You are currently viewing مہنگائی اور دنیا کی بگڑتی معاشی صورتِ حال

مہنگائی اور دنیا کی بگڑتی معاشی صورتِ حال

پچھلے چند ہفتوں سے سری لنکا کی معاشی تباہی کی صورتِ حال کو دیکھ کر نہ جانے کیوں ایک خوف سا دل میں بیٹھ گیا ہے۔ کرنسیوں کے کریش ہونے کے روایتی قرضوں کے بحران کے آثار صاف نظر آرہے ہیں اور ترقی پذیر ممالک اب مشکل میں ہیں۔

 سری لنکا، لبنان، روس، سورینام اور زیمبیا پہلے ہی سے ڈیفالٹ میں ہیں اور اب بیلا روس بھی دہانے پر ہے اور کہا جارہا ہے کم از کم درجنوں ممالک خطرے کے زون میں ہیں کیونکہ قرض لینے کے بڑھتے ہوئے اخراجات، افراط زر اور قرض سبھی معاشی تباہی کے خدشات کو جنم دیتے ہیں۔عام طور پرلاگت کو آگے بڑھانا ایک تکلیف دہ قدم ہے۔ 1000بیسس پوائنٹ بانڈ(سود کی شرح اور فنانس میں دیگر فیصد کے لیے ایک معیاری پیمائش ہے) اب بری طرح پھیل چکا ہے۔ تجزیہ کار حساب لگا رہے ہیں کہ 400بلین  ڈالرقرض فی الحال دیا جاچکا ہے۔ جن میں ارجنٹائن کے پاس اب تک سب سے زیادہ 150بلین ڈالرکا قرض ہے جبکہ اگلے نمبر پر ایکواڈار اور مصر ہیں جو 40بلین سے 45بلین ڈالر کے ساتھ قرض دار ہیں۔

افریقہ میں آئی ایم ایف کے پاس جانے والے ممالک کا ایک جھرمٹ دیکھا جارہاہے۔ جس میں تیونس سب سے زیادہ خطرے میں نظر آتا ہے۔ یوکرین اور ایکواڈور کے ساتھ ساتھ تیونس 2800بیسس پوائنٹس سے بڑھ کر مورگن اسٹینلے کی ممکنہ ڈیفالٹر کی ٹاپ تھری فہرست میں شامل ہیں۔ مصر کا قرض کافی بڑھ گیا ہے اور اس کا جی ڈی پی کا تناسب تقریباً 95فیصد ہے اور اس سال بین الاقوامی نقد کا سب سے بڑا اخراج دیکھا گیاہے۔ جے پی مورگین کے مطابق مصر پرتقریباً 11بلین ڈالر کا قرض ہے۔ مزید قرض لینے سے گھانا کے قرض سے جی ڈی پی کا تناسب تقریباً 85فیصد بڑھ گیا ہے۔ اس کی کرنسی سیڈی، اس سال اپنی قدر کا تقریباً ایک چوتھائی کھو چکی ہے اور جوپہلے ہی قرض کے سود کی ادائیگیوں پر ٹیکس محصولات کا نصف سے زیادہ خرچ کر رہی تھی۔

دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ کارمورگن اسٹینلے اور امونڈی نے خبردار کیا ہے کہ روس کے حملے کا مطلب ہے کہ یوکرین کو تقریباً یقینی طور پر اپنے 20بلین ڈالر قرضوں کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔تاہم برطانیہ، امریکہ سمیت یوروپین یونین نے بلین ڈالر کے اسلحہ اور مالی امداد یوکرین کو حال ہی میں فراہم کی ہے۔ جس کی وجہ سے یوکرین پر قرض د ن بدن بڑھتا جارہا ہے۔

