You are currently viewing مہنگا پڑنے والا بوسہ اور برطانیہ کے نئے ہیلتھ سیکریٹری

مہنگا پڑنے والا بوسہ اور برطانیہ کے نئے ہیلتھ سیکریٹری

25

جون کو برطانیہ ایک سیاسی اسکینڈل کی لپیٹ میں آگیا۔ جب ایک ٹیبلویڈ اخبار نے ہیلتھ سیکریٹری میٹ ہینکوک کی  اپنی خاتون معاون کو بوسہ دیتے ہوئے کی تصویر شائع کیں۔ اس طرح کووڈ کے دوران سوشل فاصلے کے قوانین کو توڑ ا گیا۔

دی سن‘ اخبار کے پہلے صفحہ پر لگائی گئی تصایر میں دکھایا گیا ہے کہ میٹ ہینکوک نے گزشتہ ماہ اپنے دفتر میں ٹیکس دہندگان کی مالی مدد سے چلنے والے شعبے میں کام کرنے والی اپنی خاتون دوست کو بوسہ دے رہے ہیں۔میٹ ہینکوک کی ملاقات اپنی معاون سے 2000کی اوائل میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ان کا نام محکمہ صحت کی ویب سائٹ پر  ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر درج ہے۔میٹ ہینکوک کی تصویر 6مئی کو سی سی ٹی وی پرلی گئی تھی۔ جب یہ کہانی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو،42 سالہ ہیلتھ سیکریٹری میٹ ہینکوک نے کہا کہ انہوں نے اس بات سے لوگوں کو مایوسی کا شکار کیا ہے جس کا انہیں بہت افسوس ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’میں قبول کرتا ہوں کہ میں نے ان حالات میں سوشل فاصلے کی خلاف ورزی کی ہے‘۔ ’میں ملک کو اس وبائی بیماری سے نکالنے کے لئے کام کرنے پر مرکوز رہوں گا اور اپیل کروں گاکہ اس ذاتی معاملے پر میرے کنبہ کی رازداری کا خیال رکھا جائے، جس کے لئے میں شکر گزار ہوں گا‘۔

بعد میں بورس جونسن کے ترجمان نے کہا کہ برطانیہ کے وزیراعظم نے ہینکوک کی معافی قبول کر لی ہے اور معاملے کوختم سمجھا جارہا ہے۔پہلے تو ہیلتھ سیکریٹری نے ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے معاملے کو معمولی سمجھا۔ لیکن جب برطانوی اخبارات اور عوام نے حکومت سے سیدھے سیدھے سوالات پوچھنا شروع کیا تو میٹ ہینکوک کو بحالتِ مجبوری کووڈ اصول کے تحت سماجی فاصلاتی رہنمائی کی خلاف ورزی کرنے  پر سیکریٹری صحت کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔جس کے بعد برطانوی وزیر اعظم بورس جونسن نے کہا کہ انہیں استعفیٰ ملنے پر افسوس ہے۔

 فوراً بعد سابق چانسلر (وزیر خزانہ) ساجد جاوید کو نیا ہیلتھ سیکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔ ساجد جاوید نے کہا ہے کہ’مسٹر ہینکوک کی جگہ منتخب ہونے پر یہ ان کے لئے ایک اعزاز ہے۔سب سے پہلے تو میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد تمام وزرا کو ان کے عہدے کے ساتھ سیکریٹری لکھا جا تا ہے۔ اس بات کو لکھنا اس لئے ضروری تھا کیوں کہ ہندوستان اور ایشیائی ملکوں میں کلبوں اور اداروں کے عہدے دران کے نام کے ساتھ سیکریٹری لکھا جا تا ہے۔اس لئے غلط فہمی سے بچنے کہ لئے یہ بتانا ضروری تھا کہ ساجد جاوید برطانیہ کے وزیر مقرر ہوئے ہیں نہ کہ کسی ادارے یا کلب کے سیکریٹری بنائے گئے ہیں۔

