You are currently viewing کورونا سرٹیفکیٹ پر مودی کی تصویر کا تنازعہ

کورونا سرٹیفکیٹ پر مودی کی تصویر کا تنازعہ

کسے شہرت اور نا م آوری پسند نہیں ہے۔سچ پوچھیے تو اس بات کامیں بھی اعتراف کرتا ہوں کہ جب کبھی کوئی عہدہ مجھے ملا، بس صاحب مت پوچھیے مارے خوشی کے ایسی حالت ہوتی ہے کہ لگتا ہے کہ دنیا فتح کر لی۔

 لیکن صاحب مجھے اس بات کا بھی شدید افسوس ہے کہ جب میں نے عہدہ سنبھالا تو میں نے ایمانداری سے کام کرنے میں بھول ہی گیا کہ مجھے اپنی نام آوری کرنا ضروری تھا اور اس کے بعد سابق بھی لکھنا یا بتانا ضروری تھا۔ بھائی تبھی تو اب بھی جب کوئی مجھے سے ملتا، یہ ضرور پوچھتا ’آپ کیا کرتے ہیں‘۔ ویسے بر صغیر میں آج بھی عہدے سے سبکدوشی کے بعد ’سابق‘ یا’فورمر‘لکھنا مجبوری ہی نہیں بلکہ اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو ان کی اہمیت تاحیات معلوم پڑے اور ان کی خود پرستی قائم رہے۔تاہم اس بات میں کہیں سادگی بھی دکھائی دیتی ہے جب بہت سارے لوگ نام پر کام کو فوقیت دے کر اپنی ساری زندگی قوم و ملت کی خدمت کر کے آنے والی نسل کے لیے ایک مثال چھوڑ جاتے ہیں۔

ان تمام باتوں کے علاوہ دنیا بھر میں سیاستداں، مذہبی رہنما، اور سماجی کارکن جگہ جگہ اشتہار کے طور پر اپنی تصویر لگا کر لوگوں کو اپنا تعارف اور پیغام پہنچاتے ہیں۔ تاکہ لوگوں کو ان کے کام کاج کے متعلق معلومات ہوں اور ان کا پروگرام بھی کامیاب ہو۔لیکن وہیں جب کوئی حکمراں جماعت کا سیاستداں یا وزیر محصول دہندگان (ٹیکس دینے والا)کی رقم سے اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے تو ہم جیسے عام آدمی کو یہ بات کافی گراں گزرتا ہے۔اور ہم اپنے اپنے طور پر جمہوری راستے کو اختیار کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اس معاملے میں عام آدمی کو اس کا حق ملے۔ تاہم کبھی کبھی ان باتوں کو سیاسی رنگ دے کر معاملے کو اتنا پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے کہ عام آدمی کو اس معمالے سے دلچسپی ہی ختم ہوجاتی ہے۔ویسے برطانیہ میں ایسا بہت کم دیکھا جاتا ہے اور لوگوں کے تعلیم یافتہ اور با اختیار ہونے کی وجہ سے اس طرح کے اشتہار وغیرہ دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ اخلاقی اور مہذب طور پر بھی برطانیہ میں ان باتوں سے گریز کیا جاتا ہے۔

ایسا ہی کچھ ان دنوں ہندوستان میں ہوا۔ حال ہی میں میری نظروں سے ایک خبر گزری، جو ہم سب کی دلچسپی کا باعث ہے۔ جنوبی بھارتی ریاست کیرالا کی ایک عدالت اگلے ہفتے ایک ناراض شہری کی درخواست پر سماعت کرنے والی ہے جو وزیراعظم نریندر مودی کی کوویڈ 19ویکسین سرٹیفکیٹ پر تصویر نہیں لینا چاہتے ہیں۔پیٹر ایم کے نام سے یہ شخص مودی کی تصویر کے بغیر نیا سرٹیفیکٹ چاہتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ یہ میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔پیٹر ایم 62سالہ حق اطلاعات کے کارکن اور بھارت کی اہم اپوزیشن کانگریس پارٹی کے  ممبر ہیں۔اب ظاہر سی بات ہے کہ اس بات کو سیاسی رنگ دے کربحث ہورہی ہے اس سے پلّو جھاڑ لیا جائے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خبر کو برطانیہ اور دنیا کی معروف نیوز ایجنسی بی بی سی نے بھی نشر کیا ہے۔ایک جگہ لکھا گیا ہے کہ پیٹر نے اپنے گھر سے فون پر بی بی سی کو بتایا، ’میرے سرٹیفیکٹ پر وزیراعظم مودی اپنی تصویر لگا کر، وہ شہریوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کر رہے ہیں‘۔ پیٹر نامی شخص نے مزید کہا کہ ’یہ جمہوریت میں نامناسب ہے اور قوم یا کسی فرد کے لیے اس سے قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘ہندوستان میں کوویڈ ویکسین پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی دی جارہی ہے اور جس کے لیے لوگ اس کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔ بہت سارے لوگ ویکسین پرائیویٹ ہسپتال میں اس لیے لے رہے ہیں کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں لوگ لمبی لمبی قطاریں لگا کر پریشان ہیں۔پیٹر کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے ویکسین پرائیویٹ ہسپتال میں لیا ہے تو پھر مودی کی تصویر میرے سرٹفیکٹ پر کیوں ہے‘۔

