You are currently viewing نسل پرستی کا زہر اور امریکی معاشرہ

نسل پرستی کا زہر اور امریکی معاشرہ

نسل پرستی ایک ایسا زہر ہے جو ہمارے سماج میں اب بھی پھیلا ہوا ہے اورہزاروں لوگوں کی جان لے رہا ہے۔ نسل پرستی کا احساس اس وقت زیادہ محسوس ہوتا ہے جب یہ یا تو امریکہ یا یورپ کے کسی شہر میں نسل پرستی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ برسوں سے ان ترقی یافتہ ممالک میں نسل پرستی کے خلاف تحریک چلائی گئی ہے یا سیاہ فام لوگوں نے غلامی کی زندگی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔مالکم میکس سے لے کر محمد علی باکسر جیسے معروف لوگوں نے کھل کر نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھائی تھی جس سے سیاہ فام لوگوں میں اتحاد اور اعتماد پیدا ہوا۔ تاہم نسل پرستی کا زہر اب بھی ہمارے معاشرے میں عام پایا جاتا ہے۔ نسل پرستی کے متعلق میری اپنی رائے مختلف نہیں ہے۔ برطانیہ میں 26 سال رہنے کے دوران مجھے نسل پرستی کا تجربہ گاہے بگاہے ہوتا رہا اور اس کا احساس اب بھی ہے۔

برطانیہ میں نسل پرستی کے خلاف لڑنے کے لیے کئی ا دارے بنائے گئے اور یہ ادارے کسی نسلی حملے یا گاہے بگاہے کچھ واقعات پر آواز اٹھاتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ان میں سیاسی مفاد پرستی دکھتی ہے۔ تاہم کچھ سیاہ فام لوگوں کے ادارے کافی فعال اور کارآمد دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں ایک نام (BAME)بلیک ایشین مائینیریٹی ایتھنک ہے جو کافی فعال اور اثر انداز ہے۔ جس کے مشورے پر حکومت عمل کرتی ہے اور جس کے بینر تلے نسل پرستی کے خلاف لوگوں کو پیغام بھی دیا جاتا ہے۔تاہم نہ جانے کیوں لوگوں میں ایک غلط فہمی عام پائی جاتی ہے کہ نسل پرستی صرف سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔

 نسل پرستی ایک نظریہ ہے جو کسی انسانی نسل  ممتاز ہونے یا کمتر ہونے سے متعلق ہے۔نسل پرستی کسی بھی خاص انسانی نسل کی کسی دوسری انسانی نسل یا ذات پر فوقیت یا احساس برتری کے بارے میں امتیاز کا ایک نظریہ ہے۔ نسل پرستی میں ایک نسل کی بنیاد پر سہولیات، حقوق اور سماجی فوائد تک رسائی محدود کر دی جاتی ہے اور نسل پرستی کے شکار لوگوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق، نسل پرستی اور گروہی امتیاز میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔یہ دونوں مجموعی طور پر ایک طرح کے معاشرتی مسائل ہیں۔ مثلاً ایک  خاص نسل کے لوگوں کو اعلیٰ سمجھنا یا ان کو سماج میں اعلیٰ مرتبہ دینا کیونکہ ان کا رنگ سفید یا وہ تاریخی اعتبار سے ایک کامیاب اور اعلیٰ نسل مانے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر سفید امریکی،یورپ اورساؤتھ افریقہ کے لوگ جنہوں نے دنیا بھر میں حکومت کی اور دوسری نسل اور رنگ کے لوگوں کو غلام بنا کر اپنے لیے کام کروائے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نسل پرستی کے خلاف قوانین اور لوگوں میں اس کی جانکاری کچھ عرصہ قبل سے ہی عام ہوئی  ہے۔ ورنہ تیس سال قبل نسل پرستی کے خلاف شکایت کرنا یا اس پر ایکشن لینا ایک غیر ضروری بات سمجھی جاتی تھی۔

جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بیچ بھی نسلی بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک عام ہے۔ مثلاً بر صغیر اور دنیا میں بسے ایشائی مائیں اپنے بیٹوں کے لیے گوری رنگت کی لڑکی کا انتخاب کرنا فخر سمجھتی ہیں۔ یعنی کہ اگر لڑکی کا رنگ گورا ہو تو اس کی سیرت اور، تعلیم اور صلاحیت گورے رنگ کے سامنے بے معنی ہے۔  یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی لڑکی کو پسند نہیں کر رہے ہیں بلکہ قربانی کا جانور پسند کر رہے  ہیں جس کے دانت، سینگ اور تندرستی زیادہ اہم ہے اور وہ جانور تمام نقص سے پاک ہو۔

برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں نسل پرستی کے خلاف آئے دن احتجاج ہوتے رہتے ہیں اور نسل پرستی کے خلاف سخت قدم اٹھائے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آئے دن کبھی پولیس تو کبھی سیاستدان تو کبھی دفتر میں نسل پرستی کی شکایتیں مسلسل موصول ہوتی رہتی ہیں۔ اب اسے فطرت کہیے یا سفید فام لوگوں میں نسلی بھید بھاؤ کا جنیاتی اثر۔ تبھی تو نسل پرستی کے خلاف قانون اور پالیسی کے باوجود سیاہ فام لوگ اور اقلیتی لوگ نسل پرستی کے مسلسل شکار ہوتے رہتے ہیں۔

