You are currently viewing یار من ترکی

یار من ترکی

سیر و تفریح کا شوق تو بچپن سے ہی رہا۔ لیکن معاشی تنگی اور کم علمی کے باعث ہندوستان میں رہ کر اتنی دنیا نہیں دیکھی جتنا انگلینڈ میں رہ کر دیکھ پایا۔ اس کی پہلی وجہ معاشی خوشحالی اور دوسری وجہ برٹش پاسپورٹ کا ہوناہے جس کی وجہ سے 70سے زائد ممالک میں بنا ویزا کے سفر کرنے کی سہولت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ کے زیادہ تر لوگ چھٹی منانے کسی نہ کسی ملک کو نکل پڑتے ہیں۔لندن کے آس پاس مسافروں کی سہولت کے لیے پانچ ائیر پورٹ جدید تکنالوجی سے لیس ہر وقت مسافروں کو جہاز تک پہنچانے اور واپسی میں ان کی دیکھ بھال کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اُس وقت میری عمر کوئی سات سال کی ہوگی۔ دادی کی طبعیت کافی خراب تھی۔ ان دنوں ٹیلی گرام کا آنا، سمجھے کہ کوئی بری خبر ہی ہوگی، مانا جاتا تھا۔ ٹیلی گرام ملتے ہی ابّا نے فوراً سیوان جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے بھی ساتھ چلنے کی ضد کی اور ابّا راضی ہوگئے۔آنا فاناً میں کلکتہ کے قریب ہوڑہ اسٹیشن پہنچ گئے۔ اُن دنوں ریلوے ریزرویشن کروانا بہت بڑی بات ہوتی تھی۔ ایک تو مہنگائی دوسرا عام آدمی کا ریزرویشن ڈبے میں سفر کرنے کا خواب، جو کہ ایک ناممکن بات تھی۔طوفان ایکسپریس  شان سے پلیٹ فارم پر کھڑی مسافروں کا انتظار کر رہی تھی۔ ابا مجھے لیے کبھی کسی ڈبے میں تو لبھی کسی ڈبے میں سوار ہونے کی  کوشش کرہے تھے۔لیکن کوئی ہمیں کیوں چڑھنے دے۔ایک تو ابّا کے ہاتھ میں ٹِن کا بکس اور دوسرے شکل پر داڑھی موجود تھی۔ خیر اسی پریشانی میں ابّا کوملٹری ڈبے میں ایک ہندوستانی فوجی کی ہمدردی اور مہربانی سے چڑھنے کا موقعہ مل گیا۔ مجھے آج بھی ٹِن کے بکس پر بیٹھ کر رات بھر طوفان ایکسپریس کا سفر اب تک یاد ہے۔

2  نومبر 2021 کو استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے ’ترکی اور اردو زبان میں ترجمعہ کی باہمی روایت‘ پر ایک عالمی اردو سمپوزیم کا انعقاد کیا تھا۔ جس میں مجھ ناچیز کو بھی اپنی رائے کو اظہار کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔تاہم استنبول یونورسیٹی میں اس سے قبل 2018 میں بھی ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کر چکا ہوں۔اس کے علاوہ 2019  میں مولانا رومی کے شہر کی سلچک یونیورسیٹی میں بھی ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کرچکا ہوں۔گویا کہ ترکی جانے کا یہ میراپہلا اتفاق نہیں تھا۔ لیکن خدا جانے کیوں ترکی میرے لیے ایک واحد ایسا ملک ہے جہاں نہ جانے کیوں بار بار جانے کو جی چاہتا ہے۔تبھی تو کہتے ہیں ’یار من ترکی‘۔منزل کا تو میں نے کئی ہفتے پہلے ہی انتخاب کر لیا تھا۔ برٹش ائیر ویز سے ٹکٹ بنوا کر رائل اٹلانٹس ہوٹل میں ایک ہفتے کی رہائش کا انتظام کر والیا۔لندن سے ہمارے ساتھ حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے غلام دودیا اور آئی ٹی ایکسپرٹ کاشف عمران نے بھی چلنے کی حامی بھر لی۔

