یروشلم اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ناپاک ارادے

دسمبر6  کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس اعلان سے کہ’ یروشلم اسرائیل کی راجدھانی ہے‘ ۔ اس خبر سے جہاں دنیا کے اہم لیڈروں کے ہوش اُڑ گئے تو وہیں فلسطین کے لوگوں میں غصّے کی لہر دوڑ گئی۔ اگر دیکھا جائے تو اس خبر سے دنیا کہ تمام مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یروشلم کعبہ اور مدینہ کے بعد تیسرا اہم مقدس مقام ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ کعبہ سے پہلے مسلمان بیت المقدس کو ہی قبلہ اول مانتے تھے۔ اس کے علاوہ بیت المقدس سے ہی حضرت محمد ﷺ نے عرش کی سواری کی تھی۔ جہاں ہمارے پیارے نبی نے اللہ سے ملاقات کی تھی۔

یہ نہ ایک تاریخی بات ہے اور  ہر مسلمان کا پختہ عقیدہ بھی ہے۔ تو پھر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو اچانک کیا سوجھی کہ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی ماننے کا اعلان کر دیا۔ تاہم امریکی صدر کی بات سے مجھے کوئی حیرانی نہیں ہے۔ کیونکہ اپنے صدارتی مہم سے لے کر اب تک ڈونالڈ ٹرمپ کا جو بھی بیان آتا ہے وہ متنازعہ ہوتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ امریکی صدر کی نااہلی ہے یا وہ اسلام مذہب کے خلاف ایسے بیان دے کر مسلمانوں کو ورغلانا چاہتے ہیں۔  لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اعلان کے بد زیدہ تر مما لک نے اس تجویز کو رد کر دیا ہے۔ برطانیہ سمیت جرمنی اور فرانس نے امریکی صدر کے اس اعلان کو آگ پر تیل چھڑکنے سے مشابہ کہہ رہے ہیں۔ برطانیہ نے امریکی صدر کی تجویز کو سرے سے خارج کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ امریکی صدر کی باتوں کو نہیں مانتا ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں بڑے پیمانے پر امریکی صدر کے بیان کی مذمت کی گئی ہے۔  برطانوی پارلیمنٹ میں بھی امریکی صدر کی مخالفت میں بیان جاری کئے گئے ہیں۔ زیادہ تر ایم پی نے امریکی صدر کی سرکاری دورے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایم پی نے  امریکی صدر کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان سے اسرائیل اور فلسطین کے بیچ تناؤ مزید بڑھ جائے گا اور دونوں ممالک کے بیچ امن کی راہ دشوار ہو جائے گی۔

اسرائیل کے وجود میں آنے کہ بعد یروشلم ہمیشہ ہی سے ایک متنازعہ علاقہ بنا ہوا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یروشلم میں عیسائی ، مسلمان اور یہودیوں کے مقدس مقامات ہیں۔ تاہم اسرائیل کے عیسائی اور مسلمانوں میں اتنا تناؤ نہیں ہے جتنا اسرائیل جا کر بسنے والے یہودیوں اور مسلمانوں میں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب سے اسرائیل ملک کا قیام ہوا ہے تب سے اسرائیلی مسلسل فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتے چلے آرہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان دنوں مصر، شام اور اردن نے مل کر اسرائیل کے خلاف جنگیں بھی لڑی تھیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصر، شام اور اردن کے حال کے حکمرانوں میں اسرائیل کے خلاف بیان دینے کی ہمّت تو رہی لیکن اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے میں اب وہ ناکارہ ثابت ہو رہے ہیں۔ شاید اس کی ایک اہم وجہ اسرائیل کی امریکی پشت پناہی ہے۔ پچھلے دس برسوں میں امریکہ کے متعدد صدور نے اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ معاہدہ کرانے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی تھی۔ جس کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین تناؤ میں کمی بھی آئی تھی۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بنے ہی اسرائیل دوبارہ اپنی اوقات دکھانے لگا۔ کئی بار اسرائیل نے ایسے بیان جاری کئے جس سے اس بات کا اندازہ ہونے لگا کہ اسرائیل اور ڈونالڈ ٹرمپ کے بیچ کوئی خفیہ معاہدہ ہؤا ہو۔ اس کے علاوہ امریکی صدر کی باتوں سے بھی کئی بار محسوس ہوا کہ ٹرمپ ایک بار پھر کوئی متنازعہ فرمان جاری کریں گے۔