دراصل آج کل ہندوستان میں کورونا ویکسن کے بعد جو سرٹیفیکٹ جاری کیا جارہا ہے وہاں وزیراعظم نریندر مودی کی مسکراتی صورت کو بھی لگایا گیا ہے۔اس سرٹیفکٹ میں ویکسن لینے والے فرد کی ذاتی تفصیلات کے علاوہ، بھارتی وزارت صحت کی طرف سے جاری ویکسن سرٹفیکٹ پر مودی کی تصویر کے ساتھ انگریزی اور مقامی زبانوں میں دو پیغامات بھی ساتھ ہیں۔ جس سے سرٹیفیکٹ کی خوبصورتی چار چاند تو لگ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟میں نے بھی برطانیہ میں کوویڈ 19کے دو نہیں بلکہ تین ویکسین لگوا لیے ہیں۔ اس کے بعد ساری تفصیل ہمارے این ایچ ایس ویب سائٹ پر محفوظ کر لی ہے جہاں سے ہم سفر اور دیگر ضروریات کے لیے فراہم کر سکتے ہیں۔ اس سرٹیفیکٹ میں میرے نام اور تفصیلات کے علاوہ میری خود کی بھی  تصویر نہیں ہے۔

اگست میں جونئیر وزیر صحت پروین پوار نے پارلیمنٹ کو بتا یا کہ ’تصویر اور حوالہ جات  عوامی مفاد میں شامل کئے گئے ہیں۔ تا کہ لوگوں کو ٹیکہ لگانے کے بعد بھی کوویڈ سے متعلق رویے پر عمل کرنے کی ترغیب دی جائے‘۔لیکن پیٹر نے استدلال کیا کہ جو لوگ پہلے ہی ویکسین لے چکے ہیں وہ ’پہلے ہی اس کی افادیت کے قائل ہیں‘ اور سرٹیفیکٹ میں پیغامات ’تبدیل شدہ لوگوں کو تبلیغ کرنے سے زیادہ نہیں ہیں‘۔ وزیراعظم مودی ہمارے پہلے وزیراعظم نہیں ہیں اور یہ بھارت کا پہلا ویکسین پروگرام نہیں ہے۔ لیکن کوویڈ 19کے خلاف مہم اور ویکسین پروگرام کو ایک آدمی کا شو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، جو محض وزیراعظم کے لیے پروپگنڈا  ہے۔

حال ہی میں کانگریس پارٹی کی لیڈر پرینکا گاندھی نے مودی پر ’ذاتی تشہیر‘ کے لیے ویکسین سرٹیفیکٹ کے استعمال کرنے کا الزام لگایا۔اس کے علاوہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں اپنی تصویر ڈیتھ سرٹفیکٹ پر بھی لگا نی چاہیے‘۔اب یہ باتیں تو سیاسی لیڈران کے لیے ایک مضحکہ ہے ہی لیکن ایک اور بات کافی مضحکہ یہ ہے کہ بیرون ملک سفر کرنے والے ہندوستانیوں کے لیے بھی ایک الجھن کا باعث بنی۔ وائس نیوز کے مطابق حال ہی میں امیگریشن افسران، جو مودی کی شکل سے واقف نہیں ہیں، انہوں نے کچھ مسافروں پر دھوکہ دہی کا الزام لگایا تھا۔جس سے مسافروں کی پریشانی کافی بڑھ گئی تھی۔

ان باتوں کے برعکس مودی کے حامی ان باتوں کو ایک عظیم کارنامہ مانتے ہیں۔ مودی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ویکسین سرٹیفکیٹ پر وزیراعظم کی تصویر آوایزاں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ ملک کے سب زیادہ پہچانے جانے والے چہروں میں سے ایک ہیں۔ظاہر سی بات ہے ہندوستان میں آج تک اتنا متنازعہ وزیراعظم نہیں بنا جس کی ایماپر مذہبی جنون اور نفرت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں جس طرح معاشی، سماجی،مذہبی اور سیاسی استحصال ہورہا ہے ایسے میں مودی کا رنگ روپ اور بھاشن ایک معصوم ہندوستانی کو دھوکہ دینے کے لیے نمایاں رول نبھائے گا۔

انسان میں جب خود پسندی آجاتی ہے تو فرعون بن جاتا ہے۔ اس وقت اس پر طاقت اور دولت کا ایسا نشہ چڑھ جاتا ہے کہ وہ ہر وہ کام کرنے لگتا ہے جس میں اس کا نام، عہدہ، خطاب اور خود پسندی اہم ہو۔یہ سچ ہے کہ مودی پہلے وزیراعظم نہیں ہیں جن میں خود پسندی دیکھی جارہی ہے۔ بلکہ خود پسندی تو صدیوں سے چلا آرہا ہے لیکن نام اسی کا امر رہتا ہے جس میں سادگی پائی گئی ہے۔اپنے اس شعر سے بات ختم کرتا ہوں کہ:

ایک دنیا تمہیں شیطان صفت مانتی ہے

چند نے کر لیا سجدہ  تو خد ا  ہوگئے  تم

Leave a Reply