لندن سے تاریخی شہر استنبول کا سفر (3)

لندن سے استنبول جاتے وقت ہم نے ارادہ کیا تھا کہ نہ ہم دن کی پرواہ کریں گے اور نہ ہی وقت کی قدرکریں گے۔ کیونکہ لندن کی مصروف ترین زندگی نے مجھے وقت اور دن کا ایسا پابند بنا دیا ہے کہ میں گھڑی اور تاریخ کا غلام بن کر رہ گیا ہوں۔ ویسے یہ بات بری بھی نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے میری زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوگیا ہے اور میں اپنی کامیابی کا سہرا وقت کی پابندی کو ہی دیتا ہوں۔

سوموار کی صبح آنکھ کھلی تو موبائیل کی گھڑی پر سات بج رہے تھے۔ بستر سے اٹھا اور کھڑکی سے باہر جھانکا تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اندھیرے نے اب تک استنبول شہر پر اپنا قبضہ جما رکھا تھا لیکن اذان کی آواز نے اندھیرے کے سینے کو چاک کر دیا تھا۔ میں بھی نہا دھو کر آیا ہوٹل کے ترک ناشتے سے فارغ ہو کر ہوٹل سے باہر نکل پڑا۔ صبح کے کوئی دس بج رہے تھے اور زیادہ تر دکانیں کھل چکی تھیں۔ آج میں نے دنیا کا قدیم ترین بازار ’گرانڈ بازار ‘ دیکھنے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ گرانڈ بازار دنیا کا پہلا شاپنگ مال کہلاتا ہے۔ اس میں چار ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں اور اس کے اندر اکسٹھ گلیاں ہیں۔ سلطان مہمت دوئم نے جب قسطنطنیہ کو فتح کیا تو اس نے 1455 میں گرانڈ بازار کی تعمیر کا حکم دیاجو 1730 کے بعد مکمل ہوا تھا۔ گرانڈ بازار استنبول کا ایک ایسا معروف اور مقبول بازار ہے جہاں 250,000 سے لےکر400,000 لوگ روزانہ خریداری یا سیر کے لئے آتے ہیں۔ 2014میں گرانڈ بازار دنیا کا سب سے زیادہ دیکھنے اور پسند کرنے والی جگہ تھی۔ جب لگ بھگ 91,250,000 سیّاح دنیا بھر سے گرانڈ بازار دیکھنے آئے تھے۔

گرانڈ بازار میں داخل ہونے کے لئے بائیس دروازے ہیں ۔ بازار کی اونچی چھت اور جگمگاتی دکانوں سے اس بات کا صاف پتہ چلتا ہے کہ استنبول کا گرانڈ بازار ایک تاریخی اور باوقار جگہ ہے۔ پورا بازار لوگوں سے بھرا ہوا تھا اورتمام دکانیں لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔  میں نے چند ہی منٹ میں اس بات کو محسوس کیا کہ گرانڈ بازار میں تمام چیزیں دستیاب ہیں۔ خاص کر قالین ، کپڑے، چمڑے سے بنی چیزیں، رنگ برنگے ترکی لیمپ اور دیگر چیزیں بازار میں دکانوں کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ گرانڈ بازار کی لمبائی اور چوڑائی کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں ایک گھنٹے کے بعد مجھے تھکان محسوس ہونے لگی۔ بازار کے ایک حصّے میں ایک ریستواران تھا۔  ریستوران لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور لوگ ترک کھانوں کا مزہ لوٹ رہے تھے۔ میں بھی گرانڈ بازار کے عالیشان ہوٹل کے ایک کونے میں بیٹھ گیا اور تصویروں کی مدد سے آرڈر دے ڈالا۔ ریستوران سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی پینٹنگ سے سجی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ لال ترکی جھنڈا بھی ٹنگا ہواتھا۔ کھا پی کر جب دم میں دم آیا تو دوبارہ میں گرانڈ بازار کی سیر کو نکل پڑا۔