تاریخی نقطہ نگاہ سے برطانیہ نے اسرائیل کو ایک ملک بنانے میں نمایاں رول نبھا یا ہے اور جس کے بعد اتنے عرصہ بیت جانے کے بعد بھی اسرائیل اور فلسطین کے مابین کوئی امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔ آئے دن اسرائیل اپنی فوجی طاقت سے معصوم فلسطینیوں کا خون بہا رہا ہے۔ جس کی مخالفت نہ امریکہ اور برطانیہ کرتا ہے اور نہ ہی اسلامی ممالک کے ٹھیکدار کرتے ہیں۔ جس سے کہیں نہ کہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس سازش کے پیچھے امریکہ سمیت بیشتر مغربی ممالک اور چند اسلامی ممالک کا اسرائیل کو پشت پناہی حاصل ہے۔ اسرائیل کے قیام میں آنے میں دراصل دوسری جنگِ عظیم کا اہم رول رہا ہے۔ تاریخی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ہٹلر کی یہودیوں کے خلاف اعلانِ جنگ میں جس طرح سے یہودیوں کا قتل و عام کیا گیا اس سے یہودیوں کو دنیا بھر میں ایک مظلوم اور بے بس قوم مان لیا گیا۔ دراصل اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ نے اسرائیل ملک کی قیام کا اعلان کر دیا۔ تاہم اس کے بعد کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کے خلاف جنگیں بھی لڑیں اور ان جنگوں میں اسرائیل امریکہ اور مغربی طاقتوں کے مدد سے کامیاب بھی ہوتا رہا۔

اسرائیل اپنے جارحانہ انداز کو مزید بڑھاوا دیتا گیا اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیل اب مشرقی وسطیٰ میں اپنے بل بوتے پر فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا جارہا ہے۔ آئے دن سوشل میڈیا پر کئی ایسے پوسٹ دکھائے جاتے ہیں جس سے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اسرائیلیوں کا ظلم کس حد تک بڑھ چکا ہے۔ بے سہارا اور بے بس فلسطین اسرائیلیوں کے ظلم کے آگے سوائے اہنی جان گنوانے کے اور کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ ویسے ایک بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی پالیسی ناقابلِ قبول بھی ہے  اور مضحکہ خیز بھی ہے۔ تبھی وہ اپنے بیان کے بعد اس میں الجھ جا رہے ہیں یا پھر دنیا بھر میں ذلیل بھی ہورہے ہیں۔  امریکی صدر کی پالیسی یا بیان کی دھجّیاں اڑنے کی ایک مثال 19 دسمبر کی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی ایک خاص میٹنگ میں دیکھنے کو ملی جب مصر نے ایک مسودہ قرار داد پیش کیا کہ ’ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی ماننے کی بات کو واپس لینا اور یہ دنیا کے لئے باعث تشویش ہے‘۔ اس قرار داد کو 14 سیکورٹی کونسل ممبران کی حمایت حاصل تھی لیکن امریکہ نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیتے ہوئے اپنا ویٹو استعمال کیا۔ جو کہ ایک سوچی سمجھی بات مانی جا رہی تھی۔ امریکہ نے چھ سال بعد ویٹو استعمال کیا ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی ماننے کی بات نے جہاں پوری دنیا کے لیڈروں اور عوام میں غم و غصّہ دوڑا دیا ہے تو وہیں اسرائیل اور فلسطین میں ایک بار پھر تناؤ کافی بڑھ گیا ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ آخر ڈونالڈ ٹرمپ دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کے لئے کیوں اتنا بیقرار ہیں۔ کبھی وہ شمالی کوریا تو کبھی ایران اور اب فلسطین کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی کی بات کہہ کر امن  کع براباد کررہے ہیں۔ ہم اللہ سے یہی دعا کرے گے کہ ’یا اللہ فلسطین کے لوگوں کی حفاظت فرما اور امریکی صدر کے ناپاک ارادوں پر پانی پھیر دے‘۔ تاکہ دنیا میں لوگ امن اور بھائی چارے کے ساتھ مل جل کر رہیں۔

Leave a Reply