عالمی بینک کی تازہ ترین گلوبل اکنامک پراس پیکٹس رپورٹ کے مطابق کووڈ19وبائی مرض سے ہونے والے نقصان اور یوکرین پر روسی حملے نے عالمی معیشت میں سست روی کو بڑھا دیا ہے۔جو کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور بلند افراط زر کا ایک طویل عرصہ بن سکتا ہے۔ یہ متوسطہ اور کم آمدنی والی معیشتوں کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ نتائج کے ساتھ جمود کا خطرہ بڑھاتا ہے۔  توقع ہے کہ عالمی مارکیٹ جو کہ 2021میں 5.7فیصد تھی 2022میں 2.9فیصد تک گر جائے گی۔ جو جنوری میں متوقع 4.1فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے۔2023-24کے دوران اسی رفتار کے گرد رہنے کی توقع ہے۔ کیونکہ یوکرین میں جنگ، سرمایہ کاری اور تجارت میں خلل ڈال رہی ہے، جس سے مارکیٹ کی مانگ میں کمی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ وبائی امراض اور جنگ سے ہونے والے نقصان کے نتیجے میں اس سال ترقی پزیر معیشتوں میں فی کس آمدنی کی سطح اس سے قبل کے رحجان سے تقریباً 5فی صد کم ہوگی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی اقتصادی ترتیب کے بارے میں قابل ذکر چیزوں میں سے ایک سنگین بحرانوں کا جواب دینے میں حکومتوں کی لچک رہی ہے۔1970کی دہائی میں بریٹن ووڈس کرنسی (بریٹن ووڈس معاہدے پر جولائی 1944میں نیو ہیمپشائر کے بریٹن ووڈس میں منعقدہ اقوام متحدہ کی مانیٹری اینڈ فنانشل کانفرنس میں 44ممالک کے مندوبین نے بات چیت کی تھی۔ بریٹن ووڈس سسٹم کے تحت سونا امریکی ڈالر کی بنیاد تھا اور دیگر کرنسیوں کی قدرکو امریکی ڈالر کی قدر کے مطابق لگایا جاتاتھا۔ بریٹن ووڈس سسٹم مؤ ثر طریقے سے 1970 کی دہائی کے اوائل میں ختم ہوا جب امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اعلان کیا کہ امریکہ اب امریکی کرنسی میں سونے کا تبادلہ نہیں کرے گا۔ اس  نظام کے خاتمے سے لے کر 1990کی دہائی کے ایشیائی مالیاتی بحران سے اور اس صدی میں عالمی مالیاتی بحران تک دنیا کی بڑی معیشتوں نے سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تعاون کے طریقے تلاش کرنے میں حیرت انگیز طور پرکامیاب اقدامات ثابت کئے ہیں۔تاہم اس بار یہ سلسلہ آخر کار ٹوٹ سکتا ہے۔ دنیا جن مسائل سے دو چار ہے، ان میں روس اور یوکرین کی جنگ، افراط زر،  خوراک اور توانائی کی عالمی  قلت، امریکہ میں اثاثوں کا کمزور پڑنا، ترقی پزیر ممالک میں قرضوں کا بحران، کووڈ19سے متعلقہ شٹ ڈاؤن اور ضروری اشیا کی سپلائی کی رکاوٹوں کے دیرپا اثرات وغیرہ ایسے سنگین مسائل ہیں جو بحران  کو سنگین کرسکتے ہیں۔

 جب پوری دنیا معاشی دشواریوں کا سامنا کرے گی تواس سے ہندوستان اور پاکستان کیسے بچیں گے۔ہندوستان کی معاشی صورتِ حال تو پچھلے کچھ سالوں میں قدرے بہتر ہوئی ہے اور اب تو ہندوستان دنیا کے امیر ترین ممالک کے ساتھ اپنی دولت اور کاروبار کو بڑھاوا بھی دے رہا ہے تاہم  پاکستان کے کمزور جمہوری نظام، اور بدحال اقتصادی صورتِ حال نے ملک کو ایک ایسے موڑ پر پہنچا دیا جہاں صرف اللہ ہی پاکستان کا نگہبان ہے۔

ہندوستان کی اقتصادی ترقی 2022کے پہلے تین مہینوں میں ایک سال میں سب سے کم سطح پر آگئی ہے۔ جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے درمیان صارفین کی مانگ میں کمی آئی ہے جو ترقی کو نقصان پہنچائے بغیر افراط زر پر قابو پانے کے مرکزی بینک کے کام کو مزید مشکل بنا سکتی ہے۔جنوری سے مارچ میں مجموعی گھریلو پیدوار میں سال بہ سال 4.1فیصد اضافہ ہوا ہے۔جو کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق  ہے۔تاہم ہندوستان میں زیادہ تر لوگ روز مرہ کی آمدنی پر ہی اپنی زندگی گزارتے ہیں جن پرہندوستان کی اقتصادی پالیسی کی ترقی اور تباہی دونوں ہی صورت میں زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عام طور پر لوگوں کا مہنگائی سے جینا حرام ہے۔

