You are currently viewing آکاش کی فرقہ وارانہ یکجہتی کا آسمان کاش مظفر نگر میں بھی نظر آئے

آکاش کی فرقہ وارانہ یکجہتی کا آسمان کاش مظفر نگر میں بھی نظر آئے

 

لندن کی ڈائری
آکاش کی فرقہ وارانہ یکجہتی کا آسمان کاش مظفر نگر میں بھی نظر آئے
وطن سے دورلندن میں فرقہ وارانہ یکجہتی دیکھ کر میں بے حدمتا ثر ہوا۔ میرے ایک دوست آکاش کی دعوت پرمیرا رومفورڈ جانا ہوا۔دراصل ہمارا رومفورڈ جانے کا مقصدآکاش کے نئے فلیٹ کے گھر پرویش اور پوجا کی تقریب میں شرکت کا تھا۔ رومفورڈ (Romford) لندن کے مشرقی حصےّ میں پڑتا ہے جو اسیکس(Essex) کا علاقہ ہے۔ ویمبلڈن (Wimbledon)سے رومفورڈ بذریعہ کار جانے میں کوئی ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ لگتا ہے۔ ٹوٹنگ(Tooting)، بالھم(Balham)، الیفنٹ کاسل(Elephant Castle) ہوتے ہوئے جب ہم لندن کے مشہور تاریخی ٹاور برِج (Tower Bridge) سے گزر رہے تھے تو وہاں ہم نے سیاحوں کا ایک ہجوم پایا۔دریائے تھیمس پر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور ہر طرف کیمرے کی لائٹ جگمگا رہی تھی۔ ٹاور برج سے گزرنے میں یوں تو 5 منٹ لگتے ہیں مگر اس دن ٹریفک کی وجہ سے تقریباً 10منٹ لگ گئے۔ اتوار کا دن ہوتے ہوئے بھی لندن کی گہما گہمی سے اس بات کا پتا چلتاہے کہ یہاں کے لوگ سیر و سیاح کے کافی شوقین ہیں اور لندن کی تیز رفتار زندگی میں وہ کبھی تھکتے نہیں ہیں۔ہم بھی اس روح پرور منظر سے محظوظ ہورہے تھے۔ آخر کار کوئی ایک گھنٹہ 20 منٹ کے سفر کے بعد ہم اسیکس کے شہر رومفورڈ پہونچ گئے۔ڈور بیل بجاتے ہی ایک لڑکے نے دروازہ کھولا اور ہمیں فلیٹ کے اندر پوجا والے کمرے میں لے جا کر بیٹھا دیا۔ کمرے میں کوئی 20 لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے ایک تصویر رکھی تھی جو کہ شاید لچھمی دیوی کی تھی اور جس کے چاروں طرف پلاسٹک کے کیلے کے پتے لگے ہوئے تھے۔ پاس ہی ایک کانسے کا کلس رکھا تھا جو کہ چار پتوں سے سجا ہوا تھااور اس کے سامنے ہی ناریل رکھا ہوا تھا جس کے بیچ لال رنگ کا دھاگا بندھا ہوا تھا۔
پنڈت جی جو کہ گجراتی تھے اندازاً 3 0 سال کے لگ رہے تھے۔ وہ اپنے منتر پڑھنے میں مصروف تھے۔ اس کے پاس ہی گھر کے مالک آکاش اور ان کی پتنی زمین پر بیٹھے تھے ۔پنڈت جی نے پوجا کے دوران کئی معنی خیز باتیں بتائیں مثلا ًست نارائین کی پوجا کرنا کتنا ضروری ہے اور اس کے کیا کیا فائدے ہیں۔ پنڈت جی نے بھگوان گنیش کی بھی پوجا کی اہمیت کو بتا یا اور بھگوان گنیش کی پتنیوں کی بھی اہمیت کو تفصیل سے بیان کیا۔ ایک ضروری بات پنڈت جی نے یہ بتائی کہ پتنی کو روز صبح پتی کا چرن چھونا چاہئے۔پنڈت جی کی اس بات سے پوجا میں بیٹھی تمام خواتین نے پنڈت جی کو گھوُر کر دیکھنا شروع کیا۔ پھر شاید پنڈت جی کو فوراً یہ احساس ہوا کہ وہ تو لندن میں ہیں اور کمرے میں موجود تمام خواتین تعلیم یافتہ اور پروفیشنل بھی ہیں تو انہوں نے فوراً یہ بھی کہہ دیا ’کہ آپ نسچنتھ رہے اس لئے کہ ایسا کرنے سے پھر سارا دن پتی اپنی پتنیوں کے چرن چھوتا رہے گا‘۔ پنڈت جی کی اس بات سے کمرے میں بیٹھی تمام عورتوں کے چہرے خوشی سے کھِل اُٹھے اور سبھی لوگ پنڈت جی کی بات سن کر زور سے ہنسنے لگے۔ آخر میں پنڈت جی نے آکاش اور انکی پتنی کو 118 بھگوان کے نام سے دو دو دانے چاول کو تھالی میں ڈالنے کو کہا۔