دوسرے روز آیا ہوٹل کی جانب سے ہم نے بس اور بوٹ ٹرپ کے لئے 55 یورو کا ٹکٹ خریدا اور بس پر سوارہو کر ہم استنبول شہر کو دیکھنے کے لئے نکل گئے۔ جس میں ہمیں دولما باچی پیلس، گولڈن ہارن اور بوسفارس میں پانی کے جہاز کے ذریعہ سفر اور پیرے لوٹی کی اونچائی پر کیبل کار کے ذریعہ گھومنا پھرنا شامل تھا۔ دولما باچی پیلس میں داخل ہونے سے قبل کلاک ٹاور کو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ اس کے بعد پیلیس کے اندر داخل ہونے کے بعد پیلیس کی خوبصورتی نے دل جیت لیا۔ دولما باچی پیلیس کو سلطنتِ عثمانیہ کی اکتیسویں سلطان عبدالمجید کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل سلطان توپ کاپی پیلیس میں رہا کرتے تھے۔ لیکن توپ کاپی پیلیس میں سلطان کو نئی آرائش اور سہولیات فراہم نہیں ہوتی تھیں۔  جس کی وجہ سے دولما باچی پیلیس کی تعمیر کا حکم دیا گیا۔ دولما باچی پیلیس میں بھی عام محلوں کی طرح بڑے بڑے فانوس اور اونچے اونچے دروازے نمایاں ہیں۔ جس سے سلطنتِ عثمانیہ کی شان کا پتہ چلتا ہے۔  دولما باچی کے مرکزی دروازے کی زمین پر جو سنگِ مر مر نصب ہیں ان پر سلطان کے گھوڑوں کے نال کے داغ آج بھی دِکھتے ہیں۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ سلطان کی سواری کتنی بھاری بھرکم اور مضبوط ہوں گی۔ اس کے بعد ہمیں دیگر سیاحوں کے ساتھ بوٹ پر سوار کر دیا گیا اور ہم گولڈن ہارن اور بوسافارس کی سمندروں سے گزر تے ہوئے استنبول کی تاریخی عمارتوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ کچھ گھنٹے کے بعد بوٹ ایمی نونو پر جا کر رکی اور ہم تمام سیاّح ٹور گائیڈ کے ہمراہ دی اسپائیس بازار (Th Spice Bazaar) پہنچے جسے(Egyptian Bazaar)’ایجپشین بازار‘ بھی کہتے ہیں۔ یہاں تمام قسم کے مسالے ، زعفران اور ترکی مٹھائیاں بکتی ہیں۔ دی ایجپشین بازار کی تعمیر 1660 میں ہوئی تھی۔

جمعرات کو ہم ابوایوب انصاری کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کے لئے گئے۔ آپ کا پورا نام خالد بن زید اور آپ مدینہ منورہ کے قبیلہ خجرج کے خاندان نجار سے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ہر شخص میزبانی کا شرف حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ اوٹنی بیٹھے گی وہیں آپ مقیم ہوں گے۔ اوٹنی ابو ایوب انصاری کے دروازے پر بیٹھی۔ ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ نبی اکرم نے نیچے قیام فرمایا اور سات ماہ تک ان کے گھر پر رہے۔ کہا جاتا ہے کہ سفر جہاد میں عام وبا پھیلی اورمجاہدین کی بڑی تعداد اس کے نذر ہوگئی۔ ابو ایوب بھی اس وبا میں بیمار ہو گئے۔ آپ نے فرمایا کہ تم دشمن کی سر زمین میں جہاں تک جا سکو میرا جنازہ لے جا کر دفن کرنا، چنانچہ وفات کے بعد اس کی تعمیل کی گئی۔ آپ کی وفات 42ہجری میں ہوئی اورآپ کو قسطنطنیہ میں دفن کیا گیا۔ ابو ایوب انصاری کے مزار کے احاطے میں ایک عالیشان مسجد ہے جہاں ہم نے ظہر کی نماز ادا کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ظہر کی نماز میں ہم نے اتنے لوگوں کو مسجد میں پایا جسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ یہ ظہر کی نماز نہیں بلکہ جمعہ کی نماز کا منظر ہے۔ نمازیوں کی بھیڑ کو دیکھ کر آنکھیں نم ہو گئیں اور دل سے ’اللہ اکبر‘ جاری ہونے لگا۔

جمعہ کی شام ڈاکٹر راشد حق کا واٹس اپ کے ذریعہ پیغام آیا کہ کیوں نہ ہم ان کے ہمراہ ایک شام شہر گھومنے نکلیں۔ ڈاکٹر راشد کا تعلق یوپی کے شہر جون پور سے ہے۔ پچھلے تین برسوں سے وہ استنبول یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے  خدمت انجام دے رہے ہیں۔ کم عمر اور کم گو ، علم سے مالا مال ڈاکٹر راشد حق نے تھوڑے ہی عرصے میں استنبول یونیورسٹی میں اپنا سکّہ جما دیا ہے۔ جس کا اندازہ مجھے استنبول یونیورسٹی جا کر ہوا۔ ہم دونوں پیری لوٹی کی اونچائی پر پہنچ کر ترکی چائے پیتے ہوئے روشنی میں ملبوس استنبول شہر کی خوبصورتی کا نظارہ کرتے رہے ۔

اتوار 26نومبر کو ہم اپنا سوٹ کیس تیار کرکے ہوٹل کے باہر ایک پیلی ٹیکسی میں سوار ہو کر بوجھل دل سے استنبول کو خدا حافظ کہتے ہوئے اتا ترک ائیر پورٹ کی جانب چل پڑے۔ تھوڑی دیر میں ترکش ائیر لائینز میں سوار ہوئے اور جہاز اپنی تیز رفتاری سے لندن کی جانب گامزن ہوگیا۔ اس طرح استنبول کا ایک یاد گار سفر اختتام کو پہنچا۔

Leave a Reply