ہے۔جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔وقت کا تقاضہ یہ ہے ایسے اداروں سے جڑنے سے قبل اوراپنی مفاد پرستی کی خاطراپنے قوم کے اصول اور ضمیر کا سودا کرنے سے قبل ایک پل کے لیے سوچا جائے کہ ہم ان گمراہ کن باتوں سے کیاحاصل کر پائے گے۔میں اپنے اس شعر سے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:

اب کہاں یہ ایماں ہے اور کہاں مسلماں ہے

 حاصلِ سکوں کوئی اور  نہ کوئی  درماں  ہے

Leave a Reply