کلکتہ کا بگ بین اور ادبی سرگرمیاں

پہلی فروری کو کلکتہ پہنچتے ہی ائیر پورٹ پر کئی لوگوں نے میرا والہانہ استقبال کیا۔ کچھ لوگوں سے پہلی بار ملاقات ہوئی تو کچھ شکلیں جانی پہچانی بھی تھیں۔  جس جوش و جذبہ سے میرا استقبال کیا گیا، تھوڑی دیر کے لئے ایسا محسوس ہوا کہ یہ لوگ برسوں سے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ گلے لگانے اور ہاتھ ملانے کے بعد اپنے دوست پپّو کی پیلی ٹیکسی میں سوار ہو کر کلکتہ کی مصروف سڑکوں کے بیچ ہم اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پپّو کی پیلی ٹیکسی بھی ہمارے آنے کی خوشی میں اپنی سست رفتاری کو بھول کر سڑک کے قوانین کی دھجّیاں اڑانے پر آمادہ ہے۔

ائیر پورٹ سے کچھ ہی دور پر سڑک کے کنارے Big Ben بِگ بین پر نظر پڑی ۔ حیرانی کے ساتھ خوشی بھی ہوئی کیونکہ اب تک بِگ بین صرف لندن میں ہی دیکھا تھا۔ لیکن کلکتہ میں بھی بِگ بین کا موجود ہونا واقعی ایک قابلِ دید بات ہے۔ تاہم کلکتہ کے بِگ بین میں مجھے ایک خامی نظر آئی اور وہ اس کی اونچائی تھی۔ اگر کلکتہ کے بِگ بین کی اونچائی لندن کے بِگ بین کے برابر ہوتی تو شاید تھوڑی دیر کے لئے لوگوں کو یہ اندازہ لگانا دشوار ہوجاتا کہ کہ وہ لندن میں ہیں یا کلکتہ میں ہے۔ لیکن میں تو کلکتہ کے چھوٹے قد کے بِگ بین کو دیکھ کر کافی متاثر ہوا اور اس کے لئے کلکتہ کے ہونہارفنکاروں کو دلی مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں۔ ہوٹل پہنچنے سے پہلے شمیم صاحب کے اصرار پر رپن اسٹریٹ کے ایک ریستوران میں ناشتہ کیا اور پایے کلیجی سے لطف اندوز ہوئے۔ ناشتے کے بعد ہوٹل پہنچ کر میں نے تمام لوگوں سے آرام کرنے کی اجازت مانگی اور سیدھے بستر پر لیٹ گیا۔ لندن سے سات گھنٹے کے سفر اور دبئی دو گھنٹے ائیر پورٹ پر رکنے کے بعد جب دوبارہ ہوائی جہاز پر سوار ہوا تو جسم تھکان سے چور ہورہا تھا۔ لیکن امارات ائیر لائنز کی مہمان نوازی اور سہولت نے کچھ پل کے لئے لمبے سفر کی تکان کو دور کر دیا تھا۔ اس لئے ہوٹل پہنچ کر مجھے بالکل محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ میں لندن سے چودہ گھنٹے کا سفر کرکے پہنچا ہوں۔

کلکتہ کے بااخلاق حضرات کے پیغام آنے شروع ہوگئے۔ لوگوں کی یہی خواہش تھی کہ وہ کس طرح ہم سے مل پائیں گے۔ تاہم میں نے لندن سے شمیم احمد  کے ذمّہ یہ کام لگایا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے میری ملاقات ہو جائے ۔ شمیم صاحب ایک نیک اور مخلص انسان ہیں اور انہوں نے میرے پورے پروگرام کو کافی خوش اسلوبی سے طے کیا تھا۔ اس کے باوجود میری ملاقات کافی لوگوں سے نہیں ہو پائی جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ وہیں کچھ لوگوں کو یہ بات گراں گزری کہ مجھ سے ملنے میں شمیم صاحب سے رابطہ کرنا کیوں ضروری ہے۔ ضروری اس لئے تھا کیونکہ میں ان تمام ملنے والوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا چاہتا تھا اور ان کے اہم سوالات کا جواب بھی دینا چاہتا تھا جس کے لئے وہ بیقرار تھے۔ صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی کے ایوارڈ تقتریب میں کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی جن میں زیادہ تر نئے چہرے تھے۔ کئی لوگ تو سوشل میڈیا کے ذریعہ مجھے جانتے تھے لیکن ان سے میری ملاقات اب تک نہیں ہو پائی تھی۔ مجھے حیرانی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہو رہی تھی کہ مغربی بنگال اردو اکیڈمی کا ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور مزید کرسیاں لگانے کے باوجود لوگ کھڑے ہو کر پروگرام کا لطف لے رہے تھے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا تھا کہ اردو پروگرام میں لوگوں کی بھیڑ اس بات کا ثبوت ہے کہ کلکتہ کے لوگ اردو زبان سے کس قدر محبّت کرتے ہیں۔ میں نے بھی اس بات کو محسوس کیا ہے کہ موجودہ حکومت کی اقلیتی  کے بارے میں پالیسی اور مغربی بنگال اکاڈمی کے فنڈ کو بڑھاوا دینے سے اردو زبان کی مقبولت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