پنڈت جی نے لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ یوں تو ہندوستان میں لو گ ہزار ناموں سے بھگوان کو یاد کرتے ہیں لیکن میں توسمے کے انوسار ایسا کر رہا ہوں کیونکہ ہمارے پاس وقت کم ہے۔ آخر کا ر کوئی دو گھنٹے بعد جب پوجا پاٹ ختم ہوئی تو پنڈت جی نے آکاش اوران کی پتنی کونئے گھر کی مبارک باد دی ۔ہم نے بھی آکاش کو نئے گھرمیں پرویس ہونے کی مبارک باد دی اور ایک گلدستہ پیش کیا۔
آکاش نے ہمیں پوجا میں شرکت ہونے کا شکریہ ادا کیا اور باقی مہمانوں سے ہمارا تعارف کروایا۔ مہمانوں میں کچھ لوگ برمنگھم سے آئے تھے جو آکاش کے قریبی رشتہ دار تھے۔ان ہی مہمانوں میں ایک انگریز جوڑا بھی تھا جو پنڈت جی کی ہندی نہ سمجھنے کی سزا پچھلے 2گھنٹے سے کاٹ رہا تھا۔بقیہ مہمانوں کا تعلق ہندوستان کے مختلف شہر وں سے تھا جو لندن میں بینک اور آئی ٹی سیکٹر میں کام کر تے ہیں اور پچھلے کئی برسوں سے لندن میں مقیم ہیں۔
آکاش نے مہمانوں کو کھانے کے لئے نمنتم کیا اورکھانے کا دور شروع ہوا۔ کھانا با لکل ساکا ہاری تھا۔ چھولے اور سموسے کے چاٹ سے کھانے کی شروعات ہوئی اور پھر مین ڈش میں مٹر پلاؤ، گوبھی آلو کی سبزی اور مٹر پنیر تھا۔ دورانِ لوازمات ہماری ملاقات ہندوستان سے آئے ہوئے ایک مہمان سرن صاحب سے ہوئی جو 7 سال قبل بطور آئی ۔ایس آفیسر ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔سرن صاحب گیانی ذیل سنگھ کی وزاراتِ داخلہ میں آفیسر تھے۔ ان کا نظریہ ہندوستان کی سیاسی صورتِ حال پر کافی مایوس کن تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی آج بد قسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ایک لیڈر نہیں ہے۔ انہوں نے گاندھی جی کی مثال دیتے ہوئے آج کے سیاستدانوں کے رویے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ وہ انًا ہزارے کی تحریک سے بھی کافی متاثر تھے۔
میں نے ان سے حال ہی میں آ ئی۔ ایس آفیسر درگا کی بر خواستگی کی وجہ اور یوپی حکومت کی کاروئی کے بارے میں در یافت کیاتو انہوں نے کہا کہ درگا نے کوئی غلطی نہیں کی ہے بلکہ سرکار نے اس میں ووٹ بنک کی سیاست کھیلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے سے درگا کے کیرئر اور پروموشن پر اثر پڑے گا اور اس کی نجی زندگی پر بھی اس کا اثر ہوگا۔
سرن صاحب نے ہماری گفتگو سے یہ اندازہ لگا لیا کہ ہم ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت سے مایوس ہیں اور خوش نہیں ہیں۔اس حوالے سے سرن صاحب نے ہمیں یہ بتا یا کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں جو سب سے بڑی کمی ہے وہ ہے تعلیم کی اور اس کی ذمًہ دار خود مسلم کمیونیٹی اور اس کے مسلم لیڈر ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کا مسئلہ پیچیدہ ہے اور اس کے سدھار میں کوئی 50سال اور لگیں گیں۔آخر میں سرن صاحب نے انگریز وں کے ہندوستان آنے کا مقصد خوش آئین بتا یا اور کہا کہ اگر انگریز ہندوستان نہ آتے تو شاید ہندوستان آج ہر شعبے میں پچھڑا ہوا ہوتا۔
شام ہوچلی تھی لیکن اجالا پھیلا ہوا تھا۔ ہم بقیہ مہمانوں کے ساتھ آکاش ور انکی پتنی کو ایک بار پھر نئے گھر کی مبارک باد دے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ واپسی میں ہم دریائے تھیمس (Thames)کی نچلی سطح پر 100سا لہ پرُانی رودرہیتھ ٹنل (Rotherhithe Tunnel) کے اندر سے گزر رہے تھے اور یہ سوال ذہن میں گونج رہا تھا کہ وطن سے دور ہندو اور مسلمان کتنے قریب ہیں لیکن اپنے وطن میں ہر وقت جھگڑتے رہتے ہیں اورایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ کاش ہمارے دوست آکاش کی فرقہ وارانہ یکجہتی کا آسمان مظفر نگر کے عوام بھی دیکھیں ۔

Leave a Reply