ہفتہ 30اکتوبرکی دوپہر ہیتھرو ائیر پورٹ پہنچ گیا اور ڈیوٹی فری دکانوں کی چمچماہٹ نے مجھے چند چیزوں کی خریداری پر مجبور کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ہمیں کچھ تھکان محسوس ہوئی تو ہم کافی کے ایک دکان پر بیٹھ گئے اور کافی کا مزہ لینے لگے۔تھوڑی دیر بعد میری نظر گھڑی پر پڑی تو مجھے پتہ چلا کہ جہاز پر سوار ہونے کا وقت ہو چلا ہے۔تیز قدمی سے چلتا ہوا میں ہوائی جہاز کے دروازے پر پہنچ گیا۔ دروازے پر ایک خوبصوت حسینہ نے خوش آمدید کہا اور میرا بورڈنگ پاس دیکھ کر مجھے میری سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جانے کو کہا۔ چار گھنٹے کے سفر کے بعد ترکی کے مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے دس بجے ہمارا جہاز  دنیا کاسب سے بڑے ائیر پورٹ استنبول ائیر پورٹ پہنچ گیا۔ ائیر پورٹ پر اس حد تک بھیڑ نہیں دکھائی دی جس کی وجہ شاید دیر رات پہنچنا تھا یا پھر کوروناوبا کی خوف سے مسافروں کا کم سفر کرنا تھا۔استنبول کا نیا ائیر پورٹ خاصا لمبا ہے جہاں امیگریشن پر پہنچنے کے لیے اچھی خاصی دوری طے کرنی پڑی۔ ویزا سیکشن پر اپنا برٹش پاسپورٹ دکھا کر اسٹیمپ لگوایا اور چھوٹا سا سامان اٹھائے باہر نکلنے کے لیے چل پڑے۔

ائیر پورٹ سے باہر آتے ہی ایک شخص ہمارے لیے موبائل فون کا سِم لیے انتظار کر رہا تھا جسے ہم نے آن لائن آرڈر کیا تھا۔ پاس ہی ایک اور شخص کھڑا ہمیں ہوٹل لے جانے کے لیے ٹیکسی پر سوار ہونے کا حکم دیا۔یوں تو ترکی میں کئی بار جا چکا ہوں لیکن اس بار موبائل سِم اور ٹیکسی کے آرڈر سے زندگی بہت آسان لگی۔ٹیکسی اندر سے اتنی خوبصورت سجی ہوئی اور آرام دہ تھی کہ ہمارا ہوائی سفر کاتھکان اچانک غائب ہوگیا۔لگ بھگ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ٹیکسی استنبول کی قدیم گلیوں سے گزرتی ہوئی رائل اٹلانٹس ہوٹل پہنچ گئی۔ہوٹل پہنچ کر ہم  بلا تاخیر بستر پر دراز ہوگئے اور نہ جانے کب ہماری آنکھ لگ گئی۔

اتوار31 اکتوبر کو سلطان احمد مسجد جسے’بلو موسک‘بھی کہتے ہیں دیکھنے چلا گیا۔ ہوٹل سے سلطان احمد مسجد کا فاصلہ کوئی بیس منٹ کا تھا جسے ہم نے پیدل چل کر طے کیا۔اس دوران ہمیں استنبول کا معروف گرانڈ بازار بھی نظر آیا لیکن اتوار ہونے کی وجہ سے گرانڈ بازار بند تھا۔ بلو موسک 1609-1616کے درمیان تعمیر ہوئی تھی اسے اس وقت کے حکمراں سلطان احمد نے تعمیر کروایا تھا۔ مسجد کے اندرونی حصہ ّ  میں بلو ٹائیلس کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے جس سے اس مسجد کو بلو موسک بھی کہتے ہیں۔بلو موسک پہنچ کر ہم نے سیاحوں کا ایک ہجوم پایا جو مسجد کے اصول کے مطابق کھلے سر اور ٹانگ اندر نہیں جا سکتے تھے۔جس کی وجہ سے دروازے پر داخل ہونے میں تھوڑا وقت بھی لگا۔میں یہ بھی دیکھا کہ دورانِ نماز سیاحوں کو اندر جانے سے روک بھی دیا جاتا ہے تاکہ اس سے نمازیوں کو کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔مسجد میں داخل ہوتے ہی اس کی تاریخی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ مسجد کے اندرونی حصے ّ میں ترکی سنگِ مر مر کے کاریگری کی بہترین جھلک دکھتی ہے جسے دیکھ کر سلطنتِ عثمانیہ کی شان کا پتہ چلتا ہے۔ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہونے کے باود مسجد میں ایک خاص سکون کا احساس ہوتا ہے۔