2010 میں اپنی بیٹی زارا فہیم کو لندن کے ایک پرائمری اسکول چھوڑنے جاتا تھا۔ ایک دن اسکول کی گیٹ پر کھڑا ایک کمیونیٹی سفید فام پولیس آفیسر میرے پاس آ کر کہتا ہے کہ یہاں گاڑی نہ پارک کریں۔ میں نے اس آفیسر سے کہا کہ لیکن گاڑی تو ہم نے اسکول کی گیٹ پر پارک نہیں کی تو آپ مجھے کیوں یہ بات کہہ رہے ہیں۔ پھر میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور دفتر چلا گیا۔ دوسرے روز جب پھر میں اسکول پہنچا تو اس سفید فام کمیونیٹی پولیس آفیسر کے ساتھ دوسرا سفید فام پولیس افسر  میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا گاڑی کا انجن بند کرو اور باہر آؤ۔ سفید فام پولیس آفیسر نے مجھ سے کہا کہ کل تم نے گاڑی کیوں پارک کی، میں نے کہا گاڑی تو میں نے وہیں پارک کی جہاں گاڑی پارک کرنے کی اجازت ہے۔ ابھی ہم بات ہی کر رہے تھے کہ ایک سفید فام پولیس آفیسر نے مجھے زور کا دھکا دیا اور میں جھاڑیوں میں گر گیا۔ میں سفید فام پولیس آفیسر کی حرکت سے دم بخود ہوگیا۔ سوچئے کیوں پولیس آفیسر کو میری بات اتنی بری لگی کہ اس نے مجھے دھکا دے کر گرا دیا۔ کیا سفید فام پولیس آفیسر کسی انگریز سفید فام کو اس طرح دھکے دے سکتا ہے۔ شاید کبھی نہیں۔بس میرا قصور یہ تھا کہ میں ایک ایشیائی بندہ سفید پولیس آفیسر کو جواب دے بیٹھا۔

25مئی کو امریکہ کے شہر مینوپلیس میں ایک سیاہ فام شخص کو ایک پولیس آفیسر نے اپنے گھٹنے سے دبا کر مار ڈالا۔حالانکہ پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ وہ جورج فلویڈ کو زمین پر گرا کر اس کو گرفتار کرنا چاہ رہا تھا۔لیکن اس پورے واقعہ کابھانڈا اس وقت پھوٹا جب ایک عینی شاہد کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ اس شخص کو پولیس افسر نے زمین پر گرا کر اپنے گھٹنوں سے دبوچا ہوا ہے اور وہ سیاہ فام کہہ رہا ہے ’مجھے مت مارو‘،’میں سانس نہیں لے پارہا‘۔ اس واقعہ کے بعد سیاہ فام جورج فلویڈ نے دم توڑ دیا اور پورا امریکہ جلنے لگا۔اس واقعہ کے بعد امریکہ سمیت یورپ کے کئی ممالک میں پولیس کی درندگی کے خلاف زور دار احتجاج ہورہے ہیں۔

امریکی صدر نے شروعات میں  احتجاجی شہریوں کو بجائے ہمدردی دکھانے کے انہوں نے ایسی جارحانہ وارننگ دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو آگ لگی ہوئی تھی اس پر ان کے بیانات نے تیل چھڑکنے کا کا م کیا۔ امریکی صدر نے احتجاجیوں سے کہا کہ ’لوٹنگ اورشوٹنگ‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ٹوئیٹ سے معاملہ اور بگڑ گیا ہے اور امریکہ کے مزید شہر آگ کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک کے بعد ایک اپنے احمقانہ اور جارحانہ بیان سے پورے امریکہ کی صورتِ حال کو مزید نازک بنا دیا ہے۔ اسی دوران ایک جلے ہوئے چرچ کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہاتھ میں بائبل لیے  دکھایا گیا جس سے دنیا بھر میں ان کا مذاق اڑا یا گیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی بزدلی کا ایک نمونہ یہ تھا کہ وہ  ڈر کے مارے  ’وائٹ ہاؤس‘ کی سرنگ میں تھوڑی دیر کے لیے پناہ لینے پہنچ گئے۔دنیا کا طاقت ور اور دولت مند ملک کا صدر اپنے ہی لوگوں کے احتجاج سے جب سرنگ میں پناہ لینے لگے تو اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کو لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکہ کے جورج فلویڈ کی موت نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ امریکہ جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی،

 امتیازی بھید بھاؤ، نسل پرستی، مساوات، قدروں، تعصب، مذہبی آزادی جیسے باتوں پر دوسرے ممالک میں دخل اندازی کرتا تھا، آج خود دنیا کے سامنے اپنا منہ کالا کر بیٹھا ہے۔جہاں کبھی مذہبی آزادی کی دھجیاں اڑا کر اسلام مخالف بات ہو رہی تو وہیں نسل پرستی کے نام پر کبھی سیاہ فام تو کبھی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اور ان تمام باتوں کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ذمہ دار ہیں جن کی صدارت میں پچھلے چار برسوں میں امریکہ ایک عظیم ملک سے ایک ذلیل ملک بن کر رہ گیا ہے۔

میں نے نسل پرستی  کے خلاف ہمیشہ کھل کر احتجاج کیا ہے اور اسے ایک خطرناک جرم مانا ہے۔۔ نسل پرستی ایک جنون ہے جس میں انسان کی جان بھی لے لی جاتی ہے۔ نسل پرستی کا بنیادی مسئلہ سفید فام انسان نہ ہونا ہے جو کہ ایک نہایت ہی سنگین اور خطرناک جرم ہے۔ آئیے ہم اور آپ نسل پرستی کے خلاف متحد ہو کر احتجاج کریں اور اسے سماج اور معاشرے سے اکھاڑ پھینکیں۔

Leave a Reply