یو ایس اے شٹ ڈاؤن، ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے چیلنج

’یو ایس اے شٹ ڈاؤن ‘ مطلب بند کرو! بھائی یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ ہفتہ 20جنوری کو دنیا کے تمام ٹی وی چینل ، سوشل میڈیا اور اخباروں میں یہی سرخیاں تھیں ’یو ایس اے شرٹ ڈاؤن‘۔ اس سرخی سے ہر عام و خاص میں ایک بے چینی سی پھیل گئی اور وہ اس بات کو جاننے کے لئے بیقرار ہوگئے کہ آخر یو ایس اے شٹ ڈاؤن کا کیا مطلب ہے۔  میں بھی اوروں کی طرح اس خبر کی جانچ پڑتا ل کرنے لگا اور مختلف چینلوں کو دیکھنے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ حضرت باز نہیں آئیں گے۔ یعنی کہ ’حضرتِ بدنام زمانہ جناب ڈونلڈ ٹرمپ، جن کی پالیسی کے خلاف ڈیموکریٹ نے سینٹ میں بجٹ کی حمایت میں ووٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پھر کیا تھا ’یو ایس اے شٹ ڈاؤن‘ ہوگیا۔

دراصل کہانی یہ ہے کہ جمعہ 19جنوری کو یو ایس سینٹ کو آنے والے دنوں کے لئے بجٹ پاس کرنا تھا جو آخر کار سینیٹ میں ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن کے درمیان اختلاف کی وجہ سے پاس نہ ہو سکا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ پارٹی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’ ڈیموکریٹ امریکی لوگوں کی پرواہ کئے بغیر سیاست کر رہی ہے‘۔ جبکہ ڈیموکریٹ نے اس کے جواب میں کہا کہ ’ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی سمجھوتہ کے بغیر اپنی بات کو منوانا چاہتے ہیں‘۔ تاہم  لیڈروں نے اس بات کا بھی یقین دلایا ہے کہ  دونوں پارٹیوں میں بات چیت چل رہی ہے کہ اس مسئلے کا جلد سے جلد کوئی حل نکالا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہزاروں لوگ جو فیڈریل حکومت کے لئے کام کرتے ہیں وہ سوموار کو کا م پر نہیں جا سکیں گے۔ حالانکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔ 2013میں بھی صدر اوباما کے دور میں بجٹ کے اختلاف کی وجہ سے 16دن تک فیڈرل آفس بند ہوئے تھے ۔ لیکن ایسا پہلی بار ہوا  ہے جب ری پبلیکن پارٹی کو  کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے۔ اور وائٹ ہاؤس میں بھی اسی پارٹی کا صدر ہے۔  لیکن ری پبلیکن پارٹی کے پاس اتنی سیٹ نہیں ہیں کہ وہ ڈیموکریٹ کی مدد کے بغیر  قانون  پاس کرا لیں۔

ری پبلیکن بجٹ میں بارڈر سیکوریٹی، سرحدی دیواریں ، امیگریشن اصلاحات کے لئے فنڈ اور فوجی اخراجات میں اضافے کی مانگ کر رہے ہیں۔ جبکہ وہیں ڈیموکریٹ کی مانگ ہے کہ ان 700,000 بنا دستاویز تارکین کو ملک بدر سے تحفظ کیا جائے جو کم عمری میں امریکہ میں داخل ہوئے تھے۔ ری پبلیکن نے ڈیموکریٹ کوخوش کرنے کے لئے کم آمدنی والے خاندانوں کے بچّوں کی صحت کے لئے ہیلتھ انشورنس کی معیاد کو چھ سال مزید بڑھانے کی امید دلائی ہے۔ لیکن  ڈیموکریٹس نے صحت کی انشورنس کو مستقل طور پر لاگو کرنے کی مانگ کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حسبِ معمول اپنے جارحانہ انداز میں ڈیموکریٹ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹس کو عظیم امریکی سپاہیوں اور خطرناک جنوبی سرحد کی کوئی پراوہ نہیں جبکہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کے لئے زیادہ فکر مند ہیں۔ تاہم ڈیموکریٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر ذمّہ دارانہ بیان کی مذمّت کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دو مواقع ملے تھے جسے انہوں نے گنوا دیا اور وہ خود اس کے ذمّہ دار ہیں۔