اگلے روز ہم استنبول کے معروف توپ کاپی میوزیم دیکھنے کو نکل گئے۔توپ کاپی1856 1465-تک لگ بھگ چار سو سال سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کا محل رہا تھا۔ اس میوزیم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہیرے زیورات کے علاوہ حضرت محمد ﷺ کی موئے مبارک، پیر کے نشان، جوتے، دندان اور ان کی تلوار کو اس میوزیم میں نمائش کے طور پر رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ فاطمہ زہرہ کا لباس اور حضرت علی کی تلوار بھی یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں یہ بات میں بتاتا چلوں کہ میوزیم کے اندر فوٹو گرافی مما نعت ہے۔

منگل 2  نومبر 2021  کو استنبول یونورسیٹی کے معروف کانفرنس ہال میں عالمی سیمپوزیم کا آغاز ہوا اورچند اہم تقریروں کے بعد سیمنار کئی سیشن میں چلتا رہا۔شعبہ صدر اردو پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے کانفرنس ہال میں موجود مہمانوں کا والہانہ استقبال کیااور کانفرنس میں آن لائن جڑے مہمانوں اور سامعین کا بھی خیر مقدم کیا۔ دوران ِ پروگرام چائے اور ترکی مٹھائیوں سے بھی مہمانوں کی ضیافت کرائی گئی۔کانفرنس میں پاکستان سے تشریف لائے ڈاکٹر محمد کامران (پروفیسر شعبہ اردو اورینٹل کالج، جامعہ پنجاب،و ناظم اردو ڈیو پلپمنٹ کمیٹی) اور پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید، جی سی یونیورسیٹی لاہور نے کانفرنس کے سیشن کی صدارت کی اور اپنی پر مغز تقریر سے اردو اور ترکی زبان میں ترجمہ کی  روایت پر روشنی ڈالی۔ اس کے علاوہ معروف کالم نویس فرخ سہیل گوئیندی اور فاروق عادل نے بھی کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔پروفیسرڈاکٹر اشرف کمال نے بھی آن لائن کے ذریعہ اپنی بات رکھی۔

میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اردو اور ترکی میں باہمی ترجمہ کی روایت کے حوالے سے ایک نام بہت اہم ہے اور وہ ہے پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کا جنہوں نے اُردو کے حوالے سے 35سے زیادہ کتب اور 100 سے زیادہ مقالات تحریر کیے۔علامہ اقبال کے خطوط،مولانا روم کی مثنوی کے منتخب حصوں کے علاوہ اردو شعرا کے کلام کا انتخاب بھی ترکی زبان میں منتقل کیا۔اُن کا تراجم کے حوالے سے بہت ساکام شایع ہوچکاہے۔2000 میں پریم چند، منٹو اور منشایاد وغیرہ کے منتخب افسانے  ’پاک و ہندکی کہانیاں‘ کے نام سے پہلی بار ترکی زبان میں خلیل طوقارنے ترجمہ کرکے ترکی میں متعارف کرایا۔ 2001 میں انہوں نے اقبال کی کتاب کا اور نیز ترکمانستان کے صدر سپر مراد ترکمان باشی کی کتاب  روح نامہ  کا ترجمہ اردو زبان میں کیا۔

 ڈاکٹر خلیل طوقار کاایک نہایت وقیع، علمی اور تحقیقی کام ’جہان اسلام‘ کی دریافت ہے۔ یہ بیسویں صدی کے ربع اوّل میں ترکی سے جاری ہونے والا  ہفت روزہ اخبار تھا جو تین زبانوں، عربی، ترکی اور اردو میں شایع ہوتاتھا۔ خلیل طوقار اپنی کتاب ’جدید ترکی شاعری‘ میں لکھتے ہیں:کئی سال سے میرے دل میں بہت سی تمنائیں گشت کیاکرتی ہیں۔ اقبال کی شاعری کا تشریح وحواشی کے ساتھ منظوم ترکی ترجمہ کروں، اردو کے تمام ادب پاروں کا تعارف قارئین سے کراؤں،ایک ضخیم اردو ترکی لغت تیارکروں ……“

ترکی کے کانفرنس میں ہم نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ پرواگرام کا اناونسمنٹ ترکی زبان میں کی جاتی ہے جس سے ترک کے قومی جذبے کا اظہار اور ترکی زبان سے محبت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ترکی اردو پروفیسر نے بھی اپنا مقالہ ترکی میں پڑھا جس پر مجھے فارسی کا یہ شعر یاد آیا کہ: زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔چہ خوش بودے اگر بوودے زبانش در دہانِ من، یعنی میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا،کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے منہ میں ہو۔

Leave a Reply