ساجد جاوید کنزرویٹیو پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے پہلے ہیلتھ سیکریٹری ہیں۔تاہم اس سے قبل  ساجد جاوید اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے پہلے ہوم سیکریٹری(وزیر داخلہ) اور پھر پہلے چانسلر (وزیر خزانہ) رہ چکے ہیں۔ ان کی پیدائش 5دسمبر 1969میں برطانیہ کے شہر روچ ڈیل میں ہوئی تھی۔ساجد جاوید کی شادی ایک انگریز خاتون سے ہوئی ہے اور ان کے چار بچے ہیں۔ ساجد جاوید برطانوی سیاست میں ابھرتے ہوئے لیڈر مانے جا رہے تھے۔لیکن جب بورس جونسن نے اپنی نئی کابینہ سے چھ مہینے بعد ہی چانسلر کے عہدے سے ہٹا دیا تو ساجد جاوید کو  بڑا جھٹکا لگا تھا۔ ساجد جاوید کے والد سترہ سال کی عمر میں پاکستان سے روزگار کی تلاش میں ہجرت کر کے برطانیہ آئے تھے۔ساجد جاوید کے چار بھائی ہیں۔ ابتدائی دنوں میں ان کے والد نے ایک فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد انہیں بس کی ڈرائیوری کی نوکری مل گئی۔جس کی وجہ سے ان کو  ’مسٹر نائٹ اور ڈے‘  کے نام سے پکارا جانے لگاکیونکہ وہ دن رات بس چلاتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ساجد جاوید کے والدین برسٹل شہر منتقل ہوگئے جہاں ان کے والد نے کپڑے کی دکان کھولی۔ان دنوں ساجد جاوید کپڑے کی دکان کے اوپر فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔

ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ انہیں اسکول میں پڑھائی کافی مشکل لگتی تھی اور اکثر وہ اپنے اسکول کے ہوم ورک کرنے کی بجائے ٹیلی ویژن دیکھا کرتے تھے۔لیکن ساجد جاوید کے والد نے انہیں ہمیشہ پڑھائی پر دھیان دینے کو کہا اور کہا کرتے تھے کہ’تم مجھے نیچا نہ دکھاؤ‘۔ساجد جاوید کو اپنے والد کی بات کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے اس کے بعد اپنا زیادہ تر وقت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں لگا دیا۔ساجد جاوید نے ایکسیٹر یونیورسٹی سے معاشیات اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کی۔ جس کے بعد انہیں مختلف کمپنیوں اور بینکوں میں اعلیٰ عہدیوں پر کام کرنے کا موقع ملا۔ساجد جاوید کو جب لندن میں نوکری ملی تو ان کے ساتھی انہیں اس بات کا طعنہ دیا کرتے تھے کہ اگر تم اسکول کی ٹائی پہنو گے اور اپنے گھر والوں سے رابطہ رکھو گے تو تمہیں لندن شہر میں اچھی نوکری نہیں ملے گی۔ لیکن ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان باتوں کو غلط ثابت کر دیاہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ساجد جاوید پچیس سال کی عمر میں ہی چیز مین ہاٹن بینک کے نائب صدر بن گئے۔ اس کے بعد وہ ڈویچا بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ جس کی سال کی تنخواہ تین ملین پونڈتھی۔لیکن ساجد جاوید کی قسمت میں نوکری کے زیادہ دن نہیں لکھے تھے اس لئے وہ سیاست میں دلچسپی لینے لگے۔ ساجد جاوید کافی عرصے سے کنزرویٹیو پارٹی کے حمایتی اور ممبر ہیں۔ 2010میں ساجد جاوید کو کنزرویٹیو پارٹی نیبرومس گروو سے پہلی بار ایم پی کے الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ دیا تو ساجد جاوید کو یقین تھا کہ وہ ایم پی ضرور بنیں گے۔ انہیں شاندار کامیابی نصیب ہوئی اور اس طرح ساجد جاوید برطانوی پارلیمنٹ میں بطور ایم پی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے لگے اور ان کی بہترین کارگردگی سے سیاسی حلقوں میں ساجد جاوید کا چرچا ہونے لگا۔