آئیے جانتے ہیں کہ یہ ’شٹ ڈاؤن ‘ کیا ہے۔ عام طور پر شٹ ڈاؤن جب سنا جاتا ہے تو ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے کہ کوئی دکان یا کاروبار بند ہوگیا ۔ بالکل یہی امریکہ میں بھی ہوا ہے۔ فرق یہ ہے کہ امریکہ میں دکانیں نہیں بلکہ فیڈیرل حکومت کے آفس ، رہائشی ، ماحول، تعلیم اور کامرس میں کام کرنے والے لوف سوموار کو دفتر نہیں جائیں گے۔ آدھے سے زیادہ وہ لوگ جو ٹریزری ، دفاع اور ٹرانسپورٹ میں کام کرتے ہیں وہ بھی کام پر نہیں جائیں گے۔ اس کے علاوہ نیشنل پارک ، میوزیم اور تاریخی عماتوں میں کام کرنے والے لوگ بھی کام پر نہیں جا پائے گے ۔اس کا اثر سیاحت پر بھی دیکھا جائے گا۔ ویزا اور پاسپورٹ کی کارروائی میں بھی رخنہ پڑے گا اور جس سے لوگوں کو ان دستایز کو حاصل کرنے میں تاخیر ہوگی۔ لیکن ضروری خدمات کو جاری رکھا جائے گا جس میں نیشنل سیکوریٹی، ائیر ٹریفک کنٹرول، ہسپتال، آفت سے نمٹنے والے ڈپارٹمنٹ، جیل، بجلی پیدا کرنے کے کارخانے اور ملٹری اہم ہیں۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسی دوران اپنے صدر ہونے کی سالگرہ منانے فلوریڈا جارہے تھے۔ اس سالگرہ کی تقریب میں شرکت کرنے والے امیر ترین لوگوں نے  اڑھائی لاکھ ڈالر مالیت کے ٹکٹ خریدے تھے ۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے ’شٹ ڈاؤن ‘ کی خبر کو سن کر فی الحال اپنے پروگرام کو ملتوی کر دیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے دنوں میں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ اس بات پر آمادہ ہوتے ہیں کہ بجٹ کو پاس کر دیا جائے تاکہ فیڈیرل حکومت میں کام کرنے والے امریکی ایک بار پھر اپنے کام پر واپس لوٹ سکیں۔ تاہم فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ کیونکہ اس بار مسئلہ صرف بجٹ کے پاس ہونے کا نہیں ہے بلکہ کہیں نہ کہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکی ڈیموکریٹ سینیٹ میں اس بات کا موقعہ مل گیا ہے کہ کسی طرح سے وہ ضدّی اور مغرور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ سبق سکھائیں کہ امریکہ صرف ایک صدر کے بدولت ہی نہیں چل سکتا ہے۔

اس میں  دو رائے  نہیں ہیں کیونکہ امریکہ کے صدر کے احکامات اور اعلان کے باجود انہیں اپنی بات کانگریس میں منوانی پڑتی ہے ۔ جو شاید فی الحال ان کے گلے کی ہڈّی بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ کو پاس نہ کروا کر ڈیموکریٹ دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ امریکی صدر جتنا جی چاہے بیان بازی کر لے لیکن قانون سازی میں ان کی بات کانگریس پر اثر انداز نہیں ہوگی۔ امریکہ کے ’شٹ ڈاؤن ‘ سے جمہوریت کی ایک عمدہ مثال دنیا کو ملتی ہے جس سے عام آدمی تھوڑی دیر کے لئے اس بات سے خوش ہوجاتا ہے کہ اس کے حق اور حمایت میں بولنے والا کوئی تو ہے ۔ورنہ اگر ایسا نہیں ہوتا شاید دنیا کے وہ لوگ جو ان لیڈروں سے نہ کہ خوف زدہ ہیں بلکہ عاجز بھی ہیں ان کا شاید جینا دو بھر ہوجاتا ۔ امریکی صدر کی ہٹ دھرمی اور جارحانہ رویّے نے امریکہ کے ہزاروں محنت کش لوگوں کو کام  کاج سے عارضی طور پر محروم کر دیا ہے۔ جس سے امریکہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے لوگ بھی پریشان ہیں۔

آج دنیا میں ایسے لیڈر اپنی طاقت کے نشے میں چور آئے دن ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے انسان کا جینا دو بھر ہوگیا ہے۔ ان لیڈروں کی نفرت انگیز نظریے اور جارحانہ تقاریر نے دنیا کے امن پسند لوگوں کے ہوش اڑا دئیے ہیں۔ پھر بھی امن پسند آدمی اسی امید پر جی رہا ہے کہ ایک دن نیا سورج پھر طلوع ہوگا اور دنیا میں لوگ بھائی چارگی اور امن سے جی پائیں۔ لیکن فی الحال چند احمق لیڈروں نے یہ ٹھان لیا ہے کہ وہ دنیا کی امن اور بھائی چارگی کو نیست نابود کر کے ہی دم لے گیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جیت امن پسند انسان کی ہوگی یا ان لیڈروں کی جو دولت  اور طاقت کے نشے میں چور ’شٹ ڈاؤن‘ کو امریکہ کا محض ایک افسوس ناک واقعہ سمجھ رہے ہیں۔

Leave a Reply