عرب بیرو میٹر نے حال ہی میں کئی ممالک میں معاشی صورتِ حال پر ایک سروے کروایا ہے جس سے پتہ چلا کہ پورے خطہ میں معاشی منظر نامہ تاریک ہے۔زیادہ تر لوگوں نے اپنے ملک کی معاشی صورتحال کو بدتر بتا رہے ہیں۔اس سروے کے مطابق عرب، مشرق  وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں معاشی استحکام کے لیے جمہوریت پر اعتماد کھو رہے ہیں۔ اس سروے میں لبنان کو تمام ممالک میں سب سے کم درجہ دیا گیا ہے۔ لبنانیوں میں سے ایک فیصد سے بھی کم لوگوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال اچھی ہے۔عالمی بینک نے لبنان کے معاشی بحران کو انیسویں صدی کے وسط کے بعد سے دینا کے سب سے شدید معاشی بحران میں سے ایک قرار دیا ہے۔مجموعی طور پر زیادہ تر لوگوں کو یہ امید نہیں ہے کہ اگلے چند سالوں میں ان کے ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہوگی۔تیونس میں معاشی بدحالی کے باوجود لوگوں کا ماننا ہے کہ مستقبل کے بارے میں سب سے زیادہ پر امید ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ چند سالوں میں چیزیں بہت بہتر یا کسی حد تک بہتر ہوں گی۔

عرب بیرو میٹر کے ڈاکٹر رابنز کا کہنا ہے کہ مستقبل  غیر یقینی ہے۔ خطے کے شہری متبادل سیاسی نظام کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ وہ چینی ماڈل  یعنی ایک آمرانہ یا ایک جماعتی نظام ہو۔ جس کے بارے میں بقول ان کے گزشتہ 40سالوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کو غربت سے نکالا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تیز رفتار اقتصادی ترقی وہی ہے جسے بہت سے لوگ تلاش کر رہے ہیں۔

یہ سروے عرب بیرومیٹر ریسرچ نیٹ ورک نے کیا ہے اور اس منصوبے میں نومشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ اور فلسطینی لوگوں سے انٹرویو کئے گئے۔عرب بیرومیٹر جو کہ پرنسٹن یونیورسٹی میں قائم ایک تحقیقی نیٹ ورک ہے،  2006سے اس طرح کے سروے کر رہا ہے۔ یہ سروے عرب دنیا کا ہے لہذاٰ اس میں ایران، اسرائیل یا ترکی شامل نہیں ہیں۔ تاہم ترکی کی معاشی حالت کئی سال سے خراب ہے اور ترکی لیرا  ڈالر کے مقابلے میں ان دنوں کافی گرا ہواہے۔جبکہ ایران پر لگی اقتصادی پابندی اب بھی برقرار ہے۔امید کی  جارہی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہٹتے ہی امریکی صدر بائیدن ایران سے اقتصادی پابندی  ہٹادیں گے۔ لیکن لگتا ہے امریکی صدر جو بائیدن عمر رسیدہ، نیند کی غنودگی اور کمزور یادداشت کی وجہ سے ایران سے اقتصادی پابندی ہٹانا ہی بھول گئے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ روس یوکرین کی جنگ نے مہنگائی بڑھانے میں اور معاشی بدحالی میں نمایا ں رول نبھایا ہے۔ لیکن میں نے مہنگائی کو پچھلے بیس برس میں برطانیہ سمیت پوری دنیا میں مسلسل بڑھتے ہوئے پایا ہے۔ جبکہ اس وقت روس یوکرین کی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ خیر سری لنکا کا دیوالیہ ہونا اور کئی ممالک میں معاشی بدحالی کا بڑھنا، ہر عام و خاص کو خوف میں ڈال دیا ہے۔اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مہنگائی میں کچھ کمی ہوگی یا حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے۔

Leave a Reply