2018 کا دسواں صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ اس بارجواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین کو دیا گیا۔ اس پروگرام میں بمبئی سے ظفر گورکھپوری کے صاحبزادے امتیاز گورکھپوری کے علاوہ معروف شاعر ریاض واصف اور کویت کے عالمی شہرت یافتہ شاعر افروز عالم نے بھی شرکت کی۔
سوموار 5فروری کو کلکتہ کے بھارتیہ بھاشا پریشد میں ’لندن کی ڈائری‘ کا اجرا بدست ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین ہوا۔ لندن کی ڈائری کو نیتا جی سبھاش سینٹینری کالج کے ٹیچنگ انچارج ڈاکٹر شکیل احمد خان نے ترتیب دیا ۔ لیکن وہ اپنی علالت کی وجہ سے کتاب کے اجرا میں شرکت نہیں کر پائے جس کا مجھے کافی دُکھ ہوا۔ لندن کی ڈائری کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھوں خریدا اور جس کی تمام آمدنی ایک چیریٹی کو عطیہ کی گئی۔ اس اجرا میں غلام غوث اور ان کی بیگم یاسمین کو دو کالم کو پڑھتے ہوئے ویڈیو دکھائے گئے جسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔

کلکتہ کے اور بھی پروگرام میں حصّہ لینے کا موقع نصیب ہوا۔ جس میں الحمد ایجوکیشنل آرگنائیزیشن، پہلا قدم ، این ایمبیسئیس سوسائٹی فار ریشانیل ایڈوائس، گارڈن ریچ پیس موومینٹ، خضر پور یونٹ فار سوشل اینڈ ویلفئیر ایکٹی ویٹیزاور مولانا آزاد کالج اہم ہیں۔ اس کے علاوہ میں کونسلر شمش الزماں انصاری کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنے اسکول مولانا محمد علی جوہر گرلس ہائی اسکول کاٹ دورہ کروایا اور اہم معلومات سے نوازا۔ تاہم طبعیت کے ناساز ہونے کی وجہ سے مسکان فاؤنڈیشن رشڑا اور درگا پور کالج کے اہم پروگرام میں شرکت نہیں کر پایا جس کا مجھے بیحد افسوس بھی ہے۔ اسلام کی بنیاد عقائد، عبادات، معاشرت، معاملات اور اخلاقیات پر ہے۔ کلکتہ کے سفر کے دوران میں نے اس بات کو شدّت سے محسوس کیا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا ملنا اور اخلاق کا اعلیٰ مظاہرہ کرنا اسلام کی اخلاقیات پر منحصر ہے ۔ جس طرح لوگوں نے اپنے اعلیٰ اخلاق کا اظہار کیا اس کا بیان میں لفظوں میں نہیں کر سکتا۔ اخلاق کے مظاہرے سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ لوگوں میں اسلام  کی عمدہ تعلیم کا رحجان اب بھی قائم ہے۔ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویے کی پراوہ کئے بغیر اپنا رویہ متعین کرے۔ اس کا اخلاق اصولی ہو ، نہ کہ جوابی۔ اخلاقیات اس کا ایک عام اصول ہو ، جس کو وہ ہر جگہ برتے، خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ، وہ جوڑنے والا ہو، حتی کہ اس کے ساتھ بھی جو اس سے برا سلوک کرے اور وہ نظر انداز کرنے والا ہوحتی کہ اس سے بھی جو اس پر ظلم کرتا ہو۔

معاشرے میں مایوسیوں کے باوجود اب بھی کچھ امید افزا بات موجود ہے جو انسان کو اچھا بننے میں ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔  کلکتہ کے نوجوانوں میں ایک تحریک اور امید کی نئی کرن کو پایا جو اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ نوجوان کلکتہ کی آن اور شان بنیں گے۔ میں کلکتہ کے لوگوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے اپنے نیک مشوروں سے نوازا اور میری ضیافت اورحوصلہ افزائی کی۔

Leave a Reply