ہالی ڈے پر وہ کون تھی

ہالی ڈے یا چھٹّیا ں منانے کا شوق دنیا کے زیادہ تر ممالک کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم امیر ترین ممالک میں چھٹّیاں منانا لازمی ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ زندگی کی بھاگ دوڑ سے سکون حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بھی مانا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے لوگ سال میں ایک یا دو بار چھٹّیوں پر جانا ضروری سمجھتے ہیں۔ جس کی ایک خاص وجہ یہاں کے لوگوں کا ایمانداری سے لمبے وقت تک کام کرنا اور معاشی طور پر فعال ہونا ہے۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں موسم کافی سرد ہوتا ہے جس سے لوگ گرم آب و ہوا والی جگہ جانا پسند کرتے ہیں۔

اب تو میں بھی برٹش ہو چکا ہوں ۔ گبھرائیے نہیں میرا مطلب میرا پاسپورٹ ‘برٹش ‘ ہے ۔ اس کے علاوہ یہاں کافی عرصے سے رہنے کی وجہ سے یہاں کے آداب اور رسم و رواج سے پوری طرح سے واقفیت رکھتا ہوں اور ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے ہندوستان کے عادات اور اطوار سے بھی آشناہوں۔  برطانیہ میں بھی انگریزوں کو ہالی ڈے پر جانے کا صرف شوق ہی نہیں دیوانگی بھی ہے۔ انگلینڈ ، ویلس اور اسکاٹ لینڈ کے لوگ موقعہ پاتے ہی  ہالی ڈے پر نکل جاتے ہیں۔ زیادہ تر انگریز یورپ میں اسپین اور پرتگال کی سیر کو جانا پسند کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ تھائی لینڈ ، مراکش اور ترکی بھی سیر کے لئے ان کے پسندیدہ ملک ہیں۔ میں بھی پچھلے کئی برسوں سے دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کر رہا ہوں ۔ لیکن میری مشکل یہ ہے کہ میرا تعلق زیادہ تر ایشیائی ممالک کے لوگوں سے رہتا ہے جو ذاتی سوال پوچھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو مجھے یہ لگتی ہے کہ ان لوگوں کو میں ہر بات سچ بتاتا ہوں۔ جس سے شاید ان کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ کچھ راز کی بات جان لی جائے۔

لیجئے ایسے ہی گفتگو کی ایک روداد پیش کرتا ہوں۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے۔
ہیلو۔
السلام علیکم۔
وعلیکم السلام۔
ہاں بھائی کیسے ہو۔
ٹھیک ہوں ۔
اور آج کل کیا ہورہا ہے۔
بس حسبِ معمول کام  کاج کی مصروفیت ہے۔
اچھا تو ہالی ڈے پر نہیں جا رہے ۔
جی اگلے ہفتے جارہا ہوں۔
اچھا کہاں بھائی۔
استنبول۔
تمہیں پتہ ہے میں تو ا ستنبول کئی بار گیا ہوں اور استنبول کافی پیاری جگہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

میں فون کو کان سے لگائے اسی سوچ میں ڈوب گیا کہ ان صاحب کو میں نے کیوں بتایا کہ میں استنبول جارہا ہوں۔ شاید انہوں نے میری خاموشی کو بھانپ لیا اور اپنی تقریر کو روک کر اچانک بول پڑے
ہیلو
ارے بھائی سن رہے ہو۔
میں نے فوراً کہا، جی۔
اچھا یہ بتاؤ بیگم بھی جارہی ہیں ۔
جی نہیں ۔
کیوں ۔
میں نے کہا، وہ مصروف ہیں ۔
تمہیں پتہ ہے میں کبھی بنا اپنی بیگم کے ہالی ڈے پر نہیں گیا اور پھر وغیرہ وغیرہ ۔ ان کی گفتگو کا سلسلہ جاری رہا اور میں بے بس ہو کر ان کی بات کو سنتا رہا۔
فون پر گفتگو ختم ہونے کے بعد میں اپنے آپ کو کوسنے لگتا ہوں کہ آخر میں کیوں سچ بول کر جان جوکھم میں ڈال دیتا ہوں۔

استنبول سے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ میری چھٹیوں کے حوالے سے برا ہِ راست اور بالواسطہ طور پر میرے تنہا سفر اور بنا بیگم کے سفر کا راز جاننے کے لئے بیقرار تھے ۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ آخر میں اکیلے ہالی ڈے پر کیوں گیا اور ہالی ڈے پر میرے ساتھ کون تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور جب پانی سر سے اوپر ہوگیا تو میں نے ایک دن عاجز آکر سوشل میڈیا پر لکھ ڈالا۔ ’دراصل استنبول میں ایک ضعیف شخص کے ساتھ گیا تھا۔ جس کے ہاتھوں میں دو چھڑیاں تھیں اور جن کے ساتھ میں نے اپنی ساری چھٹّیاں گزاری‘۔ میں آج بھی اس کشمکش میں مبتلا ہوں کہ آخر میری سچّائی کو جان کر کسی نے بھی یہ لکھنا مناسب نہیں سمجھا کہ میں نے اس ضعیف شخص کو ہالی ڈے پر لے جا کرکتنا ثواب کمایا ہے۔

خیر ان باتوں میں مجھے ایک بات ضرور پسند آئی وہ یہ کہ ہالی ڈے کا لطف تو اپنی جگہ ہے لیکن اس سے زیادہ لطف ان لوگوں کی باتیں ہیں جو ایسے ذاتی سوالات پوچھتے ہیں جو وقتی طور پر عجیب تو لگتے ہیں لیکن پھر اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ بھی ہماری طرح انسان ہیں، جنہیں شاید ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرنا پسند ہے یا شاید یہ ان کا ایک منفرد انداز ہے۔

Leave a Reply