ساجد جاوید ہیلتھ سیکریٹری بننے سے قبل چار بار مختلف سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ 2014میں سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ساجد جاوید کو کلچر،میڈیا، اور اسپورٹس سیکریٹری بنایاتھا۔اس کے بعد 2015میں بزنس سیکریٹری بنائے گئے۔2016میں انہیں کمیونیٹی سیکریٹری بنایا گیا۔2018 میں ساجد جاوید کو ہوم سیکریٹڑی(وزیر داخلہ) بنایا گیا تھااور 2019میں چانسلر(وزیر خزانہ) بنایا گیا۔ساجد جاوید نے اس دوران کوئی خاص کارنامہ تو انجام نہیں دیا لیکن انہیں بطور بزنس سیکریٹری کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جب ٹاٹا اسٹیل نے برطانیہ میں اپنے پلانٹ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھاتو اس وقت ٹاٹا اسٹیل کے اسٹاف نے بھر پور مظاہرہ کیا تھا اور ساجد جاوید کو اس مسئلے کو سلجھانے کے لئے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ہوم سیکریٹری کے ذمے امیگریشن، سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی جیسے اہم شعبے ہیں۔ جو مسلسل برطانیہ کی سیاست اور عام لوگوں کے لئے ایک درد سر بنا رہتا ہے۔لیبر پارٹی کے تیرہ سالہ دورِ حکومت میں آٹھ ہوم سیکریٹریوں کو استعفیٰ دینا پڑا تھا یا انہیں وزیر اعظم نے ہٹا دیا تھا۔ 2010میں جب کنزرویٹیو پارٹی بر سر اقدار آئی تو موجودہ وزیر اعظم تھریسا مے کو ہوم سیکریٹری بنایا گیا تھا۔ جنہیں گاہے بگاہے کئی مشکلاتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور کئی بار ایسا معلوم ہوا کہ انہیں بھی استعفیٰ دینا پڑے گا۔تاہم تھریسا مے پچھلے عام الیکشن میں جیت کر خود وزیر اعظم بن گئی اور امبر روڈ کو ہوم سیکریٹری بنا دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ساجد جاوید کے ہیلتھ سیکریٹری مقرر ہونے پر برطانیہ کے اقلیتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کیونکہ پہلی بار اقلیتی طبقے سے کسی کو ہیلتھ سیکریٹری جیسا اہم وزیر مقرر کیا گیا ہے۔لیکن وہیں ساجد جاوید نے اپنے ایک انٹرویو میں اپنے آپ کو’بے عمل مسلم‘کہہ کر جہاں مسلمانوں کو حیرانی میں ڈال دیا ہے تو وہیں شاید انگریزوں کی نظر میں وہ سر خرو بھی ہوگئے ہیں۔جو کہ مجھے ایک غیر ضروری بات لگتی ہے۔ مجھے زندگی میں اب تک چار طرح کے مسلمانوں سے سابقہ پڑا ہے۔ پہلا مسلمان جو صرف نام کا ہوتا ہے، دوسر امسلمان جو صرف جمعہ کی نماز پڑھنے والا ہوتا ہے، تیسر ا مسلمان نماز روزہ کے علاوہ دنیاوی چیزوں میں بھی دلچسپی رکھنے والا ہوتا ہے اور چوتھا مسلمان صرف عبادت کرنے والا ہوتا ہے اور وہ دنیا سے غافل ہوتا ہے۔ساجد جاوید بھی انہی مسلمانوں میں سے ہیں جو ’برائے نام مسلمان‘ ہیں۔

مجھے اس بات سے کوئی بحث نہیں ہے کہ کون کتنا مذہبی ہے لیکن مجھے ساجد جاوید کی اس بات سے افسوس ضرورہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ’بے عمل مسلم‘ بتا کر کیا ثابت کرنا چاہا ہے۔ کیا ترقی کے زینے طے کرنے کے لئے یا کسی عہدے کو حاصل کرنے کے لئے اپنے ایمان کا سودا کرنا ضروری ہے۔ ساجد جاوید کی بات سے تو یہی لگ رہا ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہو جائے گی۔ ہم ساجد جاوید کو ہیلتھ سیکریٹری مقرر ہونے پر دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے فرض کو بحسن و خوبی انجام دیں گے۔

برطانیہ میں 5جولائی 1948کو نیشنل ہیلتھ سروس  کا قیام عمل میں آیا جو کہ دنیا کی واحدہیلتھ سروس ہے جہاں لوگوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ برطانیہ میں اس سسٹم کے تحت لوگ جی پی سے لے کر ہسپتال میں بھرتی ہونے کے علاوہ آپریشن بھی مفت میں کرواتے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے  این ایچ ایس  میں فنڈ کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہسپتال اپنی عمدہ کارکردگی سے محروم ہورہا ہے۔ صحت کے ماہرین اس کی کئی وجوہات بتا تے ہیں مثلاً ہسپتال پر کثیر تعداد میں مریضوں کا بوجھ، بڑھتی ہوئی آبادی، لوگوں کے عمر کا بڑھنا،بزرگ لوگوں کا زیادہ دن تک حیات سے رہنا اور بیماریوں کا پیچیدہ ہونا وغیرہ ۔ تاہم ان دشواریوں کے باوجود برطانیہ کا این ایچ ایس اب بھی لوگوں کو بہترین اور عمدہ سروس پیش کر رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے ہیلتھ سیکریٹری ساجد جاوید این ایچ ایس کے وقار کو برقرار رکھنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔

Leave a Reply